’بلیو ٹاکس: بین الاقوامی قوانین کے نفاذ کے ذریعے سمندروں اور ان کے وسائل کے تحفظ اور پائیدار استعمال میں اصافہ کرنا‘
سمندرو ں کے عالمی دن کے موقع پر سمندروں کے تحفظ کے لیے جامع حکمت عملی اپنانے پر زور، بین الاقوامی قوانین کی اہمیت پر گفتگو
سمندرو ں کے عالمی دن کے موقع پر سمندروں کے تحفظ کے لیے جامع حکمت عملی اپنانے پر زور، بین الاقوامی قوانین کی اہمیت پر گفتگو
سمندروں کے تحفظ اور مؤثر انتظام کے لیے جامع نقطہ نظر سے ایسی حکمت عملی اپنانےکی ضرورت ہے جس میں بین الاقوامی قوانین کا نفاذ، رویوں میں تبدیلی ، استعداد کار میں اضافہ، سائنسی اختراعات سے استفادہ کرتے ہوئے روزگار کی فراہمی،اور قومی، علاقائی اور عالمی سطح پر اسٹیک ہولڈرز کا تعاون شامل ہو ۔
ان خیالات کا اظہاربحریہ یونیورسٹی میں 8 جون 2022 کو منعقدہ ہائبرڈ سیمینار میں کیا گیا جس کا عنوان تھا ’بلیو ٹاکس: بین الاقوامی قوانین کے نفاذ کے ذریعے سمندروں اور ان کے وسائل کے تحفظ اور پائیدار استعمال میں اصافہ کرنا‘، جس کا اہتمام نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز (نیما)، انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس)، اسلام آباد، اور اسلام آباد میں پرتگال کے سفارت خانہ نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
سیمینار سے پرتگالی انسٹی ٹیوٹ آف دی لاء آف دی سی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر واسکو بیکر وینبرگ نے کلیدی مقرر کے طور پر خطاب کیا۔ دیگر مقررین اور گفتگو کرنے والوں میں خالد رحمٰن ، چیئرمین، آئی پی ایس؛ وائس ایڈمرل (ر) عبدالعلیم، ڈائریکٹر جنرل، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز ؛ پاکستان میں پرتگال کے سفیر پاؤلو نیوس پوچینو؛ ریئر ایڈمرل فواد امین بیگ، ڈائریکٹر جنرل، پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی(پی ایم ایس اے)؛ ڈاکٹر آصف انعام، ایسوسی ایٹ پروفیسر اور میری ٹائم سائنسز بحریہ یونیورسٹی کے سربراہ،؛ ڈاکٹر ملیحہ زیبا خان، اسسٹنٹ پروفیسر نمل اور نان ریذیڈنٹ ریسرچ فیلو آئی پی ایس شامل تھے۔
سیشن کی نظامت نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز کے ڈائریکٹر کمانڈر (ر) بلال عبدالناصر نے کی۔
اس موقع پر کینیا کی وزارت خارجہ کے پرنسپل سیکرٹری مچاریا کاماؤ نے بھی ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سمندروں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سمندر کئی قوموں کے وجود میں آنے کا باعث بنے ہیں۔
انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی لاتے ہوۓ
اور سائنسی اختراعات کو بروئے کار لاتے ہوئے سمندروں کی حفاظت کے لیے کام کریں۔
خالد رحمٰن نے کہا کہ اب سمندروں پر مزید توجہ دینے اور کام کرنے کا وقت ہے ۔ انہوں نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز میں بھی رویوں میں تبدیلی اور سمندروں پر توجہ دینے کی ضرورت کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ سمندر اور ساحلوں پر کی جانے والی انسانی سرگرمیاںسمندروں کی سلامتی کو تباہ کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں اچھی سمندری گورننس کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مسائل کو پہچاننے اور ان سے متعلق بیداری پیدا کرنے کے لیے تعلیمی اور بامعنی مکالمے، سیمینارز اور مباحثوں کے انعقاد کی ضرورت پر بھی روشنی ڈالی۔
وائس ایڈمرل (ر) عبدالعلیم نے ایک صحت مند سمندر کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے ’’اوشین ڈیکیڈ‘‘ کو کامیاب بنانے کے لیے تمام ممالک کو سمندروں کے تحفظ کے لیے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ زمین پر زندگی کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو ایک میری ٹائم ذمہ دار ریاست بننے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس بات کوسمجھنا چاہیے کہ اس سلسلے میں کیا اقدامات اٹھانے ضروری ہیں۔
ریئر ایڈمرل فواد امین بیگ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی خلاء، ماحولیاتی انحطاط، علاقائی فریم ورک کی کمی اور موثر قانون سازی سمیت چیلنجز کو کم کرنے کے لیے انسانی ہمدردی اور مستقبل کی سوچ کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے سمندروں پر قومی اور بین الاقوامی قوانین کے نفاذ میں پی ایم ایس اے کے کردار پر روشنی ڈالی اور کہا کہ بیداری پیدا کرنے اور ایس ڈی جی کی ڈیڈ لائن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر میں، انہوں نے ریاستوں پر زور دیا کہ وہ سمندر کے بارے میں اپنا رویہ بدلیں۔
سفیر پوکینہو نے لزبن کے مقام پراقوام متحدہ کی 2022 میں ہونے والی سمندری کانفرنس (27 جون – 1 جولائی) پر گفتگو کرتے ہوئےاس کی اہمیت بیان کی اور کہا کہ یہ آگے بڑھنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کے قیام اور سمندری وسائل کے تحفظ کو برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کے لیے ایک نیا بین الاقوامی ماحول تیار کرنے میں معاون ہو گی۔ ان کا خیال تھا کہ میری ٹائم قوم کے طور پر پرتگال کو سمندری امور کا وسیع تجربہ ہے اور وہ پاکستان کو کئی طریقوں سے فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
ڈاکٹر واسکو نے بین الاقوامی قانون کے اندر سمندری ماحولیاتی جرائم کو تسلیم کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ "سمندر ایک ہے” اور تمام انسانیت کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اسی لیے سمندروں کے انتظام کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے جس میں ماحولیاتی جرائم سے نمٹنے اور ان کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی قوانین کا نفاذ شامل ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ کس طرح ساحلی کمیونٹیز ان جرائم سے متاثر ہوتی ہیں، جنہیں ریاستیں اپنی سمت کے درست نہ ہونے اور ان امور میں بیداری کی کمی کےباعث توجہ نہیں دے پاتیں۔
بین الاقوامی قانون سازی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے رائے دی کہ مروجہ قانونی قواعد پیچیدہ کثیر الجہتی چیلنجز پیدا کرتے ہیں جو دائرہ اختیار کے تصادم کا سبب بن سکتے ہیں۔ انہوں نے میری ٹائم ماحولیاتی دائرہ کار میں اہم قانونی چیلنجوں پر بھی روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر آصف انعام نے بحر ہند کے وسائل کے تحفظ اور سرحدی مسائل کو کم سے کم کرنے کے لیے علاقائی اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ کوششوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اس بات پربھی روشنی ڈالی کہ علاقائی سطح پر تعاون اور اشتراک کا مقصدعالمی سمندروں کے ایجنڈے کو حاصل کرنے، ابھرتے ہوئے چیلنجوں کا جواب دینے اور بلیو اکانومی جیسی نئی پالیسیوں اور اقدامات کی فراہمی کے لیے علاقائی سمندری حکمرانی کو فروغ دینا ہونا چاہیے۔ انہوں نےایس ڈی جی 14، اس کے اہداف، اور بحر ہند میں اس کی کامیابیوں کی صورتحال کی تفصیلی وضاحت پیش کی اور یہ نتیجہ پیش کیاکہ خطہ، بحر ہند اور اس کے وسائل کو موسمیاتی تبدیلی اور اس کے مختلف پہلوؤں سے کثیر جہتی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس کے نتیجے میں اقتصادی پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے اور میری ٹائم سپیشیز اور کمیونٹی کے ڈھانچے کی تقسیم میں خلل پڑتا ہے۔
ڈاکٹر ملیحہ نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ کس طرح سیکورٹی کا تذکرہ روایتی سے غیر روایتی میں بدل گیا ہے۔ اگرچہ ریاستوں کے پاس روایتی خطرات کے لیے بہتر آپریشنل تیاری ہے، لیکن غیر روایتی خطرات، بشمول بیشتر میری ٹائم خطرات، پر ریاستوں کی طرف سے سنجیدگی سے غور کرنے کا فقدان ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمندروں کی حکمرانی اوران کے انتظام میں جو کردار بین الاقوامی اداروں کو ادا کرنا چاہیے وہ بڑی حد تک غائب ہے۔ انہوں نے بلند سمندروں پر قوانین کی عدم موجودگی پر بھی روشنی ڈالی جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے چیلنجز کو بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 17 پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جییز)میں سے سبھی سمندروں سے متعلق ہیں اور اس ڈومین میں قومی طرز عمل، علاقائی ردعمل اور بین الاقوامی اقدامات کا فقدان ہے، جنہیں بہتری کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط کیا جانا چاہیے۔
جواب دیں