مشرقی افریقی ریجن کا ادراک

مشرقی افریقی ریجن کا ادراک

پاکستان کو افریقہ میں چین کے تجربے سے سیکھنے کا مشورہ،قائدانہ سفارت کاری پر زور

 Understanding-East-Africa

پاکستان کو افریقہ میں چین کے تجربے سے سیکھنے کا مشورہ،قائدانہ سفارت کاری پر زور

پاکستان افریقہ کے بارے میں چین کی کامیاب حکمتِ عملی اور زبردست خارجہ پالیسی سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، جو اس وقت سےایک تسلسل کے ساتھ جاری ہے جب عوامی جمہوریہ چین کا قیام عمل میں آیا تھا اورجس کا مقصد نظر انداز کیے گئے براعظم میں انسانی اور بنیادی ڈھانچے میں ترقی کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ اس پہلو پر عملدرآمدسےچین کو بہت سےسیاسی، اقتصادی ، سفارتی اور تزویراتی فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ پاکستان کو افریقہ میں پہلے سے موجود خیر سگالی  کے ماحول کا فائدہ  بھی اٹھانا چاہیے جو کہ پاکستان کی طرف سےکئی افریقی ممالک کی نوآبادیات کو ختم کرانے میں تاریخی کردارادا کرنے اور اس براعظم کے تنازعات سے بھرپور علاقوں میں اقوام متحدہ کے امن مشنز  میں بھرپورحصہ لینے کے سبب موجودہے۔

یہ نقطۂ نظر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈی(آئی پی ایس)کے زیر اہتمام ’انڈرسٹینڈنگ ایسٹ افریقن ریجن ‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار میں پیش کیا گیا جو آئی پی ایس کے’انڈرسٹینڈنگ افریقہ پروگرام‘ کا ایک حصہ تھا۔ یہ سیمینار   9دسمبر2021ء کوہوا جس میں آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف کلیدی مقرر تھےجبکہ اس کی صدارت آئی پی ایس کے وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) سیّدابرار حسین نے کی۔

الطاف نے اپنی پریزنٹیشن میں مشرقی افریقہ کے خطےمیں موجود صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ افریقہ کا سب سے زیادہ آبادی والاعلاقہ ہے جس میں 19 ممالک شامل ہیں جو قدرتی وسائل، معدنیات، تیل و گیس، ہیروں، سونا اور لوہے کی دولت سے مالا مال ہیں۔ تاہم، دہشت گردی، انتہائی غربت، ناقص گورننس، تنازعات اور ترقی کے ناہموار ماڈل اس خطے میں سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔

افریقہ میں چین کے اقتصادی ترقی کے ماڈل کے حوالہ سے مقرر کا خیال تھا کہ چین کی افریقہ پالیسی آج تک برقرار ہونے کے ساتھ ساتھ فعال اور ہمہ پہلو ہے۔صدر شی جن پنگ نےتو 2013ء میں چین کی صدارت سنبھالنے کے بعد چائنیز فاریئن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ ( FDI) کو کئی گنا بڑھا یا ہے جو کہ 1950ء کی 51.9 بلین ڈالر سے بڑھ کر2013ء میں57.24 بلین ڈالر ہو گئی ہے۔ افریقہ میں انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر سرمایہ کاری 2016ء  سے 2020ء کے دوران 200 بلین ڈالر  ہو گئی ہے۔ انہوں نے  مزید کہا کہ 2017ء تک افریقی بندرگاہوں پر سرمایہ کاری کی رقم 25.549 بلین امریکی ڈالر تک جا پہنچی ہے جو 20 افریقی ممالک کی 24 بندرگاہوں کا احاطہ کرتی ہے۔ مزید برآں، 2019ء تک چین نے مغربی افریقہ، مشرقی افریقہ، وسطی افریقہ، اور جنوبی افریقہ میں 46 بندرگاہوں کی فنانسنگ، تعمیر اور آپریٹنگ میں مزید سرمایہ کاری کی ہے۔ ترجیحی قرضوں کی فراہمی ، انفراسٹرکچر، مواصلات، نقل و حمل اورکان کنی  سمیت مختلف شعبوں کو جاری رکھنے میں رقوم کی فراہمی اس کے علاوہ ہے۔

پاکستان کی موجودہ حکومت کے ’ انگیج افریقہ پالیسی‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے، تجمل الطاف نے کہا کہ حکومت نے 2020ء میں افریقہ میں پانچ نئے سفارت خانے/ ہائی کمیشن کھولنے کی منظوری دی ۔انہوں نے مزید کہا کہ روانڈا میں اب تک صرف ایک سفارت خانہ کھولا گیا ہے اور جبوتی اور گھانا میں سفیر تعینات کیے گئے ہیں لیکن سفارتخانوں کو ابھی مکمل طور پر فعال نہیں کیا جا سکا ہے۔ ایک بار جب نئے سفارت خانے فعال ہو جائیں گے تو مشرقی افریقی خطے میں سفارت خانوں کی موجودہ کل تعداد  7 سے بڑھ کر 9 ہو جائے گی ۔

انہوں نے یاد دلایا کہ 2018ء سے اب تک نہ تو پاکستانی وزیر اعظم اور نہ ہی صدر نے کسی افریقی ملک کا دورہ کیا اور نہ ہی افریقی رہنماوں نے پاکستان کا دورہ کیاجبکہ 2013ء میں چین کی صدارت سنبھالنے کے بعد صدر شی جن پنگ کے چار میں سے پہلے تین غیر ملکی دورے افریقہ کے تھے۔  اب تک صدر شی نے افریقی ممالک کے 4 الگ الگ دورے کیے ہیں۔

سابق سفیر نے پاکستانی قیادت پر بھی زور دیا کہ وہ قائدانہ سفارت کاری کو فعال طور پر آگے بڑھائیں اور مشرقی افریقی ممالک کا باضابطہ دورہ کریں اور اپنے ہم منصبوں کو پاکستان کے دورے کی دعوت دیں۔ اسی طرح میونخ سکیورٹی کانفرنسوں میں آرمی چیف کی اپنے افریقی ہم منصبوں کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ، پاکستان کے دفاعی حکام کو تیزی سے بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون کو مزید فروغ دینے کے لیے افریقی وزرائے دفاع اور اعلیٰ حکام کو بین الاقوامی دفاعی نمائش اور سیمینار (آئی ڈی ای اےایس) میں مدعو کرنا چاہیے۔ انہوں نے حکومت سے حکومت، کاروبار سے کاروبار اور عوام سے عوام کے رابطوں اور پارلیمانی تبادلوں کو بڑھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے ان ممالک میں نئے مشن کھولنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جہاں پاکستان نے اقوام متحدہ کے امن مشن کے تحت اپنے فوجی تعینات کیے تھے تاکہ پہلے سے موجودخیر سگالی کو بروئے کار لایا جا سکے۔

پاکستان اور مشرقی افریقی خطے کے درمیان عوامی رابطوں کو مضبوط بنانے کے لیے، سپیکر نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں مشرقی افریقی طلباء کے لیے مزید نشستیں مختص کرنے اوروہاں کے ریاستی حکام کو صلاحیت سازی کےمیدان میں مزید کورسز پیش کرنے پر زور دیا۔ مزید برآں، انہوں نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ چین، متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے دوست ممالک کے ساتھ ہاتھ ملائےجنہوں نے افریقی ممالک کے ساتھ دیرینہ دوطرفہ اور ہمہ جہتی تعلقات استوار کرنے کے لیے خطے میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔

سیشن کے اختتام پر سید ابرار حسین نے مفصل پریزنٹیشن دینے پر ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف کی تعریف کی اور پاکستان کو افریقہ کے بارے میں اس بےبصیرت سوچ  سے نجات حاصل کرنےکی ضرورت پر زور دیا جس نے پاکستان کو خطے میں موجودہ خیر سگالی کے ثمرات حاصل کرنے سے دور رکھا ہے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے