بھارتی مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کو مستقل مؤقف پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔ آئی پی ایس ورکنگ گروپ برائےکشمیر
آئی پی ایس کے ورکنگ گروپ (IPS-WGK) کاتیرہواں اجلاس ۵جنوری۲۰۲۱ء کو ‘UN Resolutions on Kashmir and the struggle for IOJK’s right of self-determination’ کے عنوان کے تحت منعقد ہوا۔
اجلاس کی صدارت ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی جبکہ میزبانی کے فرائض آئی پی ایس ایسوسی ایٹ اور IPS-WGK کی جنرل سیکرٹری فرزانہ یعقوب نے ادا کیےجبکہ مرکزی مقرر کی حیثیت سےجموں و کشمیر لبریشن سیل (جے اینڈ کے ایل سی) کے ڈائریکٹر راجہ محمد سجاد خان اور انسانی حقوق کے وکیل اور Legal Forum for Oppressed Voices of Kashmir (LFOVK) کے صدرایڈووکیٹ ناصر قادری نے خطاب کیا۔
کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کا تاریخی جائزہ لیتے ہوئے خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کا ایک بنیادی مقصد ریاستوں اور انسانی حقوق کی خودمختاری کو یقینی بنانا اور ان کا تحفظ کرنا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے، بین الاقوامی ادارہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکا ہے جسے اقوام متحدہ نے ۱۹۴۸ء سے پس پشت ڈال دیا ہے جب مقبوضہ وادی میں تنازعہ پیدا ہوا تھا اور اس تناظر میں ہندوستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (UNSC) میں گیا تھا۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پربھارت اور پاکستان آج بھی پابند ہیں ۔ یہ دونوں ممالک ہی تنازعہ کشمیر کے تسلیم شدہ فریق ہیں اس لیے بھارت کشمیریوں کی قسمت کا کوئی یکطرفہ فیصلہ نہیں لے سکتا۔
مرکزی اسپیکر نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو تقسیم ہند سے پہلے بھی موجود تھی اور آج بھی ریاست منفرد ثقافتی ، تاریخی اور مذہبی شناخت رکھتی ہے۔ تاہم پاکستان اور ہندوستان دونوں گذشتہ سات دہائیوں سے خطے کے اس مسئلہ کاایک حل چاہتے ہیں۔
کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی افادیت پربحث کرتے ہوئے خان نے کہا کہ یہ قراردادیں عالمی قوانین کے تحت کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتی ہیں اور اس بات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کہ کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ جمہوری طریقےسے ہونا چاہیے۔
۵اگست ۲۰۱۹ء کے بعد کے منظر نامے پر بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر جموں اینڈ کشمیر لبریشن سیل نے کہا کہ کشمیریوں نے ہندوستان کے آئین کو کبھی قبول نہیں کیا اورانہوں نے ہمیشہ حق خودارادیت کے مطالبے کو برقرار رکھا ہے۔ بھارت اب آرٹیکل ۳۵ –اے اور ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کے بعد مقبوضہ وادی میں آبادی کے توازن میں بھی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا پتہ اس سے لگتا ہے کہ وہ ہندوستان کے سابق فوجیوں کو ایوارڈ کے طور پر کشمیر کےڈومیسائل سے نواز رہا ہے۔ تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ مکمل طور پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
ناصر قادری نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس حقیقت کے باوجود کہ بین الاقوامی قانون کے تحت دی گئی حق خود ارادیت کی رائے کے نکتہ نظرسے کشمیر ایک کلاسیکیکل کیس ہے، بھارت نے ۳۰ سالوں سے پاکستانیوں اور کشمیریوں کو اس مبہم بحث میں پھنسایا ہوا ہے کہ آیا کشمیر تنازعہ ہے یا ایک مسئلہ ہے۔ قادری نے موجودہ ظلم و ستم کے حالات میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو ایک جائز جدوجہد کے طور پر تسلیم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کہا کہ پاکستان کو کشمیر پر اپنے بیانیے کو استحکام دینے کی ضرورت ہے جہاں مقامی لوگ ہندوستان کا ساتھ نہیں چاہتے اوروہ دنیا کو اس پر قائل کرے کہ کشمیریوں کی مقامی مسلح جدوجہد بین الاقوامی قانون کی روشنی میں جائز ہے۔ دوسری طرف پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں ایک متفقہ ، مستقل اور مضبوط مؤقف پر قائم رہنا چاہیے جو متفقہ طور پر پوری قوم کا موقف ہو اور معاملات کی کسی بھی تبدیلی سے یہ متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
جواب دیں