‘کووِڈ ۱۹: عالمی چیلنج اور قومی ردِ عمل’ کی دوسری نشست

‘کووِڈ ۱۹: عالمی چیلنج اور قومی ردِ عمل’ کی دوسری نشست

پاکستان کے لیے کووِڈ 19 کے سلسلے میں کی گئ غلطیوں سے سیکھنے کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے، سخت پالیس فیصلوں کی فوری ضرورت ہے: ماہرین

 covid-19-2nd-session

پاکستان کے لیے کووِڈ 19 کے سلسلے میں کی گئ غلطیوں سے سیکھنے کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے، سخت پالیس فیصلوں کی فوری ضرورت ہے: ماہرین

پاکستان کے لیےدوسرے ممالک کی پالیسی سے متعلقہ کی گئ کوہتائیوں اور ان کے تجربات سے سیکھنے کاوقت تیزی سے گزر رہا ہے، جن کو سامنے رکھ کر وہ کورونا وائرس سے نمٹنے اور اس کےپھیلاوَ کو روکنےکے لیے ایک جامع اور موَثر پالیسی ترتیب دے سکتا ہے۔ اس کے ساتھہی یہ حالات اس بات کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے آپ کو ادویات کےتیاری، بائیو میڈیکل انجینئیرنگ، اور صحتِ عامّہ کے میدان میں جنگی بنیادوں پر خودکفیل بنانےکی کوشش کرے۔ اس موقع پر ایسے بہت سے سخت گیر فیصلے کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے  جو بے شک سیاسی طور پر مقبول نہ ہوں،لیکن قیمتی زندگیاں اور ملکی معیشت کو بچانے میں مدد دے سکیں۔
ان خیالات کا اظہار آئپی ایس کے ایسو سی ایٹ اور سینئیر تجزیہ کار سید محمد علی نے کورونہ کی وبا سے پاکستان کو درپیش چیلنجِز اور ان سے نمٹنے کے لیے پالیسی سفارشات پیش کرتے ہوئے ایک ویبینار میں کیا۔اس ویبینار کا انعقاد  ۱۴ اپریل ۲۰۲۰ کو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز [آئ پی ایس]، اسلام آباد نے اپنے ویبینار سیریز ‘کووِڈ ۱۹: عالمی چیلنج اور قومی ردِ عمل’ کی دوسری نشست کے طور پرکیا جس کا مقصد کرونہ وبا سے متعلقہ مختلف پہلووَں کا احاطہ کرنا ہے۔ اس نشست کی صدارت پاکستان کے سابق سیکریٹری اور آئ پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن وقارمسعود خان نے کی جبکہ دیگر مقررین میں آئ پی ایس کے ایگزیگٹیو صدر خالد رحمٰن شامِل تھے۔
ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ اگرچہ کورونہ وبا کے معاشی، سیاسی، ثقافتی،سماجی اور صحت سے متعلقہ اثرات ہر ملک کے لیے علیحدہٰ اور الگ ہیں اور ہر ملک انکا اپنے حساب سے مقابلہ کر رہا ہے، لیکن اہم اور ضروری فیصلوں کو بر وقت کرنے کی ضرورت بحر حال ہر جگہ مشترک ہے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے موجودہ وسائل پر بوجھ بڑھےگا جس سے مزید معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کھڑے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونہ وائرس کے خلاف اس جنگ میں قریبی بین الاقوامی معاشی معاونت ، میڈیکل ٹیکنالوجی کے استعمال اور بین الاقوامی سفارتکاری سمیت ایسے دیگر حربے بھی استعمال کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو اپنے لیے بھی ایک جامع اور دور اندیش حکمتِ عملی بنانی پڑے گی جس میں ملک میں اسٹریٹیجک میڈیکل سپلائیز کا ڈیٹا بیس، بائیومیڈیکل ریسرچ کے لیے قومی اور بین الاقوامی معاونت، تین سطحوں پر ۱۴ دن کے قرنطینہ کو لازمی قرار دینا جس میں بین الاقوامی، بین الصوبائ اور مقامی آمد و رفت شامل ہے، قرنطینہ سینٹر اسٹاف کو کسی سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے آن لائن تربیتی کورسز، نیشنل کرائسِس انفارمیشن مینیجمنٹ سِسٹم کا آغاز، اور نیشنل ڈیزاسٹرمینیجمنٹ اتھارٹی کو تمام متعلقہ معلومات کی زمہ داری دینے جیسے اقدامات شامل ہیں۔  
اسکے علاوہ اس کڑے وقت میں پاکستان کو دوسرے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انسانی بنیادوں پر مالی معاملات اور شرائط کو آسان بنانےکے  لیے زور بھی دینا چاہیے۔
علی کا کہناتھا کہ حکومت کی سُپریم کورٹ میں جمع کرائ گئ رپورٹ کے مطابق ملک میں کورونہ وائرسکے مریضوں کی تعداد ۵۰،۰۰۰ تک ہونے کا امکان ہے۔ اور اگر حالات ایسے ہی خراب ہوتےگئے تو حکومت کو خوراک، صحت، پیٹرولیم، اور بینکنگ سیکٹر کو اہم قرار دے کر اسےبراہِ راست دیکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ماضی میں سورش زدہ علاقوں میں راشن کی تقسیم کو بھی بہت موَثر انداز میں یقینی بنانا ہو گا تاکہ ریاست مخالف عناصر اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اسی طرح فلاحی کاموں اور فنڈ جمع کرنے کی سرگرمیوں کو بھی قانونی، شفاف اور ریکارڈ شدہ بنانا ہو گا تاکہ مستقبل میں اسے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ پبلک سیکٹر اداروں کے پاس نِجّی اداروں کی نسبت تکنیکی صلاحیت عمومی طور پر زیادہ ہے لہٰذا حکومت کو یہ بھی سوچناہو گا کہ کونسے سیکٹرز کو کرائسِس مینیجمنٹ کے لیے استعمال کرنا ہے۔ چیمبر آفکامرس اور انڈسٹری کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کونسی ایسی اشیاء ہیں جنہیں پروڈکشن لائن میں تبدیلی لاتے ہوئے مقامی طور پر تیار کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ یہ وبا دوسری عالمی جنگ کے بعد سے انسانی زندگی کو درپیش دنیا کا سب سے بڑاخطرہ ہے اور اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی میٹنگ بلائ جانی چاہیے۔ان حالات کو عالمی انسانی سلامتی کو چیلنج قرار دیا جانا چاہیے اور بین الاقوامی تعاون کے لیے مختلف ذاویوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک جامع اور مسمّم حکمتِ عملی ترتیب دینی چاہیے۔
کورونہ کی وبا سے نمٹننے کے لیے بہتر ردِ عمل دکھانے والے ممالک کی مثال دیتے ہوئے محمد علی کا کہنا تھا کہ وسطی ایشیاء کی ریاستوں قذاکستان،کرغیزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور اُزبکستان اور اسکے ساتھ آزربائجان ایسےممالک ہیں جہاں رپورٹ کیے جانےوالے مریضوں کی تعداد 1000 سے زیادہ ہے لیکن اس پرقابو پانے کے لیے جو حکمتِ عملی انہوں نے ترتیب دی ہے وہ باقی دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔ ان کو دیکھ کے یہ سبق سیکھا جا سکتا ہے کہ اصل کرنے والا کام مسئلے پرقابو پانا نہیں بلکہ حفاظتی اقدامات اور ان پر عمل درآمد ہے۔
خالد رحمٰن کا کہناتھا کہ اس بحران سے نمٹنے میں مساجد ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اگر سمجھداری سے کام لیا جائے تو اس سلسلے میں ان قریب آنے والے رمضان کے مہینے سے فائدہ اٹھایاجا سکتا ہے جبکہ اس کے  لیے ان کوششوں کاابھی سے آغاز کر دینا چاہیے کہ جن کہ ذریعے تمام متعلقہ لوگوں کو اس معاملے پر ایک صفحے پر اکٹھا کیا جا سکے۔  
ڈاکٹر وقارمسعود کا کہنا تھا کہ اس وبا پر قابو پانےاور اس سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنےکے لیے وفاق، صوبوں اور افواج کی مشاورت سے ایک جامع پالیسی بنائ جانی چاہیے تھی۔25 مارچ کو حکومت نےلاک ڈاوَن کا فیصلہ بھی بمشکل کیا تھا جب کہ اب بھی وہ کئ جگہ پر زمہ داری لیتی نظر نہیں آتی۔ البتّہ انہوں نے حکومت کے بین الاقوامی قرض دہندہ ممالک کی بیرونی عوامی قرضوں سے وابستہ بڑی ادائیگییوں کو بحران کے ختم ہونے تک ریشیڈیول کرنے کی طرف توجہ دلانے کے اقدام کو سراہا۔
ان کا  یہ بھی کہنا تھا کہ اس بحران کو ایک مثبت پہلوکی طرف سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جس میں پاکستان کو اپنی کمزوریوں کا ادراک کرنےاور اپنے آپ کو خود کفیل بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ اب یہ ایک ایسا وقت ہے کہ جس میں  مختلف شعبوں میں موجود مواقع کو تلاش کر کے ان سے فائدہ اٹھایا جائے، جس میں بالخصوص ٹیکنالوجی سے متعلقہ شعبے قابلِ ذکر ہیں جو کہ مستقبل میں ملکی ترقی کا ذینہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ 

— 

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے