نئی صدی: اسلام اور مغرب

نئی صدی: اسلام اور مغرب

۲۰۰۰ء میلادی کی آمد کےموقع پر ایک مرتبہ پھر مستقبل میںاسلام کےکردار بالخصوص روایت اور جدیدیت کی بحث کو معاشی،سیاسی اور معاشرتی تناظر میںزیر گفتگو لایا جا رہا ہےاور کہا جا رہا ہےکہ ایک عالم پیر مر رہا ہےاور ایک جہان نو پیدا ہو رہا ہےجس کی اصل پہچان اس کا معاشی تفوق اور نظریاتی طور پر ثنویت(dualism)  کی فتح ہے۔ کہا جا رہا ہےکہ اس ثنویت میںمعاشرہ اور مذہب دو ایسی قوتیںجو سابقہ دو صدیوںسےایک بنیادی کردار ادا کر رہی تھیںاب ان کی جگہ کچھ نئی اقدار کو لینی ہو گی۔

 

"The death of the belief in salvation by society, which for two hundred years had been the most dynamic force in the politics of the West and increasingly the politics worldwide, creates a void. The emergence of fundamentalist Islam is an attempt to fill this void. It is the result of disenchantment with the welfare state of the "democratic” West and with communist utopia. The strong resurgence of religion as an element in public life in the United States, the resurgence of evangelical and pastoral churches is in  some measure a reaction against the disappearance of the secular faith in salvation by society.” 1

پیٹرڈرکر کےخیال میںمغربی اخلاقیات کےدو اہم بنیادی عناصر مذہب اور معاشرہ اپنی تہذیبی عمر پوری کر چکےہیںاور اب نئی صدی کےتناظر میںایک نئےاخلاقی نظام کو اس خلا کو پر کرنا ہو گا۔ مذہب کا،خواہ وہ عیسائیت ہو یا ہندو ازم،یا بدھ ازم،اپنےمحدود روایتی کردار کی بنا پر،ایک ایسےدور میںجہاںزمان و مکان کےتصور میںبنیادی تبدیلی آ چکی ہو،اجنبی بن کر رہ جانا اتنی غیر معمولی بات نہیں۔ خود یورپ میںمذہب کےکردار کو محدود کر دینےمیںاس کی معاشرتی فکر (social thought)  نےبھی بنیادی کردار ادا کیا اور وہ بہت سےکام جن کا تعلق روایتی مذہب سےتھا اب معاشرہ نےاپنےہاتھ میںلےلیے۔ چنانچہ ذاتی اور نفسیاتی معاملات میںماہرین نفسیات،نکاح اور طلاق میںعدالت اور تعلیم میںریاستی تعلیمی اداروںکےسرگرم عمل ہونےکا نتیجہ میںروایتی مذہب کےبہت سےوظائف لادینی معاشرتی اداروںکےزیر تحویل آ گئے۔ لادینی فلاحی ریاست کےتصور میںمعاشرہ کو وہ مقام حاصل ہو گیا جو کل تک مذہب کا حصہ تھا اور اب یورپی انسان بڑی حد تک معاشرہ کا بندہ بن گیا۔ سوسائٹی نےاسےذاتی،سماجی اور معاشرتی معاملات میںلادینی،اخلاقی اور سماجی اقدار سےآراستہ کیا اور لادینی جمہوری سیاست کےساتھ انفرادیت پسندی، اباحیت،لذتیت اور مادی ترقی و فلاح کو معاشرتی ترقی کی علامات قرار دیا۔

بیسویںصدی کےآخری دو سال میںیہ اقدار یورپ و امریکہ کی ثقافت کی پہچان بن گئیںلیکن بیسویںصدی کی سائنسی ترقیوںکےباوجود معاشرتی اور اخلاقی میدانوںمیںجتنا واضح انحراف بلکہ زوال رونما ہوا اس کی مثال جدید انسانی تاریخ میںنظر نہیںآتی۔ اس صدی کی سب سےمہلک اخلاقی بیماری Aids نےمعاشرہ کےبعض بنیادی تضادات سےپردہ اٹھا دیا جو شخصی آزادی،انفرادیت اور اخلاقی اضافیت (ethical moral relation) ایسےخوشنما اصولوںکےنام پر ایک فرد کو اپنی من مانی کرنےکےلیےتحفظ فراہم کرتےرہے۔ اخلاقی اضافیت کی بنا پر سیاسی،معاشی اور معاشرتی معاملات میںعملاً ایک فرد کی اپنی خواہش اور حق وصداقت کی شخصی تعبیر زیادہ معتبر قرار پائی اور کسی مطلق سچائی،عدل اور حق کےتصور کو مکمل طور پر معاشرتی رواج کےتابع کر دیا گیا۔ فرد کےبنیادی حقوق اور شخصی آزادی کےنام پر اس اضافیت نےیورپ اور امریکہ میںسب سےزیادہ جس ادارےکو متاثر کیا وہ خاندان کا ادارہ تھا۔ انسانیت کےتاریخی مطالعہ سےیہ بات واضح ہو جاتی ہےکہ جب کبھی اور جہاںکہیںخاندان کا تقدس و احترام ختم کیا گیا پھر اس معاشرہ کو تباہی سےکوئی بڑی سےبڑی معاشی طاقت بھی نہ روک سکی اور ان معاشروںمیںویسی ہی مہلک بیماریاںپھیلیںجن کا ہم آج مشاہدہ کر رہےہیں۔ چنانچہ قوم لوط نے،جب بنیادی حقوق کےنام پر،آج کےgay rights  کی طرح اپنی بےرواہ روی کو درست سمجھا تو پھر دیگر اقوام کو ان کےمہلک زہر سےمحفوظ رکھنےکےلیےانہیںمکمل طور پر تباہ کر کےنشانہ ٔ  عبرت بنا دیا گیا۔
نئی صدی کےآغاز پر انسانیت کےمستقبل کےبارےمیںیہ سوچنا ضروری ہےکہ کیا فرد کی آزادی کےنام پر خاندان کےادارہ کو عملاً ختم کر کےاور اباحیت کو اختیار کر کےمغربی تہذیب نئی صدی میںکوئی تعمیری کردار ادا کرنےکی صلاحیت رکھتی ہے؟ یا اس روبہ زوال تہذیب کی جگہ آفاقی اخلاقی و الہامی اصولوںپر مبنی اسلامی تہذیب کو اس خلاء کو پُر کرنےکےلیےآگےبڑھنا ہو گا۔ مغربی تہذیب کو اپنی بقا و تحفظ کےلیےاسلامی تہذیب کےساتھ ٹکراؤ کی جگہ باہمی تعاون اور مفاہمت پر سنجیدگی سےغور کرنا چاہیے۔

اسلامی نظام حکومت،اسلامی قانون اور اسلامی معیشت کےنفاذ کی بات کوئی اسلامی تحریک کرےیا کوئی مسلم حکومت عموماً مغربی ابلاغ عامہ اور اصحاب اقتدار ایسی کوششوںکو اپنےلیےخطرہ سےکم تصور نہیںکرتے۔ اس تناظر میں۲۴ دسمبر ۱۹۹۹ء کو پاکستان کی عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ کہ ’’سود کی تمام اقسام قرآن و سنت کی تعلیمات کےمنافی اور ناجائز ہیں،‘‘ مغربی استعمار کو یقیناً ایک رجعت پسندانہ اور معاشی ترقی کےمنافی نظر آئےگا۔ کاش اپنی تمام ’’روشن خیالی‘‘ کےساتھ نئی صدی میںداخل ہوتےوقت مغرب اسلام کےبارےمیںاپنےpre- concieved  تصورات پر ایک معروضی نظر ڈالنےکی زحمت کرے۔
ہم اس فیصلہ کا قلب کی گہرائی سےاستقبال کرتےہوئےان ماہرین معاشیات کو جو سپریم کورٹ کےسامنےپیش ہوئےاور جن کی بڑی تعداد ایسےماہرین کی ہےجو آج کی دنیا کےبنکاری کےنظام سےعملی واقفیت ہی نہیںرکھتےبلکہ بنک کےاداروںسےوابستہ ہیں،ان علماء کرام کو جنہوںنے۱۹۹۰ء کی دہائی میںنہیںبلکہ اب سے۶۳ سال قبل۲ سود کےخلاف عَلم جہاد بلند کیا اور اس کاروان جہاد میںدیگر معروف علماء کو شمولیت پر ابھارا،وفاقی شریعی عدالت جس نےسود کی حرمت پر اپنا تاریخی فیصلہ دیا اور جس کےخلاف دو سابق حکومتوںنےسپریم کورٹ میںاپیل کرنےکی جسارت کی (بلکہ قرآن کی اصطلاح میںبغاوت کی اور جس کی طرف قرآن نےاشارہ کرتےہوئےسخت ترین سزا تجویز کی ہے) سندھ ہائی کورٹ کےاس فیصلہ کےمصنف جس میںدستور پاکستان کی دفعات کےتحت سود کو حرام قرار دیا گیا تھا اور ان تمام ماہرین قانون اور قضا کو مبارک باد کا مستحق سمجھتےہیںجن کی شب و روز کی کاوشوںسےیہ فیصلہ،ایک ایسےمہینہ میںجو برکتوںکا مہینہ ہےاور ایک ایسےعشرےمیںجو مغفرت و عفو کا عشرہ ہے،منظر عام پر آیا۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے