تہذیبی تصادم: نئےتناظر میں
اکیسویںصدی کی آمد کا اعلان علمی اور عالمی سیاسی حلقوںمیںبعض پیشین گوئیوںاور دعو وںکےساتھ ہوا۔ مغربی سرمایہ داری نےاشتراکیت کی پسپائی کو اپنی فتح مندی سےتعبیر کرتےہوئےنئےعالمی نظام کےنعرےکےذریعہ ایک نئےمعاشی سامراجی دور کےقیام کا اعلان کیا اور عالمی سطح پر ایسی تنظیمیںقائم کیںجو معاشی شاہرا ہوںپر اپنی پوری گرفت رکھ سکیں۔ چنانچہ NAFTA, WTOاور APEC کی شکل میںعملاً چند اقوام کی معاشی قیادت کےمنصوبےکو عملی شکل دی گئی۔ اس طرح شمال کی جنوب پر معاشی حاکمیت کو نئی صدی کےحوالےسےمستحکم اور موثر بنانےکی کوشش کےساتھ ابلاغ عامہ،تعلیم،اور ثقافت کےشعبوںمیںبھی عالمگیریت کےزیر عنوان مغرب کی نمائندہ اقوام ہی پر نہیںجاپان جیسی معاشی طورپر ترقی یافتہ قوم پر حاوی ہونےکےلیےمناسب اقدامات کیےگئے۔
فکری محاذ پر مستقبل میںپیش آنےوالےخطرات کےعکس کوذہن میںلاتےہوئےنوےکی دہائی میںامریکی مورخ سیموئل ہنٹنگٹن نے۱۹۹۳ء میںنیویارک کےمعروف سہ ماہی رسالےForeign Affairs میںایک مضمون میںتہذیبی ٹکراؤ کی پیشین گوئی کی۱۔ اس مضمون نےغیر معمولی طور پر علمی حلقوںمیںایک فکری ہل چل پیدا کی اور ہر دو جانب سےاس پر تنقید و توثیق کرتےہوئےاہل علم نےاپنی آزادانہ رائےکا اظہار کیا۔ ایک مورخ ہونےکےباوجود شاید ہنٹنگٹن کو خود بھی اپنےمفروضہ کےاس طرح زیر بحث آنےکی توقع نہ تھی۔ عالمی سیاسی حلقوںمیںشاید اس کےاثرات کچھ عرصہ کےبعد ظاہر ہوتےلیکن ۱۱ ستمبر کو عالمی تجارتی مرکز کےانہدام کےنتیجہ میںعالمی بساط پر جو واقعات رونما ہوئےہیںانہوںنےہنٹنگٹن کےمفروضےکی فنی اور فکری کمزوریوںکےباوجود بڑی حد تک اس کےتصور کی تصدیق کر دی ہے۔ چنانچہ صدر امریکہ کا پہلا ردعمل ہی اس بات کا مظہر تھا کہ تجارتی مرکز کا انہدام ایک نئی صلیبی جنگ کےآغاز کا اعلان ہے۔ اور انہوںنےبزعم خود یہ اعلان بھی کر دیا کہ یہ جمہوریت اور تہذیب کےخلاف بربریت اور دہشت گردی کی طرف سےحملہ ہےجس کا جواب وہ مستقل جنگ کی شکل میںنہ صرف امریکہ بلکہ یورپی اقوام کو ساتھ ملا کر دیںگے۔
اس اعلان کو عملی شکل یوںدی گئی کہ کسی ثبوت کےبغیر محض شبہ اور گمان کی بنا پر اسامہ بن لادن کو مجرم تصور کرتےہوئےطالبان حکومت اور افغانستان کےبےوسائل افراد پر جدید ترین فضائی قوت کو تجرباتی طور پر آزمانےکا فیصلہ کر کےامریکہ اور برطانیہ نےمشترکہ طور پر ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء سے’’تہذیبی جنگ‘‘ کو ایک انسانیت سوز ریاستی دہشت گردی کی شکل میںعملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ اس طرح وہ مفروضہ جو کل تک محض ایک مورخ کا قیاس تھا ایک تاریخی حقیقت میںتبدیل ہو گیا۔ لیکن اس عمل میںہنٹنگٹن کےتجزیہ سےکتنی مناسبت ہےاور کیا واقعی امریکی اور برطانوی دہشت گرد حملےایک تہذیبی جنگ کی علامت ہیںیہ بات غیر جانبدارانہ علمی تحقیق کی دعوت دیتی ہے۔
ہنٹنگٹن کا مفروضہ پانچ فکری بنیادوںپر استوار ہے۔ اس کا پہلا مفروضہ یہ ہےکہ تہذیبیںاپنی اصلیت میںمکمل طور پر مختلف اور منفرج ہوتی ہیںاور ان میںاشتراک و تعاون کا امکان بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کےنتیجہ میںدوسری خصوصیت یعنی ان کا ٹکراؤ وجود میںآتا ہےاور یہ بڑی حد تک ایک منطقی ضرورت بن جاتا ہے۔ تیسری چیز جس پر اس نےاپنی فکر کےتانےبانےبنےیہ تصور ہےکہ تہذیبیںدراصل نسل اور مذہب کی بنیاد پر اپنا تشخص قائم کرتی ہیں۔ جبکہ چوتھی اہم چیز جس پر وہ زور دیتا ہےمغربی تہذیب میںپایا جانےوالا ایک فکری اور ثقافتی اتحاد ہےجس کی بنا پر دنیا گویا مغرب اور ’’غیروں‘‘ (others) میںتقسیم ہےاور مغرب کا مقابلہ بقیہ ’’دوسروں‘‘ کےساتھ ہے۔ آخری نکتہ جو اس کی فکر کو چھاننےپھٹکنےسےملتا ہےاور جو اس کی فکر کا حاصل بھی کہا جا سکتا ہےیہ ہےکہ دنیا میںمتوازی ثقافتی،دینی،تہذیبی وجود کی جگہ تہذیبی ٹکراؤ کےبعد ایک غالب تہذیب کی فوقیت قائم ہونےکےامکانات زیادہ پائےجاتےہیں۔ گویا ہنٹنگٹن کو ثقافتی اور دینی کثرتیت pluralism کا امکان کم سےکم تر ہوتا نظر آ رہا ہے۔
ان پانچوںنکات کو ذہن میںرکھتےہوئے،جنہیںہم نےممکنہ اختصار کےساتھ اوپر بیان کر دیا ہے،اس بات پر غور کرنےکی ضرورت ہےکہ امریکہ اور برطانیہ کےافغانستان پر حملہ کا ہدف کیا واقعی Sino-Islamicاتحاد کےامکان کو ختم کرنا ہےیا نام نہاد مغرب ہی نہیںبلکہ چین کو بھی اپنےساتھ کسی نہ کسی حیلےسےشامل کر کےاسلام پسند قوتوںکو کچلنا ہے؟
گزشتہ چند ماہ کےواقعات کےتسلسل پر غور کیا جائےتو یوںنظر آتا ہےکہ شطرنج کےمہروںکی طرح بساط سجاتےوقت مسلم اور غیر مسلم دنیا کےحکمرانوںکی نفسیات اور عوامی ردعمل (معاشرتی نفسیات) کےپیش نظر اس کھیل میںمتوقع طور پر جیتنےاور ہارنےوالوںکا تعین بھی کر لیا گیا تھا اور پھر اسےکمال چابکدستی سےایسےحالات میںرُوبہ عمل لایا گیا کہ واردات کرنےوالوںکےبارےمیںکوئی بات وثوق سےنہ کہی جا سکےاور بار بار جو دعویٰ کیا جائےوہی سچ مان لیا جائے۔
اتنی عمدگی سےچار مختلف مقامات سےجہازوںکا اغوا،عسکری مہارت کےساتھ انتہائی تیز رفتاری سےجہازوںکو مطلوبہ ہدف پر ٹکرانا (جو انسانی نگاہ کےذریعہ ناممکن ہے،اور صرف اعلیٰ حساس آلات کےذریعہ ہی ممکن ہے،جو تجارتی جہازوںمیںنصب نہیںہوتے) پھر تجارتی مرکز کی عمارت کےایسےحصےپر ضرب لگانا جس کےبعد وہ محض تباہ نہ ہو بلکہ منہدم ہو،اس پوری کار روائی کا مقصد کیا صرف یہ تھا کہ امریکہ کےتجارتی اور دفاعی مراکز کو نہ صرف مکہ بلکہ ایک زوردار طمانچہ تو رسید کر دیا جائےلیکن امریکہ میںاس کا کوئی ردعمل نہ ہو۔ نہ صرف یہ بلکہ پوری دنیا طمانچہ مارنےوالےکی گرویدہ ہو کر واہ واہ کرنےلگے! اور امریکہ علی الاعلان اپنی کمزوری،بےبسی،اور لاچاری کا اعلان و اقرار کرتےہوئےاس واقعہ کے ذمہ دار افراد کو بد دعا دیتےہوئےصبر و تحمل کےساتھ دوبارہ تجارتی مرکز کی منہدم عمارت کی تعمیر میںلگ جائےگا؟ اگر فی الواقع اتنےعمدہ اور فنی مہارت کےساتھ تخریبی منصوبہ ساز افراد کےذہن میںیہ سوالات کبھی نہ ابھرےتو وہ اس منصوبےکےخالق بھی نہیںہو سکتے۔
اگر اس منصوبہ کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ اس حملہ کےنتیجہ میںاسرائیل سےاپنی دوستی سےہاتھ روک لےگا اور حماس کی حمایت کا اعلان کر دےگا تو غالباً اس سےزیادہ طفلانہ خیال اور کوئی نہیںہو سکتا۔ ہاںاگر مقصود یہ تھا کہ حملہ کو ابھی دس منٹ بھی نہ گزریںاور عالمی میڈیا اور اس کےحواری سب مل کر مسلمانوں،اسلام اور مسلم ’’بنیاد پرستوں‘‘ کو مورد الزام ٹھہرائیںتو یہ بات ہر لحاظ سےمنطقی اور منصوبہ کا اصل مقصد معلوم ہوتی ہے۔ اگر عالمی تجارتی مرکز کا انہدام اور امریکی دفاعی وزارت پر حملہ کا مقصد مسلمان دشمنی میںشدت پیدا کرنا اور اس کےنتیجہ میںعالمی نقشہ پر مسلمانوںکےساتھ ایک صلیبی جنگ کی کیفیت پیدا کرنا تھا تو کیا اس کا محرک کسی ’’جہادی‘‘ گروہ کو ہونا چاہیےیا اس کی پشت پر صیہونی سازش کو ہونا چاہیے؟ جس طرح جہازوںاور عمارتوںکو تباہ ہونا تھا اس کےبعد ملبہ سےکوئی سراغ ملنا عملاً ناممکن ہوتا ہےاس لیےجو دعویٰ بھی کیا جائےگا اس کا واقعی ثبوت ملنا کہ فلاںشخص اصل ہائی جیکر تھا محض قیاس ہی ہو گا۔ جس طرح پورےمعاملہ کو فنی مہارت کےساتھ کیا گیا اس کےبعد یہ کہنا کہ کار پارک میںجس گاڑی کےبارےمیںدعویٰ کیا جا رہا ہےکہ اسےہائی جیکروںنےاستعمال کیا ہو گا اس میںقرآن کریم پایا گیا یا عربی میںجہاز چلانےکی ترکیب پائی گئی مسلمانوںکی طرف ذہن کو متوجہ کرنےکی واضح سازش نظر آتی ہے۔ جو ہائی جیکر امریکہ کی تمام خفیہ اداروںکےچوکس ہونےکےباوجود خود امریکہ ہی میںتربیت پا کر چار مختلف مقامات پر بیک وقت اس طرح باہمی coordination سےکام کرنےکی صلاحیت رکھتےہوںوہ اتنےنا تجربہ کار نہیںہو سکتےکہ اپنا پاسپورٹ،شناختی کارڈ یا ایسی چیزیںساتھ رکھیںجو ان تک رسائی کا سبب بن سکیں۔
ان واقعات کےپس منظر میںجو تبدیلیاںعالمی طور پر وجود میںآ گئی ہیںان کی طرف بھی چند اشارےضروری ہیں۔ پہلی بات تو یہ واضح ہو چکی ہےکہ بار بار یہ کہنےکےباوجود کہ یہ جنگ مسلمانوںیا اسلام کےخلاف نہیںہےاس واقعہ کےبعد صرف اور صرف مسلمانوںکو امریکہ اور برطانیہ میں،جرمنی اور فرانس میں،کینیڈا اور آسٹریلیا میںغرض مغربی دنیا میںنہ صرف ملزم بلکہ مجرم گردانتےہوئےمتعصبانہ طرزعمل اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دوسری بات یہ بھی واضح ہےکہ اس کےنتیجہ میںبجائےمسلم چینی اتحاد کےچینی اور روسی اور امریکی اتحاد اسلام اور مسلمانوںکےخلاف وجود میںآتا نظر آ رہا ہے۔ تیسری بات یہ کہ اس واقعہ کےفوراً بعد اسرائیل کی طرف سےفلسطین میںاور انڈیا کی طرف سےکشمیر میںتحریک آزادی پر ظلم و تشدد میںیک دم اضافہ ہوا ہے۔ چوتھی بات یہ کہ پاکستان جو ابھی چند ماہ قبل چین کو اپنی معاشی ترقی میںشرکت کی طرف متوجہ کر رہا تھا اور بعض ترقیاتی منصوبوںخصوصاً پسنی کی بندرگاہ اور شاہراہ ریشم کےعلاوہ بجلی کی پیداوار میںاس سےتعاون کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا اب وہ امریکی جارحانہ پالیسی کا حصہ بن کر چین کی نگاہ میںغیر معتبر بنتا جا رہا ہے۔ اب جبکہ پاکستان امریکہ کا ساتھ (چاہےمجبوراً) دےرہا ہےگزشتہ ۱۵ سال میںجو برادرانہ تعلقات افغانستان سےاستوار ہوئےتھےوہ یکمشت مخالفت میںتبدیل ہو گئےہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا ان تمام اہداف کےحصول کا منصوبہ ’’القاعدہ‘‘ کو بنانا چاہیےتھا یا کسی صیہونی دفاع کو؟
جو معاندانہ فضاء اس عالمی سازش کےنتیجہ میںپیدا ہوئی اس کا حل؟ ہمارےخیال میںہر شے میںاللہ تعالیٰ کی طرف سےکوئی خیر کا پہلو بھی ہوتا ہےاس لیےاولاً اسلام کےحوالےسےاس وقت جو بےبنیاد افواہیںاور غلط معلومات نشر کی جا رہی ہیںانتہائی گرم جوشی اور حکمت کےساتھ ان کی اصلاح کرتےہوئےصبر و استقامت اور حکمت کےساتھ اپنی بات کو پیش کرنےکی ضرورت ہے۔ مسلم دانشوروںاور اہل علم کا فرض ہےکہ وہ مغرب کےذہن کو سامنےرکھتےہوئےاسلام اور مسلمانوںکےبارےمیںبغیر کسی معذرت کےقرآن و سنت پر مبنی معلومات کو بغیر کسی مداہنت کےصحیح خدوخال کےساتھ پیش کریںتاکہ اس وقت جو تجسس پایا جاتا ہےاسےدعوتِ دین اور دعوتِ حق کےلیےاسلام کےحق میںاستعمال کیا جا سکے۔ جرمنی میںہونےوالی کتابوںکی ایک حالیہ نمائش میںپہلےاس بات پر بحث ہوئی کہ اسامہ بن لادن اور مسلمانوںپر کتابیںرکھی جائیںیا نہیںاور جب طےہوا کہ رکھی جائیںتو سب سےزیادہ دینی کتب کی فروخت ہوئی۔
اس بات پر بھی غور کرنےکی ضرورت ہےکہ مسلم فرمان روا جس عالمی قوت کو اپنا اصل سہارا اور ’’خدا‘‘ سمجھتےہیںکیا وہ خود اپنےملک میںاپنےاداروںکا دفاع کر سکتی ہےاور کیا وہ کسی دوسرےکا دفاع اپنےسےزیادہ کر سکتی ہے؟ قرآن کریم میںحضرت ابراہیم کےواقعہ میںہمارےلیےسامانِ عبرت ہے۔ قرآن کی تمثیل میںدیکھا جائےتو امریکہ جو اپنےبارےمیںسب سےبڑا ’’خدا‘‘ کا بت ہونےکا دعویٰ کرتا ہےاس بڑےبت کےسامنےاس کےمعاشی بت کو پاش پاش کر دیا گیا اور وہ یہ سب ہوتےدیکھتا رہ گیا۔ جو بت اپنےبت خانےکےچھوٹےبتوںکو نہ بچا سکا کیا اس کی وہ افواج اور اسلحہ جو مسلم ممالک کی حفاظت کےلیےان کی حدودِ مملکت میںرکھےگئےہیںمسلم ممالک کو بچا سکتےہیں؟
یہ بات بھی قابل غور ہےکہ ابلاغ عامہ کی اس یلغار میںصرف الجزیرہ ٹی وی نےحقائق پر مبنی معلومات دینےکی کوشش کی جبکہ مسلم دنیا بشمول پاکستان مغربی مفادات کےتحفظ کےپیش نظر تراشیدہ اطلاعات فراہم کر رہےہیں۔ یہ ابلاغی شتر مرغ جو اپنےٹی وی پر صرف چین و سکون کا ذکر کرتےہیںکب تک اس زیر سطح طوفان کو دبا سکتےہیںجو ابلنےکےبعد پھٹا چاہتا ہے؟ کیا اہل ایمان کا شیوہ یہی ہونا چاہیے! اگر اہل ایمان اس جہاد میںعملاً شامل نہ ہو سکیںجو مال اور نفس سےکرنا فرض کر دیا گیا ہےتو کیا زبان اور قلم سےحق کی حمایت اور کفر،صیہونیت اور عالمی سامراج کی مخالفت کرنا بھی ہمارےبس میںنہیںہے۔
جواب دیں