‘برین اسٹارمنگ ریسرچ آئیڈیاز – گورننس اینڈ پبلک پالیسی’
پالیسی پریکٹیشنرز اور محققین کے بیچ موجودہ خلاء کو پُر کرنے کے لیے آئ پی ایس کا نیا اقدام
پالیسی پریکٹیشنرز اور محققین کے بیچ موجودہ خلاء کو پُر کرنے کے لیے آئی پی ایس کا نیا اقدام
پاکستان میں پالیسی سازی اور علمی تحقیق کے درمیان موجود خلاء کو پُر کرنے اور اعلیٰ تعلیمی تحقیق میں انقلابی تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے، اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اپنے ‘پروموٹنگ اور انڈیجنائزنگ پالیسی ریسرچ اِن پاکستان انیشی ایٹِو’ کے ذریعے ملک کے پالیسی پریکٹیشنرز اور پالیسی ریسرچرز کے درمیان اس اہم ترین ربط کو تشکیل دینے اور بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
اسی سلسلے میں ادارے نے 29 مارچ 2022 کو ‘برین اسٹارمنگ ریسرچ آئیڈیاز – گورننس اینڈ پبلک پالیسی’ کے عنوان سے ایک افتتاحی سیشن کا انعقاد کیا جس سے نامور ماہر تعلیم ، پالیسی پریکٹیشنر اور ادارے کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن ڈاکٹر سیّد طاہر حجازی نے خطاب کیا، جو کہ اس پراجیکٹ کی سربراہی بھی کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ادارےکے چیئرمین خالد رحمٰن، جنرل منیجر آپریشنز نوفل شاہ رخ، سابق وفاقی سیکرٹری مرزا حامد حسن اور دیگر شرکاء بھی موجود تھے۔
اس اقدام کا مقصد تحقیق اور نئے خیالات کے تبادلے کے ذریعے گورننس کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پالیسی محققین کی ایک ملک گیر کمیونٹی تشکیل دینا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے یونیورسٹیوں میں نامور ریسرچ سپروائزرز کا کردار اہم ہے۔
آئی پی ایس اس پراجیکٹ کے ذریعے سپروائزرز اور ریسرچ طلباء کو اس قومی مقصد کے لیے رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے ریٹائرڈ اور موجودہ بیوروکریٹس کے ذریعے مکمل رہنمائی، پالیسی حلقوں میں رابطے، ڈیٹا اور بامعنی بصیرت فراہم کرنے کی سہولت فراہم کرے گا۔
اس اقدام کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لیے ادارہ انتظامی خدمات، معیشت، مالیات، داخلی سلامتی، پولیسنگ، صحت اور تعلیم، وغیرہ جیسے فوکس ایریاز سے متعلقہ سینئر ماہرین تعلیم، سرکاری حکام، وزراء، گورننس اور ترقیاتی مشیروں وغیرہ کو آن بورڈ لے کر ریسرچ سپروائزرز اور اسکالرز کے ساتھ ان کی بات چیت اور روابط قاَئم کرے گا۔
ادارے نے اس سلسلے میں ملک بھر کی تمام یونیورسٹیوں، بالخصوص وہ جو پالیسی سے متعلقہ تحقیق کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، کو مدعو کیا ہے تاکہ وہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے سینئیر یا حاضر سروس پریکٹیشنرز سے منسلک ہو کراس سے استفادہ حاصل کر سکیں۔ ادارہ اس کاوش کے نتیجے میں جنم لینے والے تحقیقی کام کو شائع بھی کرے گا، جو ایک موثر تحقیقی ماحولیاتی نظام کی تشکیل میں مدد گار ثابت ہو گا۔ اس سلسلے میں وزارتیں اور سرکاری محکمے بھی اپنی تحقیقی ضروریات کے بارے میں ادارے کو مطلع کر سکتے ہیں۔
تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ وزراء اور بیوروکریٹس کے پاس زیادہ تر لمبی لمبی رپورٹیں پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ تحقیقی خلاصوں کو پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں میڈیا تحقیقی کاموں کو چھوٹی بائٹ سائز رپورٹس میں تبدیل کر کے ریسرچ ایکو سسٹم کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے اور اہم نکات کو سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلانے کے ساتھ ساتھ مطلوبہ سرکاری افسران اور وزراء تک بھی پہنچا سکتا ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر حجازی نے پاکستان میں طرز حکمرانی کے ڈھانچے اور مسائل پر تفصیلی پریزنٹیشن دی۔
ان کا خیال تھا کہ اخلاقی خسارہ گورننس کا خسارہ ہے جس کی وجہ کرپشن ہے۔ گورننس اصلاحات کی کوششیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں کیونکہ بیوروکریسی اپنی مراعات کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی۔ انہوں نے کہا کہ گورننس اصلاحات تعلیمی اداروں کی فعال شرکت کے بغیر عمل میں نہیں آسکتی ہیں۔ نا اہل حکومتوں اور بدعنوانی کو مدنظر رکھتے ہوئے گورننس ریفارمز اور ریسرچ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سالانہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک میں 141 ویں نمبر پر ہے۔ تاہم یہ صورتحال خالصتاً گورننس کے مسائل کی وجہ سے ہے۔ ان کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر روز ایک اندازے کے مطابق 9.5 ارب روپے عوام کرپٹ سرکاری اہلکاروں کو ادا کرتے ہیں۔ نظام اتنا کمزور ہے کہ اگر کسی محکمے میں ایماندار افسران ہوں تو بھی نچلا عملہ بدعنوانی میں ملوث ہونے کا انتظام کرلیتا ہے۔
پریزنٹیشن میں بتایا گیا کہ جن شعبوں میں گورننس میں اصلاحات کی ضرورت ہے ان میں سرکاری خدمات کا ڈھانچہ، کارکردگی کا جائزہ لینے کا نظام، سرکاری ملازمین کی بھرتی اور انتخاب، ای گورننس سسٹم، ان سروس اور پری سروس ٹریننگ سسٹم، ٹرانسفر پوسٹنگ، میعاد، سول اسٹیبلشمنٹ کوڈ، دفتری طریقہ کار، کاموں کے اہداف، سرکاری ملازمین کو معاوضہ اور فوائد، پولیس اصلاحات، عدالتی طریقہ کار میں اصلاحات، عدالتی قانون میں اصلاحات، اور پنشن اور ریٹائرمنٹ کے فوائد وغیرہ شامل ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے خالد رحمٰن نے کہا کہ ادارے کا یہ اقدام پاکستان کی گورننس اور پبلک پالیسی کے میدان کو بہتر بنانے میں اکیڈمیا کے کردار کو بڑھانے کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن جائے گا۔ آئی پی ایس پچھلے پانچ سالوں سے ’برین سٹارمنگ ریسرچ آئیڈیاز‘ کے تحت پروگرام چلا رہا ہے، جس کا مقصد ملک میں تحقیقی کام کو نتیجہ خیز بنانا ہے تاکہ اس سے ملک میں پالیسی سازی کو حقیقی طور پر فائدہ پہنچ سکے۔
انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ہونے والے تمام تحقیقی کام پالیسی سازی پر اس طرح اثر انداز نہیں ہو سکے ہیں جس طرح اسے ہونا چاہیے تھا۔ پالیسی ساز طویل تحقیقی مطالعات میں دلچسپی نہیں رکھتے، جبکہ ماہرین تعلیم بھی اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہے، اور یوں دونوں سِروں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف محققین اور ماہرینِ تعلیم کو اپنی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہیے اور دوسری طرف انہیں پالیسی سازوں کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے تاکہ ان کا کام وقت کی ڈیمانڈ پر مبنی ہو جائے۔ ادارے کا یہ تازہ ترین اقدام اکیڈمیا اور پالیسی سازوں کے درمیان دو طرفہ بات چیت پر مبنی ہو گا تاکہ اس کے ذریعے تحقیق کو مفید اور موجودہ ضرورتوں سے متعلقہ بنایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان کا پبلک سیکٹر زیادہ تر بدعنوان ہے جیسا کہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس سے ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم، انڈیکس پوری تصویر پیش نہیں کرتا کیونکہ یہ ممالک کی ان کی عوامی شعبے کی بدعنوانی کی سطح کی بنیاد پر درجہ بندی کرتا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر کرپٹ ہی ہے۔
جواب دیں