اقتصادی سرگرمی میں خواتین کا کردار

ameena

اقتصادی سرگرمی میں خواتین کا کردار

ameenaخواتین اور اقتصادیات کے حوالے سے مطالعاتی گروپ برائے صنفی اُمور  ( ایس جی جی آئی )کے ورکنگ گروپ کا دوسرا اجلاس

ایس جی جی آئی ۔ ورکنگ گروپ برائے خواتین اور اقتصادیات کے دوسرے اجلاس میں محترمہ امینہ  سہیل نے اپنی بات کا آغاز اقتصادی سرگرمی کی عمومی وضاحت کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ کسی بھی معاشرے میں  اشیاء کی پیداوار، تقسیم اور صرف نیز مختلف افراد کے درمیان خدمات کا نام  ہے۔ یہ اس طریقے کی وضاحت کرتی ہے جس کے ذریعے انسان اپنی مادی ضروریات کے انتظامات کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر انسانی سرگرمی کا ایک اقتصادی پہلو ہوتا ہے اور معاشرے کا ہر فرد کسی نہ کسی اقتصادی سرگرمی  میں ملوث ہوتا ہے چاہے وہ اسے مالیاتی اصطلاحات کے طور پر محسوس نہ کرتا ہو۔
مسلم معاشرے میں اقتصادیات کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام میں اقتصاد بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔  اور یہ دیگر نظریات اور تصورات سے مختلف ہے۔ اسلام ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے ہم جنسوں کے لئے متفکر رہے اور حتی الوسع ان کا خیال رکھے۔ اور یہ  موجودہ نظاموں کے متبادل ایک جامع، مضبوط اور بہتر نظام مہیا کرتا ہے۔ اسلامی اقتصادیات کی بنیاد انسانی فلاح اور ہم آہنگی پر ہے نہ کہ ‘بقائے اصلح’  (سروائیول آف دی فٹیسٹ) کے نظریے پر۔جان کی حفاظت  چونکہ مقاصد الشریعہ میں سے ہے جس کے لئے اقتصادی سرگرمی ناگزیر ہے۔ اس وجہ سے یہ واجب ہو جاتی ہے۔
معاشرے میں انسان کا کردار اور اور اس کے عمل کی حدود کا تعین زمین پر انسان کے خلیفہ ہونے کے تصور کے ذریعے کر دیا گیا ہے۔ اس لئے اسلامی ماڈل میں اقتصادی سرگرمی ایک ذریعہ ہے ہدف نہیں۔  پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک طرف فقر سے خدا کی پناہ مانگی ہے اور دوسری جانب ایمان داری سے روزگار کی تگ و دو کرنے کو نماز کے بعد اہم ترین فریضہ قرار دیا ہے۔ لیکن اسلام  ایسے ماحول کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا جہاں اقتصادی مقاصد کے حصول کی تگ و دو پر کوئی پابندی نہ ہو۔
مزید گفتگو میں بات واضح کی گئی کہ اقتصادی سرگرمی انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ رہا ہے اور قدیم و جدید تمام ہی معاشروں اور تہذیبوں میں اس کا وجود ملتا ہے۔اسلام انسانی خدمات کو دنیاوی اور اخروی میدانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ دونوں کے درمیان ہم آہنگی پر زور دیتا ہے۔ اور ساتھ ہی اس ساری تلاش و جدو جہد میں ایمان داری اور تقویٰ کی خصوصی تاکید کرتا ہے۔اس بات کو نمایاں کیا گیا کہ قرآن نے اقتصادی سرگرمی میں عورت کی شمولیت کو واضح انداز میں بیان کر دیا ہے جیسا کہ عورت کی اپنی کمائی پر اس کا حق تسلیم  کیا گیا ہے۔ (القرآن 4:32)
جہاں تک حدود اور پابندیوں کی بات ہے تو اسلام نے کسی شخص کی زیادہ سے زیادہ کمائی کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔ البتہ وسائل کے منصفانہ اور بھر پور استعمال پر زور دیتا ہے اور سرمائے کی گردش کی حوصلہ افزائی کرتا ہے (ارتکاز مال کی حوصلہ شکنی کرتا ہے)۔ اسلامی نظریہ اقتصاد کی بنیاد انسانی فلاح اور ہم آہنگی پر ہے اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کو رد کرتا ہے ۔
wajiha kirenیہ محسوس کیا گیا کہ بقائے اصلح کے نظریے پر مبنی معاشرے میں ہر فرد کو عدم تحفظ کے احساس کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور اس احساس نے ان کی زندگی کو سوائے زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کے ہر مقصد سے بے نیاز کر دیا۔  یہ ذہنیت ایک طرف فرد اورقوم کے درمیان دوریاں پیدا کرتی ہے اور دوسری جانب کار دنیا سے خدا کی حکمرانی کے تصور کو ختم کرتی ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ دیکھا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستانی معاشرے میں زندگی کے متعلق اس سے برعکس عقیدہ ہے لیکن تمام عملی مقاصد کے لئے اسی نمونے کو اپنایا جاتا ہے۔ اس تضاد نے ہمارے معاشرے میں غیر یقینی اور دوغلے پن کو جنم دیا ہے جس کی نشاندہی ضروری ہے۔  توحید کا تصور اس معمے کو حل کرنے کے لئے بہترین بنیاد فراہم کرتا ہے۔

اس بات کی ایک بار پھر تاکید کرتے ہوئے کہ اقتصادی سرگرمی ایک مذہبی ذمہ داری ہے اور خدا کی رحمت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے، یہ دیکھا گیا کہ یہ مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں رحمت ہے۔
اس سرگرمی میں شمولیت اور اس کے لئے جدو جہد سے خواتین کی بے دلی یا بے اعتنائی یا تقوی کے نام پر اس معاملے میں ان پر پابندی لگانے کو دین کوئی تقویت نہیں دیتا۔ اسلام کی دی گئی رہنمائی میں اسے ایک جامع اور دور رس نظام زندگی کے طور پر لینا چاہیے نہ کہ انفرادی حیثیت میں۔ اسلام نے کفالت کے نظام کو مضبوط بنیادوں پر قائم کیا تا کہ معاشرے کے  ہر فرد کو معاشی تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ نظام کچھ لوگوں کا حق ثابت کرتا ہے جبکہ بعض پر ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ ہر فرد کی اقتصادی سرگرمی کا دائرہ کار اس مثالیے میں اس کے مرتبے کے لحاظ سے واضح کیا گیا ہے۔
ایک مثالی معاشرے کے لئے ضروری ہے کہ وہ فرد کی فلاح کے لئے کوشاں رہے، لیکن اس کا بوجھ معاشرے پر نہ پڑے بلکہ جیسا کہ خاندان معاشرے کا ایک بنیادی جز ہے، اس کی مضبوطی ہی معاشرے کی فلاح کی جانب پہلا قدم ہوگا۔
یہ بھی واضح کیا گیا کہ میسر ذرائع کا استعمال اقتصادی سرگرمی کا ایک اہم حصہ ہے ۔ تاہم قوت صرف  کا بے جا اور غیر محدود استعمال آج کی انسانی مشکلات کا ایک اہم سبب ہے۔  ایک مثالی معاشرہ اپنی ترجیحات کا تعین کرتا ہے، اور وسائل کے استعمال کے لئے رہنما خطوط متعنا کرتا ہے تا کہ  معاشرے کی متوازن نشوو نما ہو سکے۔  
یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ جب تک وسائل کی شراکت کی سوچ  فرد کی شخصیت میں سما نہیں جاتی تب تک صرف انتظامی اقدامات سے معاشرے کے تمام حصوں کو صحت مند اقتصادی سرگرمی میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
خلافت کا تصور اپنے ساتھ ایک احساس ذمہ داری لاتا ہے ۔ اس کا تعلق صرف قانون سے نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔  یہ خود احتسابی اور علیم و قدیر  خدا کے سامنے جوابدہی کا احساس دل میں جاں گزیں کرتا ہے۔
اقتصادی میدان میں خواتین کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے یہ محسوس کیا گیا کہ اس سلسلے میں مختلف  رویے اور نقطہ ہائے نظر ہیں، لیکن ان میں سے دو نمایاں ہیں۔ ایک نقطہ نظر تو عورت کو مکمل طور پر گھریلو کام کاج تک محدود کرنے کی وکالت کرتا ہے جبکہ دوسرا زندگی کے ہر میدان میں اس کی موجودگی کو ضروری سمجھتا ہے۔ یہ محسوس کیا گیا کہ ایک ان دونوں انتہا پسندانہ سوچوں کے بجائے ایک معتدل نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں قومی سطح پر ہونے والے ایک گیلپ (پاکستان) سروے ، جو دیہی اور شہری دونوں علاقوں پر مشتمل تھا ،  کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات زیر بحث آئی کہ معاشرے میں نئے رجحانات پنپ رہے ہیں۔  سروے کے نتائج کے مطابق ۵۵ فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ  بہتر معاشرت کے لئے میاں اور بیوی دونوں کو کام کرنا چاہیئے۔ لیکن معاش کی بنیادی ذمہ داری مرد ہی کہ ہے جیسا کہ ۷۲ فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اگر روزگار کے مواقع کم ہوں تو مردوں کو ہی ترجیح دینی چاہئے، جبکہ ۲۸ فیصد لوگ اس نظریے کے حق میں نہیں ہیں۔
mamonah ambreenحیرت انگیز طور پر 63 فیصد سے زیادہ لوگ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کی تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں۔ 83 فیصد سے زائد لوگوں نے  خاندان میں عورت کے روایتی کردار کی تائید کرتے ہوئے  اس رائے کی حمایت کی کہ خواتین کو خوش و خرم زندگی گزارنے کے لئے بچوں کی ضرورت ہوتی ہے۔  یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض ممالک نے اجتماعی زندگی میں عورت کی شمولیت میں اضافہ کرنے کے لئے کوٹہ سسٹم متعارف کروا کر ایک کوشش کی لیکن اس سے مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ ناروے، جنسی مساوات میں سب سے آگے ہے، جہاں قانونی طور پر کمپنیوں کے بورڈز آف  ڈائریکٹرز میں 40 فیصد خواتین کا ہونا ضروری ہے، لیکن کمپنیاں یہ تقاضا پورا کرنے میں شدید مشکلات محسوس کرتی ہیں۔ تجزیہ نگار حیران ہیں کہ گزشتہ 25 – 30 سال سے یونیورسٹیوں میں مرد و خواتین کا یکساں تناسب اور اتنی بڑی تعداد میں پڑھی لکھی اور تجربہ کار خواتین کی موجودگی کے باوجود بورڈز میں اتنی کم خواتین کیوں ہیں اور حکومت کو ان کا کردار بڑھانے کے لئے مداخلت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔
ایک اور مطالعہ جو کہ انٹر نیشنل سوشل سروے پروگرام کے تحت 34 ممالک میں کیا گیا اس کا بھی اقتباس نقل کیا گیا ۔ جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ناروے کی خواتین نوکری میں یکساں حصہ ہونے کے باوجود مرد کے مقابلے میں تین گناہ زیادہ وقت گھریلو کام کاج میں گزارتی ہیں۔
34 ممالک کے 18000 جوڑوں کا سروے کرنے کے بعد یہ مطالعہ اس نتیجے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ ہر ملک میں گھریلو کام کاج خواتین ہی کے ذریعے سر انجام پاتا ہے۔
اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ کوٹا مختص کر کے خواتین کو کسی مقام پر ترقی دینا درست حکمت عملی نہیں ہے۔ یہ ایک ظاہری اقدام ہے جو نہ صرف قابلیت کا انکار ہے  بلکہ خواتین کے لیے باعث الجھن بھی ہے۔
یہ مشورہ دیا گیا کہ اس طرح کے مصنوعی اقدامات کے بجائے خواتین کی حقیقی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے  اجتماعی سعی کے ذریعے معاشرہ کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے قابل ہو جائیں۔
اسی سلسلے میں ایک اور رپورٹ کا حوالہ دیا گیا جو ایک مقامی جریدے ( ہیرالڈ جولائی 2008) میں چھپی ہے۔ جس کے مطابق راولپنڈی میں 33 خواتین ٹریفک وارڈن کو بھرتی کیا گیا اور ان کو ان کے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں چار گناہ زیادہ معاوضہ دیا جا رہا تھا۔ یہ انقلاب حقیقتاً حیران کن ہے۔ اور یہ مشورہ دیا گیا کہ اگرچہ یہ رپورٹ ملک کے ایک نمایاں جریدے میں شائع ہوئی ہے تاہم اس کی تصدیق خود محکمہ پولیس سے کر لینی چاہیئے۔ یہ بھی زیر بحث آیا کہ معمول کی ٹریفک میں خواتین کی بھرتیوں کو عوام میں بھی قبولیت نہیں مل سکی۔  اسے خواتین کی  ایک غیر فطری اور غیر ضروری میدان میں شمولیت قرار دیا گیا جہاں وہ اپنی خدمات بانداز احسن انجام دینے سے قاصر ہیں۔
دوسرا نقظہ نظر یہ بھی پیش کیا گیا کہ اجنبیت کے تمام تر احساس کے باجود خواتین کے لیے یہ اور اس طرح کے کرداروں کی قبولیت میں اضافہ ہوگا۔ اور معاشرہ اس سے مانوس ہو جائے گا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ اہم مناصب سے خواتین کی غیر موجودگی بنیادی طور پر قبائلی سردارانہ  رویے کا نتیجہ ہے۔
ممبران نے یہ محسوس کیا کہ کسی فرد کی فطری ترقی اور نشوو نما کو روکنا اتنا ہی برا عمل ہے جتنا  کسی پر ایسی غیر فطری پوزیشن کے لئے دباؤ ڈالنا جس کا وہ اپنی قابلیت کے مطابق مستحق ہی نہیں۔
m saeed alraiیہ تجویزدی گئی کہ معاشرتی ساخت، اقدار کا دائرہ کار اور معاشرہ کی فلاح کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ ایسے خاص میدانوں کی نشاندہی کی جائے جہاں خواتین اپنی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں استعمال کر سکتی ہیں اور معاشرے کی ترقی اور بہتری کے حوالے سے ان کے کردار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں خواتین کو خصوصی محرکات اور سہولیات کی پیش کش کر کے ان میدانوں میں ان کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔
اس بات کو نمایاں کیا گیا کہ ہر معاشرے میں خواتین اپنے گھر اور خاندان کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں اور بعض اوقات تو شاید معاشرے میں کسی اہم کردار کی خواہاں بھی نہیں ہوتیں، اور یہ ان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ لیکن اس پر زور دیا گیا کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انہیں اپنی قابلیت، اور صلاحیت کے مطابق معاش کی تگ و دو سے روک دیا جائے۔
یہ محسوس کیا گیا کہ پاکستانی معاشرے میں خاندان کا ادارہ اس کی ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ پاکستانی خواتین نہ صرف خاندان کی حفاظت اور مضبوطی کے لئے اہم کردار ادا کر رہی ہیں بلکہ اقتصادی میدان میں  بھی اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ  اہم کام سر انجام دے رہی ہیں، بالخصوص دیہی علاقوں میں۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ خواتین کے اس کردار کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے، بلکہ اسے اقتصادی سرگرمی میں شمار کیا جائے۔
ameena sohail khalid rahman sammar javed-1اس مذاکرے کا اختتام کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیر کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نے کہا کہ حالیہ تبدیلیوں نے مسلمانوں کے لئے یہ چیلج پیدا کر دیا ہے کہ وہ اپنی روایتی سوچ پر موجودہ تناظر کے اعتبار سے نرا ثانی کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قابلیت کے اصول کو تمام تر اقتصادی ترقی کے لئے بنیاد بنا دیا جائے۔ اگر اس بنیادی اصول کو رواج دے کر انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات میں نافذ کر دیا جائے تو نہ صرف یہ کہ امتیازی سلوک پر مبنی شکایات اور پریشانیوں کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سے معاشرے میں فرد کے لئے کام کی نئی راہیں متعین ہونگی۔
اصولاً خواتین کے اقتصادی سرگرمی میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔  اقتصادی تگ و دو میں ان پر بھی وہی قوانین لاگو ہوں گے جو مردوں پر ہیں۔ اور پھر ہر فرد کا کردار‘ قابلیت’ کے اصول کے تحت متعین کیا جائے گا۔ ہر فرد کو کسی بھی میدان عمل میں اپنی صلاحیت ثابت کرنے کا پورا موقع ملنا چاہیئے۔ کسی مخصوص نوکری یا پیشے کی ضرورت کے پیش نظر قابلیت کا کوئی خاص اصول وضع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرچہ یہ معاشرے کے مختلف طبقات میں  کسی بھی جنس کے حق میں امتیاز کا سبب تو بنے گا۔
ایک فرد کے لئے معاشرے اور خاندان کا مفاد ہی  رہنما اصول ہونا چاہیئے۔ اور سب سے اہم یہ کہ گھریلو کاموں کو بھی بطور اقتصادی عمل تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے