ٹیم کی تربیت کا پروگرام
ادارے میں تحقیقی ٹیم کی تربیت کے پروگرام کے تحت چیئرمین آئی پی ایس پروفیسرخورشیداحمد، سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر سفیراختر اور قائداعظم یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر نصراللہ مرزا کے ساتھ تربیتی نشستیں رکھی گئیں۔ ان نشستوں کا مقصد تحقیقی اور پیشہ ورانہ صلاحیت میں اضافہ نیز تحقیق کاروں کے ذہنی افق کی کشادگی تھا۔
پروفیسر خورشیداحمد نے تحقیق کے دوران حالات حاضرہ پر نظر رکھنے اور قومی، علاقائی اور عالمگیر مسائل کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کی اہمیت واضح کی۔ دنیا میں تیزی سے بدلتی سیاسی، معاشی اور ثقافتی حقیقتوں اور نئے ابھرتے طاقت کے مراکز کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایشیائی ممالک خصوصا چین اور مسلم دنیا کا باہمی تعاون اکیسویں صدی میں دنیا کے لیے بھلائی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے تحقیق کاروں کو متوجہ کیا کہ نتیجہ خیز اور مثبت پالیسی کی تشکیل کے لیے انہیں اطلاقی تحقیق پر زیادہ ارتکاز کرنا ہو گا اور جب وہ افغانستان، ایران، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور علاقے کے مسائل کے معاملات پر تحقیق کر رہے ہوں تو نئی جغرافیائی سیاسی (geo-political)صورت حال پر نظر رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق کا کام کوئی کاغذی اور مفروضات پر مبنی کام نہیں ہے بلکہ یہ گہرائی، پختگی اور نہایت درجہ درستگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ کسی تحقیقی پراجیکٹ پر کام شروع کرنے سے پہلے اس تحقیق کے مقاصد کا واضح تعین ضروری ہے۔ انہوں نے تحقیق کے کام میں سوچ و فکر کو مہمیز دینے کے لیے مطالعہ کی غرض سے کچھ کتابیں تجویز کیں۔ کتابوں کے مطالعہ کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محقق کا مطالعہ وسیع اور متنوع ہونا چاہیے لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ اس نے اپنے شعبہ تحقیق سے متعلق کلاسیکی کتابوں کا بہت گہری نظر سے مطالعہ کیاہو اور ان کے مفاہیم کو پوری طرح ”ہضم” کرلیاہو۔
"ٹیم کی تربیت کا پروگرام” کے حوالہ سے منعقدہ دوسری نشست میں ڈاکٹر سفیراخترنے تحقیق کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر سیکھنے اور تحقیق کرنے کے اپنے تجربات بیان کیے۔ انہوں نے کہا کہ تحقیق کسی شعبہ علم میں معنی خیز اضافہ کا نام ہے۔ محقق کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نئے حقائق کو دریافت کرے، انہیں اجاگر کرے اور اپنے شعبہ تحقیق میں جامع اور معروضی تجزیہ پیش کرے۔
ڈاکٹر سفیر اختر نے کہا کہ جدید دور تخصص کا دور ہے۔ ہر محقق کو اپنے بنیادی شعبہ علم کے عمومی تصورات کے ساتھ ساتھ اپنے خاص شعبہ تحقیق میں ارتکازی اور گہرا علم حاصل کرنا چاہیے۔
زبانوں کو علم کے دریچے قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضرورت کے مطابق زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنا آج کے دور میں کسی بھی خاص شعبہ علم میں مثالی تحقیقی لوازمہ پیش کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ تحقیق کے اخلاقیات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تحقیق کار کو اپنے ذاتی تحقیقی کام کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ تحقیق میں مستعار خیالات کی گنجائش نہیں ہوتی۔ تحقیقی مقالہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کتاب تحریر کرنے کے مقابلہ میں مقالہ تحریرکرنا زیادہ تکنیکی کام ہے۔ ایک مقالہ کسے نئے پہلو یا زاویہ نظر کو سامنے لاتا ہے جبکہ کتاب کے لیے ضروری نہیں کہ وہ پہلے سے موجود لٹریچر میں کسی حقیقی اضافہ کا باعث ہو۔ ہماری آج کی تیزی سے بدلتی دنیا میں کمال(perfectionism) کا حصول مثالی ہے،اگر یہ وسائل اور وقت کے اہداف کی قیمت پرنہ ہو۔
تربیتی پروگرام کی تیسری نشست میں ڈاکٹر نصراللہ مرزا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معلومات جمع کرنا اور انہیں دوبارہ پیش کرنا اگرچہ پہلے سے موجود علم تک رسائی کو آسان بناتا ہے تاہم تحقیق میں حقیقی اضافہ یہ ہے کہ حقائق کے معروضی اور متوازن تجزیہ کے ذریعے ناقابل رسائی علم کو قابل رسائی بنا دیاجائے۔ محقق کو ہمیشہ تنقیدی نظر کا حامل اور معروضیت کے تقاضوں کا پابند ہونا چاہیے۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی جب وہ پہلے سے موجود کسی تناظر یا نقطہ نظر کو قبول کرے۔
ڈاکٹر نصراللہ مرزا نے قرار دیا کہ کسی ریسرچ پراجیکٹ میں مشکل ترین کام اصل مسئلہ یا سوال کا تعین اور اس کا فہم حاصل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ تحقیق کا جواز اور عقلی دلائل بھی اہم ہوتے ہیں۔ تجربہ کار محقق اور ریسرچ میتھاڈولوجی کے استاد نے شرکاء کو تحقیق کے مختلف مراحل سے بھی آگاہ کیا جن میں سوالات اٹھانے سے لے کر مقاصد کے تعین، معلومات کے حصول اور ان کے تجزیہ تک کے امور شامل ہیں۔
جواب دیں