”افغانستان نئی حکومت کےآ نے کے بعدمعمولات پر واپس آنے کی کوشش کر رہا ہے“ – ایک براہ راست حاصل کردہ تجزیہ
افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے کا اصل فائدہ افغان جنگجووں اور کرائے کے جنگجووں کو حاصل ہوا تھا، جو دو دہائیوں تک جاری رہا اور یہ حالات عوام میں بدحالی اور خطے میں عدم استحکام لائے۔ امریکی افواج کے انخلاء اور اس کے نتیجے میں سقوط کابل کے بعد ملک اب نئی حکومت کے تحت معمول پر آنے کی کوشش کر رہا ہے۔
افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے کا اصل فائدہ افغان جنگجووں اور کرائے کے جنگجووں کو حاصل ہوا تھا، جو دو دہائیوں تک جاری رہا اور یہ حالات عوام میں بدحالی اور خطے میں عدم استحکام لائے۔ امریکی افواج کے انخلاء اور اس کے نتیجے میں سقوط کابل کے بعد ملک اب نئی حکومت کے تحت معمول پر آنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار معروف صحافی طارق ابوالحسن نے 27 اکتوبر 2021 کو آئی پی ایس کےتحقیق کاروں کی ایک ٹیم کے سامنے اپنے حالیہ دورہ افغانستان سے براہ راست حاصل کردہ آراء کو شیئر کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر انسٹی ٹیوٹ کے سینئر ریسرچ آفیسر ندیم فرحت گیلانی اور سینئر آئی پی ایس ایسوسی ایٹ امان اللہ خان بھی موجود تھے۔
صحافی نے بتایا کہ افغانستان میں قیام کے دوران کابل اور دیگر اہم شہروں میں معمولات زندگی معمول کے مطابق نظر آئے ۔ خواتین – باپردہ اور بے نقاب دونوں – سڑکوں اور گلیوں میں آزادانہ گھومتی نظر آئیں جبکہ معاشی سرگرمیاں جاری نظر آئیں گو کہ سست روی کا شکار تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان حکومت بھی معمول کی ٹی وی نشریات کے حوالہ سے نرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
حسن کا خیال تھا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ایک خودمختار ریاست کے طور پر برتاؤ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ طالبان، ان کے مشاہدے کے مطابق، میڈیا میں بعض عناصر کی جانب سے پیش کیے جانے والےاس تاثر کو ناپسند کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے شکنجے میں ہیں۔ انہوں نے دونوں ممالک کے عوام کے درمیان رابطوں کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس سے جنگ زدہ ملک میں تعلیم اور صحت کے بگڑتے ہوئے شعبوں میں بہتری آسکتی ہے۔
طورخم بارڈر کھولنے پر تبصرہ کرتے ہوئے، صحافی نے رائے دی کہ افغان عام طور پر اس کی بندش کو اپنی معیشت کو نقصان پہنچانے کے مترادف سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے طورخم بارڈر کو کھولنے کا خیرمقدم کیا کیونکہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کے بارے میں افغانوں کا خیال ہے کہ اس کی مدد سے ان کے موجودہ اقتصادی بحران کوختم کیا جا سکتا ہے۔
جواب دیں