‘ اقوامِ متحدّہ کے افریقہ میں قیامِ امن کی مہمات میں پاکستان کا کردار ‘
اقوامِ متحدّہ کی افریقہ میں قیامِ امن کی کاوِشوں میں پاکستان کے کردار پر اظہارِ خیال
دنیا بھر، بالخصوص افریقہ میں اقوامِ متحدّہ کی قیامِ امن کے لیے کی جانے والی کاوِشوں کے لیے پاکستان نے گِراں قدر خِدمات سر انجام دی ہیں اور قیامِ امن کی کوششوں میں ادا کیا جانے والا پاکستان کا یہ اہم کردار ان ممالک کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات کو مضبوط تر بنانے کے لیے نادر مواقع فراہم کرسکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار 24 دسمبر 2020 کو ‘ اقوامِ متحدّہ کے افریقہ میں قیامِ امن کی مہمات میں پاکستان کا کردار ‘کے عنوان سے ہونے والے ایک ویبینار میں کیا جس کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئ پی ایس]، نیشسنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی [نسٹ] کے سینٹر فار انٹیرنیشنل پیِس اینڈ اسٹیبلیٹی اسٹڈیز اور سینٹر آف ایشیّن افریقن اسٹڈیز [سی اے اے ایس] نے مشترکہ طور پر انسٹیٹیوٹ کے ‘انڈر اسٹینڈنگ افریقہ’ پراجیکٹ کے زیرِ تحت کیا ۔
اس اجلاس کی صدارت آئ پی ایس کے ایگزیگٹیو صدر خالد رحمٰن نے اور میزبانی نسٹ – سی آئ پی ایس کے ایسوسی ایٹ ڈِین اور آئ پی ایس کے نان ریزیڈنٹ فیلو بریگیڈئیر [ر] تغرل یامین نے کی جبکہ مقررین میں نسٹ سے بریگیڈئیر [ر] مرزا سلیم بیگ، بریگیڈئیر [ر] عمران رشید اور بریگیڈئیر [ر] آعظم آغا شامل تھے۔
مقررین نے اقوامِ متحدہ کی قیامِ امن کی مہمات میں پاکستان کی کی دی جانے والے خدمات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے اپنے تجربات اور مشاہدات بیان کیے۔
بریگیڈئیر [ر] سلیم بیگ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے امن قائم رکھنے کے لیے بھیجے جانے والے کارکن کانگو میں نہ صرف قیامِ امن کی کوششوں میں مصروف ہیں بلکہ اس سلسلے میں وہ وہاں کے مقامی افراد کو ٹرینننگ بھی فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی خواتین کی ٹیم بھی وہاں کی کمیونٹی کی استعدادِ کار میں اضافے کے لیے انگریزی زبان، کمپیوٹر اِسکلز ، صفائ ستھرائ، ذہنی صحت، جنسی مساوات اور خواتین کے قانونی حقوق جیسے کئ موضوعات پر لیکچر دیتی ہیں۔
بریگیڈئیر [ر] رشید نے سینٹرل افریقن ریپبلک میں پاکستانی پیِس کیپرز کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک میں اقوامِ متحدّہ کے ‘میونسکا’ پروگرام کے تحت اس وقت پاکستان کے 1200 سے زائد افسران اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن میں ایک انفینٹری بٹالیّن، ایک ایوی ایشن یونٹ اور دو انجینئیرنگ کمپنیاں شامل ہیں جو حالات کو معتدل رکھنے، ہوائ جہازوں کے شعبے میں مدد فراہم کرنے اور سڑکوں وغیرہ کی مرمت اور دیکھ بحال کرنے جیسی اہم خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
بریگیڈئیر [ر] آغا نے بتایا کے پاکستانی افواج آئیوری کوسٹ میں اقوامِ متحدّہ کے اونوکی پروگرام کے تحت انجینئیرنگ ، نقل و حمل، اسٹاف افیسرز اور ملٹری آبزورز کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
افریقہ کے موجودہ حالات کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے تمام مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کسی مقامی مذہبی، لِسّانی یا سیاسی نفّاق سے زیادہ بیرونی عناصر اور سابقہ نو آبادیاتی طاقتوں کی طرف سے علاقے میں موجود قدرتی وسائل کا حصول، جن میں سونا، ہیرے اور کوبالٹ وغیرہ شامل ہیں، دراصل افریقہ میں موجود تنازعات اور محرومیوں کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اقوامِ متحدّہ ان علاقوں میں بیرونی مداخلت اور یہاں سے قدرتی وسائل کی برآمد کے اوپر کچھ عرصے کے لیے پابندی لگا دے تو یہاں کے تنازعات حل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
بریگیڈئیر [ر] یامین نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ظاہری طور پر ایسا لگتا ہے کہ اقوامِ متحدّہ کی طرف سے ان علاقوں میں قیامِ امن کے لیے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جا رہا اور اس کی ایجنسیاں اصل مقصد کو چھوڑ کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔ انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اقوامِ متحدّہ کی قیامِ امن کی مہمات کے لیے بھیجی جانے والی افواج میں سب سے زیادہ تعداد افریقہ اور جنوبی ایشیاء کے ممالک سے ہے جبکہ ترقّیافتہ ممالک کی افواج کا ان میں بہت کم حصّہ نظر آتا ہے جو اس سلسلے میں ان کی غیر سنجیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
نشست کے اختتامی کلمات پیش کرتے ہوئے خالد رحمٰن کا کہنا تھا کہ مقررین نے افریقہ کا احوال بیان کرتے ہوئے جو نقشہ کھینچا ہے وہ دراصل موجودہ بین الاقوامی گورننس کا حال بھی بیان کرتا ہے۔ ایک قیامِ امن کے پروگرام کے پیچھے سیاسی، سماجی، ثقافتی و اقتصادی سمیت مختلف قسم کے عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں لیکن ان سب میں ترجیح ہمیشہ صرف انسانیت کے پہلو کو دی جانی چاہیے اور صرف اسی مقصد کے تحت ایسے کام سر انجامل دینے چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ عرصہ دراز سے پاکستان کے اقوامِ متحدّہ کی امن کے قیام کی کوششوس کا حصّہ رہنے کی وجہ سے پاکستان کو اس طرح کے تنازعات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کا ہنر آ گیا ہے اور اب اسے اپنی اس صلاحیت کو عالمی گورننس کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ نشست کے اختتام پر رحمٰن نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ اقوامِ متحدّہ کی قیامِ امن کی 50 سے زیادہ مہمات میں اب تک پاکستانی افواج کے 200000 سے زیادہ افسران متفرق قسم کے اہم کردار ادا کر چکے ہیں اور اُن کی اِن خدمات کو علاقائ اور بین الاقوامی سطح پر خوب سراہا جاتا ہے۔
جواب دیں