ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018 پر آئی پی ایس کا مطالعہ علمی سیمینار میں پیش
سینئر ریسرچ آفیسر سید ندیم فرحت نے 30 نومبر 2021 کو رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی ، اسلام آبادکے رفاہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی (آر آئی پی پی )کے زیرِاہتمام ہونے والی ایک نشست میں گفتگو کی۔
سینئر ریسرچ آفیسر سید ندیم فرحت نے 30 نومبر 2021 کو رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی ، اسلام آبادکے رفاہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی (آر آئی پی پی )کے زیرِاہتمام ہونے والی ایک نشست میں گفتگو کی۔
اس نشست میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کو ٹرانسجینڈر (حقوق کے تحفظ) ایکٹ 2018 کے مختلف پہلوؤں پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے اکٹھا کیا گیا تھا۔ یہ ایکٹ فی الوقت وفاقی شرعی عدالت میں زیرِ سماعت ہے اوراس پر بعض متنازہ شقوں کی وجہ سےمختلف قانون سازی اور سماجی فورمز پر تبادلۂ خیال کیا جا رہا ہے۔
مقررین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ 2018 میں منظور ہونے والے قانون میں پاکستان کی پسماندہ خواجہ سرا کمیونٹی کے حقیقی مسائل کو مدنظر نہیں رکھا گیا بلکہ عالمی ایل جی بی ٹی مہم کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے جو مقامی ثقافت اور معاشرے کے لیے اجنبی اور سماجی تانے بانے کے لیے نقصان دہ ہے۔
اس قانون کے محرکین اور حامیوں کے اس دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے کہ اس قانون کا مقصد بین الاقوامی قانون کی بعض ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے، سید ندیم فرحت نے کہا کہ بین الاقوامی قانون میں کوئی ایسا بین الاقوامی معاہدہ، کنونشن یا تسلیم شدہ دستاویز نہیں ہے جس کی تعمیل پاکستان کواپنے قانون میں کرنا ہو۔ اس خود ساختہ صنفی شناخت کے تصور کا یوگیکارتا اصولوں کے حوالہ سے پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جنہیں نہ تو کوئی ریاست تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی وہ کوئی بین الاقوامی ذمہ داری تشکیل دیتے ہیں۔
تقریب کے دیگر مقررین میں ممتاز مذہبی رہنما مفتی منیب الرحمٰن ، ماہر قانون پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد، وفاقی شرعی عدالت کے درخواست گزار محمد بن سجاد اور ندیم کِشش (خواجہ سرا)، ماہر نفسیات ڈاکٹر عروج ارشد، ڈاکٹر انعام اللہ کی سربراہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے محقق ، اورآزاد تحقیق کار دانیال عبداللہ شامل تھے۔
جواب دیں