”علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات پر کووڈ- 19 کا اثر “(10 واں اجلاس)
ابھرتے ہوئے نئے عالمی نظام میں متوازن، ہنر مندانہ سفارت کاری پاکستان کے لیے ضروری ہے: کھوکھر
ابھرتے ہوئے نئے عالمی نظام میں متوازن، ہنر مندانہ سفارت کاری پاکستان کے لیے ضروری ہے: کھوکھر
موجودہ عالمی نظام کورونا وائرس کے وبائی مرض کی وجہ سے خطرے میں ہے اور نیا عالمی نظام بظاہر چین کی قیادت میں نئی شکل اختیار کر رہاہے۔ تاہم پاکستان کو ہر معاملے پر چین کا سہارا نہیں لینا چاہیے اور اسے دوسرے اہم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں بھی توازن پیدا کرنا چاہیے۔
ان خیالات کا تبادلہ سابق سیکرٹری خارجہ ریاض حسین کھوکھر نے علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات پر ”کووڈ-19 کا اثر“ کے عنوان سے ایک ویبنار میں کیا۔ اس آن لائن سیشن کا انعقاد انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد نے 13 مئی 2020 کو اپنی جاری ویبنار سیریز ’کووڈ- 19: عالمی چیلنجز ، قومی رسپانس‘کے حصے کے طور پر کیا تھا۔اس مباحثے کی مشترکہ صدارت سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود خان اور ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن نےکی۔ جبکہ تبادلۂ خیال کرنے والوں میں سفیر (ر) تجمل ا لطاف سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ آئی پی ایس ، سید محمد علی سینئر ریسرچ فیلو آئی پی ایس اور سفیر (ر) ایاز وزیر شامل تھے۔
کووڈ- 19 کے وباء کے بارے میں ، کھوکھر نے کہا کہ چین اور پاکستان کی دوستی ایک بار پھر وقت کے امتحان پر پوری اتری ہے۔ یہ مضبوط رشتہ ملک میں وبائی مرض کے نتیجے میں سامنے آجانے والے صحت کے کمزور انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ تعلیم ، زراعت ، سائنس و ٹیکنالوجی ، اور ماحولیات کے خطرے سے دوچار شعبوں میں بھی بہت زیادہ ضروری اصلاحات لانے میں اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان میں کووڈ-۱۹ کے مثبت کیسز کے ساتھ ساتھ اموات کا گراف وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا ۔ اس لیے جلد از جلد کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا کیونکہ ایسا کرنے میں ناکامی سے ملک کے لیے اس طرح کے معاملات سے نمٹنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
اسپیکر نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے قومی مفادات کے پیش نظر چین کے ساتھ ساتھ امریکہ جیسے دیگر ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ امریکی صدر امریکی انتخابات سے قبل چین کے ساتھ اپنے جذباتی طرزِ عمل کو خوب ہوا دینے کی کوشش کریں گے۔ اور بحیرہ جنوبی چین کے معاملے سمیت دونوں ممالک کے مابین تنازعات پر کشمکش پاکستان پر دباؤ ڈال سکتی ہے۔
موجودہ عالمی منظرنامے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسپیکر نے کہا کہ کووڈ- 19 کی وجہ سے بہت ساری معاشی رکاوٹیں پیدا ہونے والی ہیں جبکہ پاکستان کے پاس ہونے اور نہ ہونے کا فرق بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے دوسرے تمام ممالک کی طرح خود بھی وبائی مرض کی وجہ سے مشکل وقت کا سامنا کیا ہے، اس لیے شاید وہ پاکستان کو دیے گئے قرضوں کو بہت زیادہ مناسب طریقے سے ریشیڈیول نہیں کر پائیں گے۔
افغانستان کے منظر نامے پر روشنی ڈالتے ہوئے کھوکھر نے کہا کہ ملک کی نسلی ترتیب کو کافی نقصان پہنچا ہے اور جب تک اس کی مرمت نہیں ہوتی اس وقت تک کوئی امن نہیں ہوسکتا۔ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کو مزید سہولیات فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا تھا ، لیکن دونوں کے عدم اعتماد کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہونے والا ہے اور اس سے لوگوں کی طرف سے سرحد عبور کرنے کے بہاؤ کی وجہ سے بھی پاکستان کو پریشانی ہوگی۔
اپنی خدمات کے دس سال کے دورانیہ میں ہندوستان کے ساتھ براہ راست منسلک رہنےوالے سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں بھی بھارت پہلے ہی جنگ کی آوازیں اٹھا رہا ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان پر حملہ کر دے۔ وہ یہ چاہے گا کہ پاکستان پر الزامات لگاتے ہوئے اپنے حملے کا جواز پیش کرنے کے لیے صورتحال کو بڑھاوا دے۔ انہیں یقین تھا کہ عدم اعتماد کے عنصر کی وجہ سے مستقبل قریب میں کوئی بھی معنی خیز بات چیت ہونے کے امکانات کم ہی ہیں اور ہندوستان میں موجودہ حکومت کے رویے کی وجہ سے یہ خلا وسیع ہوتا جارہا ہے۔
مسئلہ کشمیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے کھوکھر نے کہا کہ فلسطین کی طرح بین الاقوامی برادری کے لیے یہ قریب قریب غیر اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس مسئلے کو بین الاقوامی تنظیموں کے پاس لے جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کے مطابق کام کرتی ہیں اور ہمارے ساتھ نہیں کھڑی ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنی شناخت کے لحاظ سےایک وسیع البنیاد ادارہ ہے ، لیکن کسی بھی مسلم ملک کی مستقل رکن کی حیثیت سے اس میں عدم موجودگی واضح طور پر اس کی طرف سے بغض کو ظاہر کرتی ہے۔ یہاں تک کہ او آئی سی کے پاس اقوام عالم میں ایک مضبوط آواز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان پہلے ہی سارک کو وینٹیلیٹر پر رکھ چکا ہے ، جس سے علاقائی تعاون کے لیے آپشنزبہت محدود ہو گئے ہیں۔ ای سی او ملک کے لیے امید کی کرن ثابت ہوسکتا ہے ، خاص طور پر نئے عالمی نظام کی تشکیل پذیر شکل کو مدنظر رکھتے ہوئے ، اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہمارے خدشات کو عالمی برادری تک پہنچانے کے لیے اس طرح کی مزید راہیں تلاش کی جانی چاہییں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو کسی طور نظرانداز نہیں کر سکتا۔ بھارت مقبوضہ وادی میں نسل کشی جیسے جرم میں مبتلا ہے۔ کھوکھر نے مزید کہا کہ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان اپنے مؤقف کے بارے میں بنیادی فیصلوں اور کشمیر سے متعلق اپنی مستقبل کی حکمت عملی کو بحیثیت قوم لے اور ان فیصلوں کو حکومت ، سیاستدانوں ، دیگر اسٹیک ہولڈرز اور عمومی طور پر عوام کی مشاورت سے لیا جانا چاہیے۔
جواب دیں