‘پاک آفغان تعلقات اور ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ’
ڈیورینڈ لائن ماضی کا قصہ، پاکستان اور افغانستان کو ماضی بھلا کرآگے بڑھنا ہوگا، ماہرین
ڈیورنڈ لائن کا شوشہ ظاہر شاہ کے دور میں اس لئے چھوڑا گیا تاکہ افغانستان اپنا اثرورسوخ پاکستان کے پشتون علاقوں تک پھیلا سکے جبکہ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ امیر عبد الرحمان خان، امیرِ افغانستان، نے اپنی مرضی سے برطانوی ہندوستان سے 1893 میں کیا تھا۔ لہٰذا ڈیورنڈ لائن ایک حل شدہ معاملہ ہے جس کو پسِ پشت ڈال کر پاکستان اور افغانستان کو آگے دیکھنا ہوگا۔
یہ کہنا تھا "پاک آفغان تعلقات اور ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ” کے عنوان سے منقعدہ گول میز کانفرنس کے موقع پر پاک افغان تعلقات کے ماہرین کا۔ اس گول میز کانفرنس کا اہتمام انسٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئ پی ایس] کی جانب سے 14 نومبر 2020 کوکیا گیا تھا۔
گول میز کانفرنس کے شرکاء میں مایہ ناز تجزیہ کار جمعہ خان صوفی، محقق ڈاکٹر لطف الرحمان خان، سابق سفیر ایاز وزیر اور سابق بریگیڈیر سید نذیر شامل تھے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جمعہ خان صوفی کا کہنا تھا کہ پشاور کی وادی، نہ کہ کابل، صدیوں سے پشتو روایات اور تہذیب کا مرکز رہی ہے۔ ظاہر شاہ کے دور میں پشتون قومیت کا نعرہ لگا کرافغانستان نے دراصل پاکستان میں اپنی مداخلت کا جواز تراشا اورموجودہ پاک افغان سرحد کو ماننے سے انکار کردیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے امیر عبد الرحمان خان کی مرضی سے برطاوی سامراج سے یہ معاہدہ ہوا تھا جس کی رو سے اس وقت کے برطانوی ہندوستان اور افغانستان کی حد بندی کی گئی۔
انکا مزید کہنا تھا کہ اگر یہ معاہدہ عبد الرحمان خان پر تھوپا گیا ہوتا تو ان کے بعد اقتدار سنبھالنے والے انکے بیٹے، حبیب اللہ خان، نے اس معاہدے کی توثیق نہ کی ہوتی۔ جمعہ خان صوفی کے مطابق پاک افغان سرحد یا ڈیورنڈ لائن دونوں ملکوں کے لئے ایک حساس معاملہ ہے اور جب تک یہ معاملہ مستقل بنیادوں پہ حل نہیں ہوتا پاک افغان تعلاقات میں سرد مہری رہے گی۔
محقق ڈاکٹر لطف لرحمان کا کہنا تھا کہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ میں قائم کی گئی حدود کی اہمیت اور افادیت آج بھی مسلم ہے اور افغانستان بین الاقوامی قوانین کی رو سےحق بجانب نہیں کہ وہ اکیلے اس معاہدہ سے الگ ہوجائے۔ انھوں نے اپنے پاس موجود نقشوں کی نقول کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاک افغان سرحد کی سوائے بائیس میل کے، پوری طرح حد بندی کی گئی ہے۔
سابق سفیر ایاز وزیر کا کہنا تھا پاک افغان تعلقات نہایت اہمیت کے حامل ہیں اور پاکستان نے ہر موقع پر اپنے افغان بھائیوں کی مدد کی ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ مستقبل میں بھی ایسے اقدامات اٹھائے جن سے دو طرفہ تعلقات میں مضبوطی آئے۔
بریگیڈیر سید نذیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مشرق کے بجائے مغربی ہمسایوں کی طرف دیکھنا چاہئے اور خود کو وسطی ایشیا کا حصہ سمجھنا چاہئے۔
تقریب کے اختتام پہ ایگزیگٹیو پریزیڈنٹ آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کہا کہ پاکستان چونکہ وسطی، مغربی اور جنوبی ایشیا کے سنگم پہ واقع ہے، اس لئے خطے میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ لہذا پاک افغان تعلقات کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ ماضی کے اختلافات کو بھلا کر دوستی کی نئی جہتوں کو متعارف کروایا جائے۔
گول میز کانفرنس کے اختتام پہ جمعہ خان صوفی کی کتاب "فریبِ ناتمام” کے چوتھے ایڈیشن کی تقریبِ رونمائی بھی ہوئی جس کی اشاعت انسٹیٹیوٹ کے اشاعتی بازو آئی پی ایس پریس نے کی ہے۔
جواب دیں