آئی پی ایس کے وفد کی چئیرمین سی پیک اتھارٹی سے ملاقات، موجودہ پیش رفت اور درپیش چیلنجز پر تبادلہِ خیال
پاکستان کے لیے پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کو کامیاب بنانے کے لیے کوئی بھی کسر چھوڑی نہ جائے گی ۔ ان خیالات کا اظہار چئیرمین سی پیک اتھارٹی جنرل [ر] عاصم سلیم باجوہ نے سینئیر افیشلز اور تحقیق کاروں پر مشتمل انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئی پی ایس] کے ایک وفد سے سی-پیک اتھارٹی سیکریٹیرئیٹ میں 18 جنوری 2021 کو منعقد ایک خصوصی نشست میں کیا۔
آئی پی ایس کی طرف سے اس وفد کی صدارت ادارے کے ایگزیگٹیو صدر خالد رحمٰن نے کی جبکہ دیگر شرکاء میں جی-ایم آئ پی ایس نوفِل شاہ رُخ، سینئیر ایسوسی ایٹس مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری بجلی و پانی، امان اللّہ خان، سابق صدر راولپنڈی چیمبر آف کامرس، ایمبیسیڈر [ر[ تجمل الطاف، بریگیڈئیر [ر] سید نذیر، اور ڈاکٹر ملیحہ زیبا خان سمیت انسٹیٹیوٹ کی آّوٹ ریچ اور تحقیقی ٹیم کی ارکان شفق سرفراز، عاصم احسان، کلثوم بلال، ولی فاروقی، حافظ انعام اللّہ، شاہد افضل اور میمونہ محمود شامل تھے۔
سی پیک پر بریفنگ دیتے ہوئے سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین نے کہا کہ پاکستان اور چین کے اس مشترکہ قومی پراجیکٹ پر کام زور و شور سے جاری ہے اور اس کا دوسرا فیز بھی شروع ہو رہا ہے۔ انہوں نے سی پیک سے متعلق پھیلائ جانے والی مختلف افواہوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ نہ ہی اس منصوبے کی پیش رفت میں کوئ رکاوٹ آئ ہے نہ ہی یہ کسی سست روی یا آہستگی کا شکار ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پراجیکٹ میں بلوچستان کے جنوبی علاقوں سمیت بہت سے دیگر پسماندہ علاقوں پر بھی توجہ دی جا رہے ہے جس میں گوادر میں ایک ڈیم اور ڈسٹلیشن پلانٹ کا قیام بھی شامل ہے جو مقامی لوگوں کے لیے پانی کی کمی کو پورا کرنے میں مدد کرے گا۔ اسکے علاوہ پاکستان کے سب سے بڑے رن وے پر مشتمل ایک ائیر پورٹ بھی 230 ملین ڈالر کی خطیر رقم سے گوادر میں تیار کیا جا رہا ہے۔
سی پیک کے پہلے فیز کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کی کامیابی کا دارومدار بڑے حد تک دوسرے فیز کی کامیابی پر منحصر ہے جس میں لوگوں اور کاروباروں کے درمیان روابط بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پراجیکٹ سے متعلق تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین ہم آہنگی ہونا اس ضمن میں بہت اہم ہے اور اسی لیے پاکستان اور چین کے مشترکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو بھی از سرِ نو فعال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے سی پیک کو بطور ایک علاقائ تعاون اور روابط بہتر بنانے کے منصوبے کے طور پر بھی نمایاں کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا تاکہ پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے ملک کے علاوہ ایک ابھرتی ہوئ معیشت کے طور پر بھی پیش کیا جا سکے۔ اسی سلسلے میں گوادر پورٹ کے ذریعے افغان ٹریڈ ٹرانزٹ کو بھی سہولت مہیا کیا جا رہی ہیں۔
خالد رحمٰن کا کہنا تھا کہ سی پیک کو کامیاب بنانے کے لیے پاکستان اور چین کو باہمی تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے، جبکہ مخالفین کے سی پیک کو ناکام بنانے کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے بھی ٹرانسپیرنسی کے ساتھ ساتھ سی پیک سے متعلق
پھیلائ جانے والی افواہوں اور ہر سطح پر اس سے متعلق پائے جانے والے تاثر کو بہتر سے بہتر بناتے رہنے کی ضرورت ہے۔
جواب دیں