’شمالی افریقی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات‘
پاکستان کو شمالی افریقی ممالک کے ساتھ اپنے تاریخی تعلقات مزید مستحکم بنانے کی ضرورت ہے ۔ آئ پی ایس سیمینار
پاکستان کو شمالی افریقہ کے ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی، اقتصادی اور ثقافتی روا بط مضبوط تر بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ تا حال یہ دونوں اطراف اپنے مابین پہلے سے موجود تاریخی تعلقات سے بھرپور فائدہ اٹھانے سا قاصِر رہے ہ
اس ضرورت کا اعادہ ’شمالی افریقی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات‘ کے عنوان سے ہونے والے ایک سیمینار میں کیا گیا جس کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ، اسلام آباد نے 19 جنوری 2021 کو کیا تھا۔ اس اجلاس سے کلیدی خطاب مصر میں پاکستان کے سابق سفیر ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) مشتاق علی شاہ نے کیا اور اس کی صدارت ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی ، جبکہ دیگر شرکاء میں ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف، بریگیڈئیر ( ر) تغرل یامین، ایسو سی ایٹ ڈین، سی آئ پی ایس – نسٹ اور آئ پی ایس کے نان-ریزیڈنٹ فیلو، جی ایم آئ پی ایس نوفِل شاہ رُخ، اور آئ پی ایس کی ریسرچ آفیسر اور ادارے کے ‘انڈر اسٹینڈنگ افریقہ’ پراجیکٹ کی فوکل پرسن کلثوم بلال شامل تھے۔
پاکستان اور مصر کے مابین موجود تاریخی روابط پر روشنی ڈالتے ہوئے ایمبیسیٹد مشتاق کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال نے جب 1931 میں مصر کا دورہ کیا تھا تو وہاں کے فرماں روا کِنگ فاروق ان کی افکار اور شاعری سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مصر کی قاہرہ یونیورسٹی میں شعبہِ اردو کا آغاز کرنے حکم جاری کیا تاکہ وہاں بھی علامہ کے پیغام کو سمجھا جا سکے۔ علاوہ ازیں بعد میں مصر کی جامعہ الاذہر کے علاوہ چھے دیگر یونیورسٹیوں میں بھی شعبہِ اردو قائم کیے گئے۔ اس کے علاوہ قائدِ اعظم نے بھی 1946 میں مصر کا دورہ کیا اور وہاں کے بادشاہ کے علاوہ اخوان المسلمین کے رہنماوں سے بھی ملاقات کی۔
سابق سفیر کا کہنا تھا کہ تمام شمالی افریقہ میں ٹاسک فورس 151، اینٹی پائیریسی اقدامات اور اقوامِ متحدہ کے امن قائم کرنے کی مشن جیسے اقدامات میں پاکستان کے کردار کو بہت سراہا جاتا ہے لیکن پھر بھی یہ دونوں اطراف ان تاریخی تعلقات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے ہیں۔
سابق سفیر نے شمالی افریقہ کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان شمالی افریقہ کو اپنا دفاعی سازوسامان ، اشیائے صرف ، مختلف امور میں خدمات ، فلمیں اور ڈرامے وغیرہ فراہم کرسکتا ہے۔
شمالی افریقہ کو نظرانداز کرنے کی غلطی کی چکائی جانے والی قیمت پر بات کرتے ہوئے مرکزی اسپیکر نے بتایا کہ ہندوستان پہلے ہی خطے میں مضبوط قدم جما چکا ہے اور وہ چین سے مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہے جو کہ اب افریقہ میں سب سے بڑا سرمایہ کار بن چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اس مقابلہ میں پاکستان میں کہیں نظر نہیں آتا ۔
اسپیکر نےاس بات پربھی افسوس کا اظہار کیا کہ 1979 سے الازہر یونیورسٹی میں اردو زبان کا شعبہ ہونے کے باوجود پاکستان اور مصر – جو کہ دوسری بڑی افریقی معیشت ہے – کے مابین دوطرفہ سیاسی اور ثقافتی تعلقات زبوں حالی کا شکار ہیں، اور اس میں عرب بہار کے بعد – جس نے عرب دنیا میں کئی دہائیوں پر محیط آمریتوں اور بادشاہتوں کو جھنجھوڑ ڈالا – اس میں خصوصی طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ البتّہ اب دونوں طرف سے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس کا واضح ثبوت وہ بزنس سیمینار ہے جس کی پاکستان نےپچھلے سال مصر میں میزبانی کی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ مستقبل میں بھی اس طرح کی کاوشوں کو جاری رکھنا چاہیے اور ان سے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ تجارتی اور سیاسی روابط کو فروغ دینا چاہیے۔
اجلاس کے اختتام پر رحمٰن نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے ماہرین مشکل حالات میں بھی نئ راہیں بنانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ یہی بات پاکستان کے دفتر خارجہ پر بھی لاگو ہوتی ہے جسے شمالی افریقہ کے ساتھ دیرپا تعلقات قائم کرنے کے لیے نئ پالیسیاں وضع کرنی چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شمالی افریقی ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو جلد از جلد بحال اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام مشترکہ کاروباری منصوبوں، پارلیمانی وفود کے دوروں، سیاحت ، کھیل، باہمی معاشی دلچسپیوں، تعلیمی تبادلوں اوردونوں اطراف سے لوگوں کے باہمی رابطوں میں اضافے کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔
جواب دیں