’دی لیونگ اسکرپٹس‘کی نشست سلیم بسمل (سابق سیکرٹری ، حکومت آزاد کشمیر) کے ساتھ
بھارتی مقبوضہ کشمیرکی بھاری اکثریت پاکستان سے وابستہ ہونا چاہتی ہے- مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والے سابق سیکرٹری اورآزاد جموں و کشمیر کے سابق سیکرٹری سلیم بسمل کی گفتگو
”اگر آپ کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بارہمولہ کے اندر ایک دن بھی گزارنا پڑے تو آپ کو آزادی اور آزادی کی اصل قدر کا احساس ہونے لگے گا۔“
یہ خیالات بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والے سابق سیکرٹری آزاد جموں و کشمیر خواجہ محمد سلیم بسمل نے 24 ستمبر 2021 کو آئی پی ایس کے پروگرام ”زندہ تحریریں“ میں بیان کیے ۔ یہ آپی ایس کی زبانی تاریخ کی سیریز ’دی لیونگ سکرپٹس ( The Living Scripts)‘ کاچھبیسویں اجلاس تھا۔
1990-91 اور 2015 میں مقبوضہ وادی کے اپنے دوروں کے تجربات اور مشاہدات پر بات کرتے ہوئے بسمل نے بتایا کہ ہر جگہ سڑکیں اور گلیاں ،فوجی اور نیم فوجی دستوں کے قبضے میں تھیں جو کسی کی بھی پرائیویسی پر حملہ کرنےاور بغیر کسی جائز وجہ کے کسی بھی گھر میں گھس جانے کے لیے آزاد تھے۔ سڑکوں پر ہر وقت چیکنگ کی جا رہی تھی اور مقامی مسلمانوں کی آنکھیں خوف اور مایوسی کو بیان کر رہی تھیں۔
آپ کو آزادی اور آزادی کی اصل قدر کا احساس ہونے لگے گا
انہوں نے مزید کہا ”میں آزادی اور آزادی کی اصل قدر کو محض ان لوگوں کے چہروں کو دیکھ کر سمجھ سکتا تھا ۔ میں نے لوگوں کی اکثریت کو دیکھااور ان سے بات چیت کی تو اندازہ ہوا کہ وہ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے تھے گو کہ ان میں یہ ہمت نہیں تھی کہ وہ اس خواہش کا بلند آواز میں اظہار کرسکیں“۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع پونچھ میں پیدا ہونے والے اسپیکر نے بتایا کہ 1965 کی جنگ کے دوران ان کے آبائی گاؤں سے بہت سے خاندانوں کوشدید گولہ باری کے باعث گھر چھوڑنا پڑا اور ہجرت کرنی پڑی۔ اس نقل مکانی نے مسلم اکثریتی علاقے کو مسلم اقلیتی علاقے میں تبدیل کردیا جس کے نتیجے میں بہت سے ہندوؤں نے لاوارث گھروں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ بسمل نے بتایا کہ ان کے خاندان نے ابتدا میں اس آبادیاتی تبدیلی کی مزاحمت کی لیکن آخر کار انہیں اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر دسمبر 1965 میں پاکستان منتقل ہونا پڑا۔
بسمل نے حاضرین کو آگاہ کیا کہاانہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہی آبائی گاؤں سے حاصل کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان سے انٹرمیڈیٹ مکمل کیا اور پھرپاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم ، انہوں نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایئر فورس چھوڑ دی ۔ اس کے بعد انہوں نے سول سروسز اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے 1985 میں آزاد جموں و کشمیر کے پہلے انتخابات میں ریٹرننگ آفیسر (RO) کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ اس سے قبل آزاد جموں و کشمیر کےکئی اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر رہے۔ مظفر آباد اور میرپور ڈویژن کے ڈویژنل کمشنر کے عہدوں پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ 2005 کے زلزلے کے بعد ریلیف کمشنر کا اضافی چارج بھی ان کے پاس تھا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کےمختلف محکموں میں دس سال سیکرٹری کی حیثیت سےبھی خدمات انجام دیں۔
اسپیکر نے 2005 کے زلزلے کے بعد بطور ریلیف کمشنراپنے مشاہدےمیں آنے والے کئی واقعات بیان کیے۔ انہوں نے بتایا کہ آزمائش کی ان گھڑیوں میں انہوں نے ایک طرف قربانی کی اعلی مثالیں دیکھیں تو دوسری طرف لالچ اور بدعنوانی کی انتہا بھی دیکھی۔
سول سروسز اور سیاسی حلقوں کے اندرموجود بدعنوانی کے معاملے پربات کرتے ہوئے سابق سیکرٹری نے کہا کہ ہر کوئی برا نہیں ہوتا اور آپ ان لوگوں میں ہی بہتر لوگ تلاش کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گریڈ 21 اور 22 تک پہنچنے والے لوگ دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی مضبوط ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان میں سے کچھ عام آدمی کی طرح کام کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر وہ ایماندارانہ موقف اختیار کریں اور غیر ضروری دباؤ کا مقابلہ کرنا شروع کردیں تو چیزیں ڈرامائی طور پر بہتر ہوکر صحیح سمت کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔
جواب دیں