ایران اور خطہ میں امن کا مستقبل
امریکہ بدرکرنےوالےایرانی اسلامی انقلاب کو تقریباً چار دہائیاں ہو رہی ہیںلیکن اونٹ ابھی تک صحیح کروٹ نہیںبیٹھ سکا۔ جنوب اور وسط ایشیا پر اپنےگہرےمعاشی اور عسکری تسلط کا امریکی خواب اس عرصہ میں رک رک کر انگڑائیاںلیتا رہا ہےجس میںبیرونی دخل اندازی اور اندرونی خلفشار و عدم توازن کےذریعہ اپنےمقاصد کےحصول کی حکمت عملی کو کامیاب کرنےکی ہر ممکنہ کوشش شامل ہے۔ حالات جلد یا بدیر کیا رُخ اختیار کریں گےیہ کہنا شاید قبل ازوقت ہو لیکن زمینی حقائق اور نوشتۂ دیوار پڑھنےکی صلاحیت رکھنےوالا ہر فرد یہ بات جانتا ہےکہ ہر دو جانب ممکنات کی موجودگی کےباوجود امریکہ مشیت الٰہی اور اپنےاعمال بد کےنتیجہ میںاس وقت جس طرح عراق میںدھنس چکا ہےاس دلدل سےنکلےبغیر ایک نئےبیرونی محاذ کا کھولنازہرکھانےکےبعد امپائر اسٹیٹ بلڈنگ سےچھلانگ لگانےکےمترادف ہو گا۔
مسئلہ کا الجھاؤ اتنا بڑھ چکا ہےکہ عجلت میںکوئی یکطرفہ اقدام اس کا حل نہیںہو سکتا۔ اس تناظر میںایران کےجوہری توانائی کےپروگرام نےجلتی پر تیل کا کام کیا ہےاور امریکہ کےنفسیاتی اختلال میںگراںقدر اضافہ کا باعث بنا ہے۔ وقت کی ایک نام نہاد یک قطبی طاقت جو بدمست ہاتھی کی طرح قوت کےنشہ میںگرفتار ہو،یہ کس طرح برداشت کر سکتی ہےکہ ایک غیر ترقی یافتہ ملک جوہری توانائی کےکلب میںداخلہ کی ہمت کرے۔ لازماً یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ لیکن حالات کا نقشہ کچھ ایسا ہےکہ ایران سےاپنی تمام تر نفرت کےباوجود امریکہ اپنےآپ کو بےبس محسوس کر رہا ہے۔ گذشتہ ۵ سال اس لحاظ سےامریکہ اور یورپی قوتوںکےلیےسخت امتحان آزما ثابت ہوئےہیںگو امریکی اثرات کےتحت برطانیہ نےغیر مشروط طور پر عراق میںامریکی جارحیت کا ساتھ دیا لیکن خود امریکہ اور برطانیہ میںاندرون ملک جو ردعمل ہوا دونوںممالک کےرہنماؤںکےتصور سےبہت مختلف تھا۔ لاکھوںافراد نےاپنی حب الوطنی کےباوجود اپنےملک کےسربرا ہوںکو عوامی تنقید کا نشانہ بنایا اور دونوںکو بڑی حد تک مدافعانہ نفسیات میںمبتلا کر دیا۔ امریکی صدر نےاس عرصہ میںجس فیاضی کےساتھ کانگریس جیسےنام نہاد جمہوری ادارےکو نظرانداز کرتےہوئےاپنےدور اقتدار میںایک آمر کی طرح تنہا اپنی رائےمسلط کرتےہوئےتقریباً ۸۰۰ مرتبہ ویٹو کا حق استعمال کیا وہ امریکہ کی سیاسی اور جمہوری تاریخ میںگینز بک آف ریکارڈز میںدرج ہونےکےقابل واقعہ ہے۔ نتیجتاً امریکہ میںبش کی مقبولیت کا زوال جس تیزی سےہوا وہ ہرآمر کےلیےباعث عبرت ہے۔ اس عرصہ میںفوجی اخراجات میںاضافہ ایک عام امریکی کےتحفظ اور خود امریکہ میںشہری حقوق کی پامالی بھی اپنی آخری حد تک پہنچ گئی ۔ دہشت گردی کےخودساختہ دیو کی ہیبت کو بش نےنےصرف اپنےاوپر بلکہ پوری قوم پر اس طرح مسلط کر دیا کہ اب اسےواپس بوتل میںبند کرنا تقریباً ناممکن نظر آ رہا ہے۔ عراق اورافغانستان میںالقاعدہ کو ایسا مقام عظمت دینا کہ نام نہاد یک قطبی طاقت اس کےخطرات کےتصور سےہی لرزہ براندام رہےخود صدربش کی حکمت عملی کا ایک منطقی نتیجہ نظر آتا ہے۔ اسی طرح اس کےسرکردہ افراد کو ہیرو بنانےمیںامریکی صدر کا بنیادی کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
امریکی خارجہ پالیسی پہلےبھی بہت کم اقوام کو اپنا دوست بنانےمیںکامیاب ہوئی تھی لیکن گذشتہ ۵ سال کےعرصہ میںاس کےنتیجہ میںاس نےجتنےدشمن پیدا کیےہیںاس کی مثال اس سےپہلےکوئی نہیںملتی۔ رخصت ہونےوالےبرطانوی وزیراعظم سےذاتی تعلق اور دوستی کی بناء پر امریکی صدر کو جو حمایت ملی اس کا عشر عشیر بھی وہ برطانوی عوام سےحاصل کرنےمیںناکام رہے۔ اس پورےعرصہ میںبش کےتاریک دور کےدوران یکےبعد دیگرےامریکہ پر بیرونی حملےاور دہشت گردی کےخوف کی حکمت عملی کو بڑی کامیابی کےساتھ استعمال کیا گیا اور اپنی ہر حماقت آمیز پالیسی کو خودساختہ اور خود طاری کردہ خوف اور خطرہ کی بناء پر جائز بلکہ ضروری بنا کر پیش کیا گیا۔ وہ یہ بھول گئےکہ عالمی شعور کو مختصر عرصےکےلیےتو دھوکہ میںڈالا جا سکتا ہےلیکن مستقلاً گمراہ نہیںکیا جا سکتا۔
ایران پر امریکہ کےممکنہ حملہ کےحوالےسےآج تک جو ردعمل سامنےآیا ہےوہ امریکی توقعات اور خواہشات کےبالکل برعکس ہے۔ یورپ کےکسی بھی ملک نےاس کی کھل کر حمایت کی حماقت نہیںکی بلکہ بعض ممالک نےاپنےتحفظات کو چھپا کر نہیںرکھا۔ بعض یورپی ممالک کےخیال میںیہ ایک خطرہ ضرور ہےاور اس بناء پر یہ ممالک ایران ہی کو نہیںکسی بھی غیر یورپی ملک کو ایٹمی طاقت بنتےدیکھنا نہیںچاہتے۔
ایران پر ممکنہ حملہ میںیوںتو بہت سےعناصر پر غور کیےبغیر کوئی رائےقائم نہیںکی جا سکتی لیکن بنیادی طور پر ایران کی تیل کی برآمد جو یورپی اقوام کےلیےہی نہیںخود ایران کی معیشت کےلیےاہمیت رکھتی ہےایک ایسا پہلو ہےجو امریکی یا اسرائیلی جارحیت کےلیےنرم نوالہ نہیںبن سکتا۔ گو تیل کی برآمد کی بندش سےنہ صرف یورپ بلکہ خود ایران کےلیےبھی مشکلات پیدا ہوںگی لیکن بحر ہرمز کی تیل کی شاہراہ کی بندش ایران کےساتھ دیگر ممالک کےلیےکہیںزیادہ مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسےہی ایران کےایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی یا امریکی حملہ کےنتیجہ میںنہ صر ف خطہ کا امن بلکہ خود اسرائیل کا وجود خطرہ میںپڑسکتا ہےجو اتنا بڑا جُوا ہےکہ امریکہ بھی اسےکھیلنےسےپہلےسو مرتبہ سوچنےپر آمادہ ہو گا۔
ان حالات میںایران کی حکمت عملی ٹکراؤ کی ہو یا معاملات کو موخر کرنےکی،ایران امریکہ کےساتھ زبانی جنگ کرتا رہےیا باقاعدہ عسکری کار روائی پر غورکرے،ہمارےخیال میںیہ فیصلہ جس طرح امریکہ کےلیےتقریباً ناممکن ہےایسےہی ایران کےلیےبھی آسان نہیںہے۔ عقل بھی مطالبہ کرتی ہےکہ ایران مستقل مزاجی اور صبر کےساتھ اپنےایٹمی پروگرام کو جاری رکھےلیکن ٹکراؤ کو جتنا ممکن ہو دُور رکھنےکی کوشش کرےتاکہ خطہ کےامن میںخلل نہ پڑے۔
اصولی طور پر ایران ہی نہیںکسی بھی ترقی پذیر ملک کو توانائی کی ضرورت پوری کرنےکےساتھ ساتھ اپنےدفاع کو مستحکم بنانےکےلیےایٹمی تحقیق کا اختیار ہونا چاہیے۔ یہ خیال کہ ہر سفید رنگت والا یورپی باشعور،معتدل،روشن خیال اور ذمہ دار ہوتا ہےجبکہ یہ سیاہ فام یا غیر یورپی ذمہ دارانہ رویہ سےپیدائشی طور پر محروم ہوتا ہےسوفیصد طور پر ایک سامراجی فکر کی غمازی کرتا ہےاور اتفاق کچھ ایسا ہےکہ نہ صرف یورپی سامراجی ذہن بلکہ سامراجی نظام تعلیم میںتربیت پانےوالےترقی پذیر ممالک کےدانشور بھی ذہناً یہی تصور رکھتےہیںکہ مغربی انسان زیادہ تحمل وذمہ داری کا اہل ہےجبکہ ایشیائی اور افریقی النسل افراد جذباتیت اور شعور کی ناپختگی کی بناء پر بغیر نتائج پر غور کیےایک غیر ذمہ دارانہ اقدام کر سکتےہیںگویا ان کےخیال میںہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ کا شوق کوریا میںجنگ،عراق پر دوحملے،بوسنیا ہرزیگو وینا میںنسل کشی کی شکل میںمسلمانوںکا قتل عام کرنےوالےامریکی اور یورپی نسل کےافراد اصلاً ’’وہابی‘‘ یا ’’طالبان‘‘ کےتربیت یافتہ یا ’’القاعدہ‘‘ کی شوریٰ سےتعلق رکھتےتھے۔ اس بناء پر ایک جذباتی غیر ذمہ دارانہ فعل اور حقوق انسانی کو پامال کرتےہوئےلاکھوںافراد کا خون کر بیٹھے۔ دورجدید کی تاریخ تویہی بتاتی ہےکہ جتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ یورپی اقوام اور امریکہ نےکیا ہےبےچارےایشیائی اور افریقی اقوام اس کا سوچ بھی نہیںسکتےتھے۔
خطہ کےامن کےحوالےسےاپنی عالمی ذمہ داری کو محسوس کرتےہوئےیورپ اور امریکہ کو ایران کی تنصیبات پر کسی حملےکےارادہ سےباز رہنا ہو گا ۔ ورنہ نہ صرف خطہ میںبلکہ عالمی طورپر انسانیت کو شدید صدمات پیش آ سکتےہیں۔ امریکہ اورایران کےہمسایہ ممالک کو بھی اپنی ذمہ داری کو محسو س کرتےہوئےاپنےرویہ پر غور کرنا ہو گا۔ چین ،ہندوستان اور پاکستان وافغانستان میںسےکسی بھی ملک سےایران کو جارحانہ خطرہ درپیش نہیںہےلیکن اسرائیل کےبڑھتےہوئےعزائم اور القدس کےحوالےسےایران اور اسرائیل کی تلخ کلامی کےباوجود اس مرحلہ میںدونوںممالک کےلیےجنگ یا خصوصی اہداف پر حملہ عقل کےمنافی ہو گا۔ ہمسایہ ممالک کی کوشش یہی ہونی چاہیےکہ وہ ٹکراؤ کےخطرہ کو زیادہ سےزیادہ دور کرنےمیںاپنا کردار ادا کریں۔ عالمی ایٹمی نگرانی کےادارےکو بھی اپنےفرائض کو ادا کرتےہوئےامریکہ پر دباؤ ڈالنا چاہیےکہ وہ مزید کسی غیر ذمہ داری کا ارتکاب نہ کرے۔
کیا ایٹمی کلب میںشمولیت اور اہلیت کےبعد ایران اپنےہوش وحواس میںرہےگا یا طاقت کےزعم میںپڑوسی ممالک کو اپنا زیرنگین بنانا چاہےگا؟ یہ اوراس قسم کےوہ سوالات جو یورپی تحقیقی ادارےاٹھاتےرہتےہیںلازمی طور پر قابل غور مفروضوںکی حیثیت رکھتےہیںلیکن عالمگیریت کےاس دور میںاس قسم کےیکطرفہ فیصلےمشکل سےمشکل تر بنتےجا رہےہیں۔ گوہم شدت سےاس بات پر یقین رکھتےہیںکہ ایران کو ایٹمی قوت بننےکی آزادی حاصل ہونی چاہیےنہ صرف یہ بلکہ خطہ کےامن کےلیےایران کےپاس ایٹمی قوت کا ہونا مفید اور مددگار بھی ہو سکتا ہےاور کم ازکم اسرائیلی جارحیت کےخطرہ کو مؤخرکرنےکا باعث بن سکتا ہے۔
اخلاقی وعظ وتلقین کی اہمیت اپنی جگہ لیکن آج طاقت کےتوازن کےتناظر میںوہ اقوام جو قوت سےمحروم ہوںصرف دوسروںکےرحم و کرم اور ان ظالم ممالک کےمفادات کےتحفظ کےسہارےہی زندہ رہ سکتی ہیں۔ اس لیےایٹمی قوت کا حصول ایک ایسا انسانی حق ہےجس سےایران کو محروم نہیںہونا چاہیے۔ امریکہ اور اسرائیل کو بادل ناخواستہ عقل کےفیصلےکو گوارا کرنا چاہیےاور شتر بےمہار بننےکی جگہ اس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیےجس پر دلنشین خطبات اور وعظ یورپی نفسیات کی پہچان بن چکےہیں۔
عالم اسلام کو اپنےمسلکی تعصبات سےبلند ہوکر اصل مسئلہ پر غور کرنا چاہیےجس کی بنیاد پر وہ اپنےدشمن کو امت مسلمہ کو منتشر،متزلزل اور غیر مستحکم بنانےکےمواقع فراہم کرتےرہےہیں۔ آج بھی عراق میںشیعہ سنی تفریق کو ہوا دینےوالا کوئی مسلمان نہیںہےبلکہ واضح طورپر مسلمانوںکا ایک دشمن ملک ہے۔ دشمن کی حکمت عملی واضح طورپر یہی ہےکہ نہ صرف عراق میںبلکہ جہاںکہیںبھی اس قسم کی تفریق کو ہوا دےکر یا شعوری طور پر پیدا کرنےکےبعد وہ اپنا الُو سیدھا کرسکتا ہو اس میںتاخیر نہ کرے۔ چنانچہ اس کےمستقبل کےعزائم میںیہ بات شامل ہےکہ یہ فتنہ عراق سےنکل کر لبنان،شام ،سعودی عرب،کویت،بحرین اور پاکستان میںبھی ابھرےتاکہ اندرونی عدم استحکام ،بےاعتمادی،شبہ اور خوف کی فضا کو پیدا کرنےکےبعد ان ممالک میںمزید بندربانٹ کےفریضہ کی ادائیگی کےلیےوہ امن عالم کےبیوپاری کی حیثیت سےان ممالک کو زیر نگین کر کےاپنےمفادات کےلیےاستعمال کرسکے۔ مغرب اور اسلام کےدرمیان صلیبی جنگوںسےآج تک جو آویزش رہی ہےاسےنظرانداز کیےبغیر مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنا ایک لایعنی کام ہو گا۔ امت مسلمہ کو اپنےمفادات کےتحفظ کےلیےمغربی سامراجی ذہن کےسانچےسےنکل کر معروضی طورپر زمینی حقائق کےپیش نظر ایک آزادانہ حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی۔ یہ تصور کہ جب تک امریکہ کو خوش نہ کیا جائےمسلم ممالک محفوظ نہیںرہ سکتےایک مشرکانہ تصور ہےاور شرک کا ارتکاب،ایک فرد اور قوم کو اللہ تعالیٰ کےرحم وکرم اور نصرت سےنہ صرف محروم کرتا ہےبلکہ اس کےغضب کو بھی دعوت دیتا ہے۔ مسلم دانش وروںپر یہ فریضہ عائد ہوتا ہےکہ وہ امت مسلمہ کو پیش آنےوالےخطرات سےآگاہ کرتےہوئےمزید وقت ضائع کیےبغیر ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کرنےمیںاپنا کردار ادا کریںاور مغرب کی اندھی پیروی اور اس کےمفادا ت کےتحفظ کےلیےاپنےتشخص وآزادی اور قومی ضروریات کو قربان کرنےکےظالمانہ عمل سےخود کو نکال کر ایک نئےعالمی اخلاقی نظام کےقیام کی طرف پیش قدمی کریں۔
اکیسویںصدی کا مسئلہ بظاہر جوہری توانائی،دخل اندازی کےذریعہ حکومتوںکی تبدیلی (Regime change) ہو یا نام نہاد دہشت گردی کےخلاف ’’جہاد‘‘،درحقیقت ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ سرمایہ دارانہ اور جابرانہ نظام کےعلمبردار ممالک اور اقوام نےاپنےمفادات کےپیش نظر محکوم اقوام کےحقوق کےاستحصال،وسائل پر قبضےاور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کےذریعہ نہ صرف سامراجی غلامی کےدور میںبلکہ سیاسی آزادیوںکےبعد بھی ان ترقی پذیر ممالک پر معاشی اور سیاسی سامراجیت باقی رکھی۔ ان کےغیراخلاقی رویہ کےنتیجہ میںمعاشرہ میںانتشار اور ردعمل کےطور پر تخریب کاری کو پیدا ہونا چاہیےتھا۔ نہ صرف یہ بلکہ NWO نئےعالمی نظام (زیادہ صحیح طورپر عالمی بگاڑ) کےنام پر دنیا میںتیل کےذخائر اور ایشیا اور افریقہ کےممالک پر اپنی مرضی کےاطاعت گذار سربراہان کو تمام جیوری اصولوںکو پامال کرتےہوئےمسلط کرنےکےعمل کا نتیجہ یہی ہونا چاہیےتھا کہ مظلوم ممالک کےعوام بیرونی قوتوںخصوصاً امریکی انتظامیہ کو اپنا دشمن جانیں۔ اس عالمی نفسیاتی حقیقت کی موجودگی میںایران کا امریکہ کی انتظامیہ سےتعاون نہ کرنا نہ صرف ایرانی عوام کی خواہشات بلکہ عالمی طورپر تمام مظلوم عوام کی خواہش کا اظہار اور علامت معلوم ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ عالمی سیاست میںگروہ بندی کبھی مستقلاً نہیںہوا کرتی اور اقوام وممالک اپنےحقیقی مفادات کےپیش نظر اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرتی رہتی ہیں۔ اسی بنا پر ایران کی افغان پالیسی کو امریکہ کےساتھ تعاون کی پالیسی بھی کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ طالبان کےزوال میںایران نےامریکہ کی حکمت عملی کی مخالفت نہیںکی۔ اسی طرح عراق میںشیعہ سنی ٹکراؤ میںجہاںامریکہ نےاسےاپنےمفاد کےلیےاستعمال کیا اور مزید استعمال کرنےکی تگ ودو میںلگا ہوا ہےبالکل اسی طرح ایران نےاپنےمفادات کےپیش نظر عراق اور لبنان میںشیعہ ملیشیا کےاقدامات کو ناپسند نہیںکیا۔
ہماری نگاہ میںاصل اور بنیادی مسئلہ ان مفادات کی سیاست سےنکل کر عدل اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کےاخلاقی اصولوںکی بنیا د پر ایک نئےعالمی اخلاقی نظام کےذریعہ منافرت،حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی برآمد کےنام پر آمریتوںاور فوجی حکمرانوںکو مظلوم عوام پر مسلط کروادینےکی یک قطبی حکمت عملی کی جگہ اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہے۔ یہ اخلاقی انقلاب ہی اسلام کا اصل مقصد تھا جس کےنتیجہ میںمعیشت ہو یا معاشرت،ادب ہویا سیاست یا بین الاقوامی معاملات،ہر شعبہ میںحقوق اللہ اور حقوق العباد کو عدل اور جواب دہی کےاحساس کےساتھ نافذ کرنا مقصود تھا۔
امریکہ اور مغرب کی توجہ کا عراق سےایران کی طرف منتقل ہونا عراق میںناکامی کےاعلان کےساتھ ساتھ پورےعالم اسلام کےلیےایک خطرہ کی گھنٹی کا بجانا ہے۔ اب عالم اسلام کےپاس اس کےسوا کوئی اور چارہ نہیںہےکہ وہ امریکہ کی نام نہاد ’’دوستی‘‘ سےنکلنےکےلیےایک قابل عمل حکمت عملی وضع کرےاور طویل المیعاد مفادات کےپیش نظر قلیل المیعاد فوائد کو قربان کرنےکی ہمت کرے۔ امریکہ دوستی کا بھرم جس طرح عراق اور افغانستان کےسانحوںنےکھولا ہےاس کےبعد بھی اگر کوئی عقل کا اندھا اسےاپنا دوست سمجھےگا تو اس کا انجام بھی کچھ مختلف نہ ہو گا۔
ہوئےتم دوست جس کےدشمن اس کا آسماںکیوںہو
جواب دیں