’برین اسٹارمنگ ریسرچ آئیڈیاز – ایمان اور معاشرہ ‘
اسلام سے متعلقہ امور پرمستقبل کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ، مسائل کے حل پر مبنی تحقیق ضروری ہے
زندگی کے مختلف شعبوں میں آنے والی مسلسل تبدیلیوں اور ان کے چیلنجوں کو مواقع میں تبدیل کرنے کے لیے گہری توجہ اور پوری فعالیت کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔ ان مواقع سے استفادہ کرتے ہوئے، اسلامی دنیا اور اس کے تعلیمی ادارے اپنی فعال اور حل پر مبنی تحقیقی کارکردگی کے ذریعے دنیا میں مستقبل کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے تعمیری تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار 19 جولائی 2022 کو آئی پی ایس میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں ہوا جس میں ریسرچ اکیڈمی فور ہائر ایجوکیشن اینڈ ٹیکنالوجی (دارالعلم والتحقیق) کراچی کے رابطہ وفد نے ڈاکٹر سید عزیز الرحمن کی سربراہی میں شرکت کی۔ وفد میں وہ علماء شامل تھے جنہوں نے اپنی مدرسہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں اور اب مختلف اداروں میں پڑھا رہے ہیں۔ اس فورم کا انعقاد آئی پی ایس کےپروگرام ’پروموٹنگ انڈیجینس پالیسی ریسرچ انیشی اییٹو‘ کے تحت کیا گیا تھا تاکہ نوجوان اور نوآموزاسکالرز کے لیےبرین سٹورمنگ ریسرچ آیڈیاز پر غور کیا جا سکے۔ اس اقدام کا مقصد تعلیمی تحقیق کو مزید نتیجہ خیزبنانا اور پالیسی سازی کےعمل سے جوڑنا ہے۔
اس موقع پر’دارالعلم والتحقیق‘ کے ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن نے کہا کہ دینی مدارس اور دیگر تعلیمی نظاموں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے سے زندگی کے مختلف شعبوں میں عصری مسائل کو حل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ اسلامی تعلیمی اداروں نے اسلامی اقدار کی ترویج اور سماجی مسائل کے حل میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ تاہم، وہ کچھ مسائل پراپنی تشویش پر مبنی سوچ کے باعث، دوسروں کےنقطۂ نظر اور عصری گفتگو سے لاتعلق نظر آتے ہیں اور ان کےمخالف سمجھے جاتے ہیں۔ جبکہ، معاشرے کی ضرورت یہ ہے کہ مسائل کے حل اور اجتماعی کردار ادا کرنے کے لیے دونوں تعلیمی نظاموں کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کیا جائے۔ تاہم، ان کی انفرادیت کے دعوؤں نے دونوں نظاموں کو الگ الگ کیے رکھاہے، جو اکثر بے بنیاد مفروضوں اور دقیانوسی تصورات پر مبنی ہیں۔ انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہاکہ مستند تحقیقی کاموں کے ذریعے مطلوبہ تبدیلیاں اور نتائج لانے اورہم آہنگی سے کام کرنے کے لیے دونوں تعلیمی نظاموں کو ایک دوسرے کو تسلیم کرنا چاہیے۔
زندگی کے مختلف شعبوں کے باہمی ربط پر روشنی ڈالتے ہوئے، چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کہا کہ یہ ہمیشہ ہوتا ہے کہ زندگی کے ایک شعبے میں تبدیلی دوسرے شعبوں پر اثرات مرتب کرتی ہے۔ان شعبوں میں سب سے بنیادی نوعیت کا شعبہ تعلیم کا نظام ہے اور تحقیق اور علمی عکاسی کی صورت میں اس کا نتیجہ عالمی نظریہ کو تشکیل دیتا ہے، طرزِ عمل کو سنوارتا ہے اور تعلقات پیدا کرنے کی راہ سجھاتا ہے۔ چنانچہ، یہ انتہائی ضروری ہے کہ تعلیمی شعبے کو قومی یکجہتی کےلیے ایک کلیدی محرک کی حیثیت سے ترقی دےجائے۔
عصر حاضر میں، افکار کی بڑی تعداد کومغرب کی طرف سے مختلف شعبوں میں تحقیق اور غور و فکر کے عمل کے ذریعے تخلیق کیا جاتا ہے۔ اس نے درحقیقت اسلامی تہذیب کی جگہ لے لی ہے، جو بنیادی طور پر علمی اور فکری سوچ سے ہی پروان چڑھی تھی۔ اسلامی فکر کو ابھی تک اس انداز میں پیش نہیں کیا گیاجو موجودہ دور میں اٹھنے والےسوالات کا جواب مطمئن کر دینے والے انداز میں دے سکے۔
اس خلا اور فراموش شدہ کردار کو پر کرنے کے لیے عالم اسلام کے لیےتغیر کے عوامل اور تبدیلیوں کے بنیادی اصولوں سے متعلق علم جاننا ضروری ہے۔ اسی طرح، اس کے لیے تغیر اور تبدیلی کے تصوراتی پہلوؤں اور آپریشنل فریم ورک کو بھی سمجھنا چاہیے۔ تبدیلیوں کا ایک تصوراتی ڈھانچہ پیش کرتے ہوئے، رحمٰن نے کہاکہ انسان یا تو لاتعلق ہوتا ہے، رد عمل کا اظہار کرتا ہے یا تبدیلی کا تخلیق کار ہوتا ہے۔ سوچ کے یہ بنیادی تصورات رویوں کی وضاحت اور تشکیل کرتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ مسلمانوں کومحض رد عمل دینے، نیزٹیکنالوجی اور بیانیے کو اختیار کر لینے کا کردار ترک کر دینا چاہیے۔ مسلمانوں کو مزید تعمیری تبدیلیاں لانے کے لیے تبدیلیوں کو مواقع میں بدلنےکی ضرورت ہے۔ تبدیلیوں کی بڑھتی ہوئی رفتار اور ان کی وسیع رینج کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی دنیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ نوآبادیاتی سوچ کی غلامی سے نکلے اور خود ان تبدیلیوں کی خالق بنے۔
انہوں نے کہا کہ اختراع پسند سوچ نئے رویوں کی تخلیق کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ ، اسلامی دنیا کو تعلیم اور تحقیق کے میدان میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے اسلامی افکار کے بنیادی اصولوں پرسمجھوتہ کیے بغیر جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم کے ان دونوں نظاموں کے درمیان ماہرین کے درمیان مؤثر رابطوں،تحقیقی اشتراک اور خیالات کا تبادلہ ضروری ہے۔
اس تبدیلی کے آپریشنل فریم ورک کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے، رحمٰن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ناقص سوچ کے حامل عوامل اور ماضی کی فکر پر ہی کاربند اقدامات تبدیلی کے عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتےہیں۔ تبدیلیوں سے مواقع پیدا کرنے کے لیے، اسلامی دنیا اور اس کے تعلیمی اداروں کو مستقبل کےمنظر نامے کے مطابق افکار کی تخلیق پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ مزید برآں، اسلامی دنیا کو کثیرالجہت تحقیقی نمونوں اورنئے افکار کی تشکیل کے لیے تبدیلی کے عمل سے دور رکھنے والی ناقص سوچ سے چھٹکارا پانا چاہیے۔
بحث کا اختتام اس اتفاق رائے پر ہوا کہ تعلیمی اداروں کی ساکھ کا تعین مؤثر تحقیقی کارکردگی پرہونا چاہیے جس کا مقصد اسلامی افکار کی ترویج کے وسیع تر اور حتمی مقصد کی سمت چلتے ہوئے دنیائے علم میں اختراعی اور تعمیری تبدیلیاں لانا ہو۔
جواب دیں