’افغانستان پاکستان وسطی ایشین رابطے‘
افغانستان میں استحکام کا تعلق وسطی ایشیا کے ساتھ علاقائی رابطوں کے لیے پاکستان کی خواہشات سے جڑا ہے: آئی پی ایس ویبنار
افغانستان میں استحکام کا تعلق وسطی ایشیا کے ساتھ علاقائی رابطوں کے لیے پاکستان کی خواہشات سے جڑا ہے: آئی پی ایس ویبنار
جب تک جنگ زدہ افغانستان میں امن و استحکام غالب نہیں آئے گا، علاقائی رابطوں کو خواب ادھورا ہی رہے گا۔ یہ ’افغانستان -پاکستان-وسطی ایشین رابطے‘ کے عنوان سے ایک ویبنارمیں ہونے والی بحث کابنیادی نکتہ تھا جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نےفیڈرل اردو یونیورسٹی آف آرٹس ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (FUUAST)کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے ساتھ تعاون سے یکم اپریل 2021ء کومنعقد کیا۔
آئی پی ایس کے وائس چیئرمین ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) سید ابرار حسین اس ویبنار کے مرکزی مقرر تھےجس کی صدارت FUUASTکی وائس چانسلر ڈاکٹر روبینہ مشتاق نے کی۔ اجلاس سے FUUASTکے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر اصغر دشتی اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فیصل جاوید نے بھی خطاب کیا۔
ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) ابرارحسین نے اس یقین کا اظہار کیا کہ پچھلے کئی برسوں سے مسلسل اقتدار میں رہنے والی افغان حکومتوں نے پاکستان کی وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ سڑک کے ذریعے براہ راست روابط بڑھانے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی ہیں؛ اگراسے حاصل کر لیا جائے تو پاکستان ہی نہیں بلکہ پورا خطہ اس علاقائی رابطے سے فائدہ اٹھائے گا ۔
سابق سفیر نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان نے رابطوں کو وسیع کرنے کے لیے تاجکستان کو افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (APTTA) میں شامل کرنے کی کوشش کی، اس کے باوجود ہندوستان کے زیر اثر ہونے کے باعث، افغانستان نے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر اشرف غنی نے سہ فریقی معاہدے کے مجوزہ خیال کو مسترد کردیا اور معاملات کو مزید پیچیدہ بنانے کے لیے افغانستان کو واہگہ کے راستے براہ راست بھارت کے ساتھ تجارت کی اجازت دینے پر اصرار کیا۔
انہوں نے استدلال پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہی وجہ ہے پاکستان نے چین ، کرغزستان اور قازقستان کے ساتھ ہونے والے Quadrilateral Traffic in Transit Agreement (QTTA) میں افغانستان کو یہ کہتے ہوئے نظرانداز کیا کہ اس نےاپنی حدود میں تشدد پر قابو نہیں پایا ہے۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر نے رائے دی کہ افغانستان کا عدم استحکام کسی بھی علاقائی رابطے کے اقدامات کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے ، خواہ وہ وسطی ایشیا – جنوبی ایشیاء پاور پراجیکٹ (CASA-1000) ہو یا ترکمانستان – افغانستان – پاکستان-بھارت (TAPI ) پائپ لائن منصوبہ ہو۔ یہ منصوبے افغانستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے تکمیل سے دور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے طورخم سے جلال آباد تک ایک شاہراہ تعمیر کرنے سمیت افغانستان سے زمینی رابطے کو مستحکم کرنے کے لیے متعدد اقدامات اٹھائے ہیں۔ مزید یہ کہ ، پاکستان چمن سے قندھار تک ریلوے رابطے بڑھانا اور پشاور کوکابل سےملانے کے لیے موٹر وے بنانا چاہتا ہے۔
مقرر نے برصغیرکے ان روایتی تاریخی ، ثقافتی اور مذہبی رشتوں پر بھی روشنی ڈالی جن کے باعث وسط ایشیائی خطے کے ساتھ تعلقات استوار رہے، ان میں خصوصی طور پر پاکستان کی وادی سندھ اور گندھارا تہذیبیں شامل ہیں۔
جواب دیں