یکساں نصاب تعلیم اور ہمارا نظام تعلیم

یکساں نصاب تعلیم اور ہمارا نظام تعلیم

زیرنظرمضمون انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایگزیکٹو پریذیڈنٹ خالدرحمن کے کلیدی خطبہ پرمبنی ہے۔یہ  کلیدی خطبہ 11مارچ 2020 کو اقبال انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیراہتمام سیمینار میں پیش کیا گیا۔ اہل علم، اساتذہ اور طلبہ وطالبات کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ وزیرتعلیم جناب شفقت محمود اوروزارت تعلیم کے اعلٰی عہدیدار بھی اس سیمینار میں موجود تھے۔

 Uniform-National-Curriculum

 زیرنظرمضمون انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایگزیکٹو پریذیڈنٹ خالدرحمن کے کلیدی خطبہ پرمبنی ہے۔یہ  کلیدی خطبہ 11مارچ 2020 کو اقبال انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیراہتمام سیمینار میں پیش کیا گیا۔ اہل علم، اساتذہ اور طلبہ وطالبات کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ وزیرتعلیم جناب شفقت محمود اوروزارت تعلیم کے اعلٰی عہدیدار بھی اس سیمینار میں موجود تھے۔


 


 

یکساں قومی نصاب اور ہمارا نظام تعلیم[1]

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب پروفیسرمعصوم یسین زئی صاحب، جناب پروفیسر ڈاکٹراحمدیوسف الدرویش صاحب،برادرم رفیق طاہرصاحب اور اس ہال میں کئی قابل ذکرشخصیات موجود ہیں لیکن میں کم ازکم جناب ڈاکٹرخالدمسعودصاحب، جناب مولانا زاہدالراشدی صاحب اور ڈاکٹر ضیاء الحق صاحب کا خاص طورپر ذکر کرنا چاہوں گا ۔

میں شکرگزار ہوں کہ آپ نے قومی اہمیت کے حامل اس خاص موضوع پر مجھے اپنے خیالات کے اظہار  کا موقع فراہم کیا ہے۔

 ویسے مجھے شروع میں ہی یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ میں کسی طرح بھی ماہر تعلیم کہلانے کا مستحق نہیں ہوں۔ اس کے باوجود میں نے آپ کی دعوت قبول کرلی تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔   ایک وجہ جو میں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی  ایک تحریر سے اخذ کی ہے آپ کے سامنے پیش کردیتا ہوں۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے ایک بار اپنے کالم میں لکھا ہے کہ وہ ماہر امراض چشم کی ایک کانفرنس کی  صدارت کررہے تھے ۔ یہ  ایک بین الاقوامی کانفرنس تھی چنانچہ اس میں مغربی دنیا سے بھی کئی ماہرین آئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اسٹیج پر میرے برابر میں بیٹھے ایک غیرملکی نے، جو کسی یورپی ملک سے تعلق رکھتا تھا مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کا پی ایچ ڈی کس مضمون میں ہے؟ ڈاکٹر صاحب  نے جواب میں اسے بتایا کہ "میں نے میٹلرجی میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے”۔  ڈاکٹر صاحب کے بقول اس یورپی ماہر نے زیرلب  بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ عجیب بات ہے، ماہرین امراض چشم کی کانفرنس ہے اور  اس کی صدارت کے لیے میٹلرجی کے ایک پی ایچ ڈی کو بلایا گیا ہے۔  

ڈاکٹر قدیر خان آگے چل کر  لکھتے ہیں  کہ میں نے اس کی یہ بات سن لی اور براہ راست اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ  "ٹھیک ہے میں ماہر امراض چشم نہیں ہوں لیکن  دوآنکھیں تو میری بھی ہیں”۔   اسی تناظر میں، میں عرض کرتاہوں کہ  ماہر تعلیم تو میں نہیں ہوں لیکن تعلیم ایک ایسا موضوع ہے جس پرہماری آئندہ نسلوں کے مستقبل کا انحصار ہے ، قوموں کی برادری میں ہماری شناخت اور ہمارے مقام کا اس سے براہ راست تعلق ہے ۔یوں یہ ہم میں سے ہر ایک سے متعلق ہے۔ اپنی اجتماعی بقاء اور قومی ترقی سے جسے ذرا بھی دلچسپی ہو وہ    اس سے کیسے لاتعلقی اختیار کر سکتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

مجھے مدعو کرنے کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرا تعلق  انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے ہے ۔۱۹۷۹ میں اپنے قیام سے لے کر اب تک کے چالیس سال میں اس ادارہ نے  اپنی علمی وتحقیقی سرگرمیوں میں تعلیم، تعلیمی نظام اور تعلیمی پالیسی  پر متعدد اور کئی طرح کے کام کیے ہیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ  آج جس موضوع پر ہم بات کررہے ہیں وہ ہمارے ان سارے کاموں کا ایک مرکزی عنوان رہا ہے۔ بذات خود ‘یکساں نظام تعلیم’ کے عنوان  سے نہ صرف یہ کہ ہم نے ایک قومی سیمینار منعقد کیا بلکہ اس پر کتاب بھی شائع کی۔   اسی طرح پرائیویٹ پبلک سیکٹر کی بحث  میں ہم نے "تعلیم اور نجی شعبہ” کے عنوان سے ایک دو روزہ قومی سیمینار   منعقد کیا اور اس پربھی کتاب شائع کی۔ ‘ ذریعہ تعلیم کے مسئلہ’  اور ‘نظام امتحانات’ پر بھی دو روزہ سیمینارز علیحدہ علیحدہ منعقد کیے اور ان موضوعات پربھی جامع مطبوعات  پیش کی ہیں۔ ایک اہم دو روزہ سیمینار ہم نے ‘تعلیم میں بیرونی معاونت’ کے عنوان سے منعقد کیا تھا جس کے قیمتی مقالات ۱۹۹۶میں اسی عنوان سے کتاب کی صورت میں شائع ہوئے۔ دینی نظام تعلیم پر ایسی ہی کاوشوں پر مبنی نصف درجن سے زائد تخلیقات ان کے علاوہ موجود ہیں۔  یہ سارا کام آج کا نہیں ہے بلکہ یہ ۱۹۸۰ کی دہائی سے شروع ہوکر مسلسل ہوتا رہا ہے۔ 

ظاہر ہے کہ ایک معنی میں ہمیں اس پر خوشی ہوتی ہے کہ ایک ایسے موضوع کو جسے ہم کئی سال بلکہ کئی دہائیوں سے اٹھا رہے تھے، اس پر اگرچہ  درمیان میں بھی مختلف حکومتوں کی طرف سے اپنے اپنے انداز میں کچھ کیا گیا ہے  لیکن اب اس پر ایک زیادہ بڑی  کوشش ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ سوچ کر دکھ  ہونا چاہیے کہ جن چیزوں کو ۱۹۸۰ کی دہائی میں کھل کر بیان کر دیا گیا تھا ان پر اقدامات آج تک نہیں ہوسکے ہیں۔وہ مسائل جو اس زمانے میں زیادہ آسانی سے حل ہوسکتے تھے  آج وہ زیادہ پیچیدہ ہو چکے  ہیں۔ اس اعتبار سے زیربحث موضوع پر شائد اولین پیغام یہ ہونا چاہیے کہ جتنا ہم تاخیر کریں گے مسائل کی پیچیدگی بڑھتی چلے جائے گی۔ ہمیں مزیدوقت ضائع کیے بغیر زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

_______________________________________________

نصاب تعلیم یکساں کیوں ہو؟ اس بارے میں کوئی بھی بات کرنے سے قبل  ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ آخر تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے؟

اگر قومی سطح پر  تعلیم کی ضرورت کا  انکارکردیاجائے  تو اس کے بعد یکساں اور عدم یکساں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ ظاہر ہے اس صورت میں  ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی اور کسی بھی سطح کی تعلیم کا انتظام کرلے۔ لیکن دراصل قومی سطح پر تعلیم کے بارے میں بات ہوگی تو غوروفکر کے بعد اس کا تعین  ضروری ہو گا کہ آخر تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے؟

 

 


ایگزیگٹو پریزیڈنٹ آئی پی ایس خالد رحمٰن کی’یکساں قومی نصاب اور ہمارا نظام تعلیم’ کانفرنس کے موقع پر تقریر

 

  ہمارے پاس جتنا وقت ہے میں اس میں صرف اشارے ہی کرسکوں گا لیکن میرے خیال میں تعلیم کا تعلق بعض بہت اہم اور ان بنیادی سوالات سے ہے جو ہرانسان کے ذہن میں زندگی کے مختلف مراحل پر سامنے آتے رہتے ہیں۔  دنیا میں جو انسان بھی آتا ہے،اور  یادرکھنا چاہیے کہ    ہرانسان کواللہ تعالی نے   سوچنے سمجھنے والا دماغ دیا ہے، اس کے ذہن میں اپنی ذات اور    وجود کے بارے میں، کائنات میں اپنی  حیثیت  اور  اس دنیا میں اپنے مقام کے بارے میں، یااسی طرح اس دنیا سے رخصت ہوکر اپنے انجام کے بارے میں سوالات آتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ جو کچھ اس کی نظروں کے سامنے ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔ صرف ایک مثال لی جائے توسورج روز اپنے مقررہ وقت پر طلوع ہوتا ہے اور روشنی اور حرارت کی جملہ انسانی اور نباتاتی ضروریات کا انتظام کرتے ہوئے ایک خاص وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔۔۔۔یہ سلسلہ نمعلوم کب سے جاری ہے۔ نہ اس میں کوئی تعطل آتا ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی آتی ہے،  اس پورے نظام کی پشت پر کون ہے اور کیسے چل رہا ہے۔۔۔آگے چل کر  کیا ہوگا، کیوں ہوگا، کیسے ہوگا، اور آخر اس سارے کا اختتام کیا ہوگا؟ غرض،  بے شمار سوالات اس کے ذہن میں جنم لیتے ہیں۔  اور ظاہر ہے جب یہ سوالات ذہن میں آتے ہیں تو فطری طورپر وہ ان کے جواب کے لیے جستجو کرتا ہے۔ اس جستجو میں تعلیم کا  اہم ترین کردار ہے۔

 اس حوالے سے اس بات کو دہرا لینے کی ضرورت ہے کہ ان سوالات کے جواب میں یوں تو دنیا میں بہت سارے جوابات موجود ہیں،  لیکن اگر وسیع تر دائروں میں تقسیم کیا جائے یا  ایک لکیر کھینچ کر دو حصوں میں بانٹا جائے تو طرزفکر کے دو مختلف انداز سامنے آتے ہیں۔ ایک طرزفکر [پیراڈائم] یہ ہے کہ دنیا کا ایک خالق ہے، اسے کسی ہستی نے تخلیق کیا ہے اور اسی  نے دنیا میں  بے شمار نعمتیں انسان کے لیے پیدا کی ہیں۔   پھر اس نے انسان کو تخلیق کرنے کے بعد چھوڑ نہیں دیا بلکہ زندگی گزارنے کے لیے ایک راہنمائی  بھی دی ہے۔ بے شک اسے آزاد چھوڑا ہے کہ وہ اس رہنمائی  پر عمل کرے یا نہ کرے۔ اس آزادی کو اس نے امتحان قرار دیا ہے۔ اور امتحان میں کامیابی کی صورت میں انعام کا مستحق ٹھہرایا ہے۔

زندگی کی دوسری پیراڈائم یہ ہے کہ دنیا خود بخود بن گئی ہے۔ اس دنیا میں جتنا وقت کسی انسان نے گزارنا ہے اس کے لیے انسانوں نے خود ہی کوئی ضابطہ بنانا ہے۔ یہ ضابطہ  بنا لیا ہو تو بھی ٹھیک ہے ورنہ  وہ جیسے بھی زندگی گزارنا چاہے اسے اس کا حق حاصل ہے۔ زندگی کے بارے میں یہ دو مختلف طرزہائے فکر [پیراڈائمز]  دو مختلف انسان بناتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں تعلیم کانظام کیاہو، اس کا ان بنیادی سوالات سے بڑا گہرا تعلق ہے۔

 پاکستان میں تعلیم کس پیراڈائم پر مبنی ہو اس کا فیصلہ کرنے کے لیے پاکستان کی آبادی پر اس پہلوسے نگاہ ڈالنا ہوگی کہ زندگی کے بارے میں اس کے بنیادی تصورات کس پیراڈائم پر مبنی ہیں۔ یہ سوال ایسا  ہے   جس کے جواب کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے ۔ حقائق  اور اعدادوشمار سب واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی کی عظیم اکثریت اس نقطہ نظر پر یقین رکھتی ہے کہ دنیا کو کسی ہستی نے بنایا ہے اور بنانے کے بعد ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا، وہی نظام چلا رہا ہے اور اس نے اس کے لیے رہنمائی دے دی ہے۔   اس رہنمائی میں انسان نے بہت کچھ غوروفکر کرنا ہے کہ اس کو زمان ومکاں   کے مطابق کیسے روبہ عمل لایا جائے۔ اس پر آراء میں تنوع ہوسکتا ہے۔ لیکن اس رہنمائی سے اس نے باہر نہیں نکلنا۔

 انسان کے پاس  جو بھی ذرائٰع علم  ہیں  جس میں اس کے حواس ،  عقل اور وجدان     اور ان کی   بنیاد پر تشکیل پاجانے والی سائنس بھی شامل ہے۔  یہ تمام ذرائع ایک حدتک انسان کو رہنمائی دے سکتے ہیں یوں  یہ سارے ذرائع محدود ہیں۔   

_______________________________________________

 ایسے میں تعلیم، تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب کا تعین کرتے ہوئے اہم ترین سوال یہ بن جاتا ہے کہ وہ کس تصور علم پر مبنی ہو۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ۹۷فیصد مسلمان ہوں یہ بات اصولاً بحث طلب نہیں ہونی چاہیے کہ یہاں  تصورعلم اس تصور زندگی کی بنیادپر تشکیل پانا چاہیے جو یہ  کہتا ہے کہ کائنات کی تخلیق ہی نہیں علم کا سر چشمہ بھی اللہ کی ذات ہے جس نے اولین انسان یعنی آدم علیہ السلام کو اشیا  کے نام بتا کر انسان تک  علم پہنچانے  کا آغاز کیا تھا-   اس تصور علم سے جڑی ہوئی بات یہ ہے کہ علم کا تعلق محض ضروریات زندگی سے نہیں ہے بلکہ مقاصد زندگی سے ہونا چاہیے ۔جب بھی  یکساں نظام تعلیم کی اور اس کے نتیجے میں قومی نصاب کی تشکیل کی بات کی جارہی ہو  تو یہ اہم نکتہ دوٹوک طورپر   سامنے رہنا چاہیے کہ ‘علم کا تعلق محض ضروریات زندگی سے نہیں بلکہ اصلاً مقاصد زندگی سے ہے’۔

اس مجموعی تناظر میں جب ہم پاکستان کے دستور کو دیکھتے ہیں تو دستور میں یوں تو کئی چیزیں ہمارے زیربحث موضوع سے متعلق ہیں لیکن اس وقت  میں محض چند اشارے آپ کے سامنے کر رہا ہوں۔ دستور کا باب  ۲ پالیسیوں کے لیے اصول [Principles of Policy]بیان کرتا ہے۔ یعنی یہ ان  اصولوں کے بارے میں ہے جو ریاست کے لیے یہ لازم کرتے ہیں کہ اس کے تمام ادارے  اور افراد یعنی   پوری حکومت ان اصولوں کے مطابق  اپنے اپنے دائرہ اثر میں  اقدامات کر رہے ہوں۔ اس باب  میں شامل دفعہ ۳۱     اسلامی طرززندگی کے حوالہ سے پابند کرتی ہےکہ اس ضمن میں  قرآن مجید اور اسلامیات کی لازمی تعلیم ،عربی کی تعلیم کے لیے سہولتیں ،  قرآن مجید کی درست اشاعت اوراتحاد نیز  اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی پروموشن کا اہتمام کیاجائے۔

 آرٹیکل ۳۷ ب کم از کم مدت میں نا خواندگی کے خاتمہ کے بارے میں ہے۔ آرٹیکل ۳۸ د ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی کمزوری، بیماری یا بےروزگاری کی بناء پرمعذوری سے، خواہ وہ مستقل طور پر معذور ہو یا عارضی  معذور ہو، قطع نظر تمام شہریوں  کو بلا لحاظ ذات جنس،نسل اورعقیدہ بنیادی ضروریات زندگی خوراک ، لباس، صحت اور تعلیم مہیا کرے گی۔  اس سے قبل بنیادی حقوق کے عنوان سے باب اول میں آرٹیکل ۲۵ الف  جواٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں شامل کیا گیا ہے ۵تا ۱۶ سال تک کی عمر  کےتمام  بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کا ذکر کرتا ہے۔اسی باب میں موجود دفعہ ۲۲  تاکید کرتی ہے کہ کسی کو اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہ کیا  جائے گا۔اس موضوع کے حوالے سے یہ بھی بڑی اہم بات ہے۔  یوں دستور پاکستان اس بارے میں بالکل واضح ہے اور ان اقدامات کی تاکید کرتے ہوئے اس میں آبادی میں [مذہبی تعلیم کے ضمن میں آرٹیکل  ۲۲میں دستیاب تحفظات کے علاوہ] کسی بنیاد پر تفریق نہیں کرنا۔

_______________________________________________

اس مجموعی تناظر میں  جب ہم موجودہ حکومت کی اعلان شدہ پالیسیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں  تو مجھے یہ جان کرخوشی ہوتی ہے کہ اس کی جانب سے اعلانات میں تسلسل سے یکساں نظام تعلیم کی بات کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں اہم ترین دستاویز  وہ پالیسی دستاویز ہے جو آپ سب لوگوں کو کسی وقت موقع نکال کر پڑھنا چاہیے ۔ یہ  پی ٹی آئی نے ۲۰۱۳ میں جاری کی  تھی۔ اسے تعلیمی پالیسی: انسانی وسائل میں سرمایہ کاری (Education Policy: Investing in Pakistan’s Human Resource) کانام دیا گیا ہے۔ اگر مجھے صحیح طورپر یاد ہے تو یہ ۲۱فروری ۲۰۱۳کو باقاعدہ پریس کانفرنس میں جاری کیاگیا تھا۔ دستاویز  میں ۶نکات کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف نے اپنے تعلیمی وژن کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اس میں پہلا نکتہ ” سب کے لیے ایک  ہی تعلیمی  نظام"   [2] [one education system for all]پر مبنی تھا ۔ وقت کی قلت کے پیش نطر ا س وقت  بقیہ نکات نظرانداز  کر رہا ہوں۔ ۴۸ صفحات  پر مشتمل یہ دستاویز بہت   جامع ہے۔ یکساں تعلیمی نظام  کے حوالے سے یہ دستاویز [صفحہ نمبر22]  ذریعہ تعلیم  کے بارے میں دو اور دو چار کی طرح واضح کرتے ہوئے کہتی ہے  :

Mother tongue and/or Urdu to be the medium of instruction in all public and private schools up to Class VIII

بہت ہی دوٹوک طور پر یہ بات کہی گئی ہے۔ اس کے بعد اس کا روڈ میپ بھی، بڑی حدتک جو کسی ایسی دستاویز  میں واضح کیا جا سکتا ہے، اسی صفحہ پر دیاگیا ہے۔ اس دستاویز میں  دوسری اہم  چیز جس کی جانب میں اشارہ کر رہا ہوں صفحہ نمبر 29 پر موجود ہے۔ یہ  امتحان اورجانچ[Assessment] کے  نظام سے متعلق ہے ۔ نصاب کوئی بھی ہو اور تعلیم کا نظام کیسا  بھی ہو یعنی تھوڑی دیر کے لیے باقی تمام امور کو نظرانداز بھی کر دیا جائےاور جو چیزیں   جس طرح   چل رہی ہیں انہیں جوں کا توں رہنے دیا جائے البتہ    تمام لوگوں کے لیے امتحانی نظام یکساں کر دیا جائے، یعنی جانچ ایک ہی معیار پر ہورہی  ہو تو غیریکسانیت کے بہت سے مسائل ازخود حل ہوجائیں گے۔ اس صورت میں تمام لوگ اپنے آپ کو جانچ کے  اس نظام کے مطابق تبدیل کرنے  پر مجبور ہوں گے۔ صفحہ ۲۹پر موجود بیان کے الفاظ ہیں:

All students in public and private schools to be assessed under one standardized assessment system

یوں بہت ہی واضح  الفاظ میں یکساں نظام امتحانات کی  یہ بات واضح کی گئی ہے۔

 اس مرتبہ   ۲۰۱۸ کے انتخابات کے موقع پر بھی پی ٹی آئی نے   اپنے منشور میں تعلیم کا  ذکر کیا تو اس میں بھی بہت ہی دوٹوک طور پر باتیں کہی گئی ہیں۔ منشور میں شعبہ تعلیم کے حوالہ سے  پہلے تو عدم یکسانیت کے مرض کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ

"شعبہ تعلیم جب سے صوبائی سطح پر منتقل ہوا ہے تب سے اس اہم ترین شعبے میں برابری کے حساس معاملہ پر اتفاق رائے سے گریز کیا جا تا رہا ہے”۔ ۔۔۔ "ذریعہ تعلیم اورتدریس میں زبان کے انتخاب پر بھی آج تک قومی اتفاق رائَے نہیں ہو سکا”۔ ۔۔۔”ناقص تعلیمی منصوبہ بندی کے باعث طلب اور رسد میں نمایاں فرق آ چکا ہے”۔۔۔۔”سرکاری سکول کا نظام وسائل کی کمی کا شکار ہےاور اس نظام کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں”۔[منشور پی ٹی آئی ۲۰۱۸، ص۴۵]

مرض کی اس بڑی حدتک درست  تشخیص  کے نتیجے میں منشور کی دستاویز کافی جامع بن جاتی ہے۔ بلاشبہ اس دستاویز میں اور بھی کچھ تفصیلات مل جائیں گی اور ظاہر ہے کہ ان تفصیلات کو اور بہتر بھی بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی حکومت  نے نیشل پالیسی فریم ورک کا نومبر۲۰۱۸ ،یعنی اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی   اعلان کیا ہے۔  اس پالیسی فریم ورک میں اس  بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ "تعلیمی میدان میں ملک کو درپیش چیلنجز میں سے دوسرا بڑا چیلنج ملک کے تمام طبقات کے لیے یکساں نظام تعلیم کا موجود نہ ہونا ہے”۔

اس کے ساتھ ہی یہ تشخیص بیان کی گئی ہے کہ  "تین بڑے نظام ہائے تعلیم یعنی سرکاری شعبہ، نجی شعبہ اور مدارس کام کر رہے ہیں”۔ نیز یہ کہ "سہولیات، ترجیحات، طبقاتی تقسیم اورتعلیمی معیار کے لحاظ سے مزید گہری تقسیم موجود ہے” ۔  مزید کہا گیا ہے کہ "نظام ہائے تعلیم کی اس بڑی تفریق میں اہم ترین معاملہ متفرق تعلیمی نصاب کا ہے”۔ پھر کہاگیا ہے "جبکہ  نصاب میں بنیادی تفریق اردو اور انگریزی زبان کی بنیاد پر ہے جبکہ متفرق سماجی اقدار، معاشرتی تقسیم اور ترجیحات کے لحاظ سے درجنوں قسم کے”، میں ان الفاظ پر زور دے رہاہوں کہ اس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ "درجنوں قسم کے نصاب مختلف سکولوں اور مدارس میں رائج ہیں”۔

۲۰۱۳ کی پالیسی دستاویز، ۲۰۱۸ کے منشور اور حکومتی نیشنل پالیسی فریم ورک کے ان اقتباسات کی روشنی میں تسلیم کیاجانا چاہیے کہ موجودہ حکومت کے اعلانات میں تسلسل نظر آتا ہے ۔ اعلانات کا یہ تسلسل نومبر ۲۰۱۸ سے اب تک [مارچ۲۰۲۰]  بھی نظر آتا ہے۔ مثلاً وزیرتعلیم کا یہ بیان قابل ذکر ہے جو انہوں نے سینیٹ کی کمیٹی برائے ایجوکیشن میں ۲۹جنوری  ۲۰۲۰ کو یعنی کم وبیش ۶ہفتے قبل    ہی دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ

Multiple curricula currently in use in educational institutions across Pakistan is hampering governments’ efforts to ensure national unity and unison,

آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی میں نے جو دستور کے چند نکات پیش کیے ہیں اس میں تمام حکومتی اداروں کے لیےunity کو promote   کرنا ان  principles of policy  میں شامل ہے۔  

  وزیر تعلیم نے اسی موقع پر مزید کہا

For uniform education system, an international standard uniform curriculum was being prepared in consultation with all stakeholders including public, private and Madaaris schools which would be implemented till March 2021,

…that education ministry had signed a four-year agreement with the Wafaq-ul-Madaaris under which the Madaaris would send their children in public-private schools for formal education till intermediate level.

 وزارت تعلیم کے تحت چار روزہ قومی کانفرنس ابھی  ایک ماہ قبل [۱۱ تا ۱۴]  فروری میں اسلام آباد میں منعقد ہوئی ہے۔ اس کانفرنس میں بھی وزیر تعلیم نے خطاب کیا: "تعلیمی نظام میں طبقاتی تقسیم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ”اس وقت سوچ اور نظریات اور اہلیت میں اتنا فرق ہے کہ دو طبقوں کو ایک ساتھ بٹھا دیں تو وہ بات چیت کرنے کے قابل نہیں ہوتے”۔ انگریزی زبان کی بالادستی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں "ملک میں سرکاری زبان ، عدالتی زبان اور کارپوریٹ زبان انگریزی ہے ۔پس انگریزی میں مہارت یا فتہ طبقے کو اۤگے جانے کے لیے اۤسانی ہوتی ہے جبکہ مدرسوں کے بچوں کو آگے جانے کے لیے بہت رکاوٹیں طے کرنا پڑتی تھیں۔پوری قوم بکھری ہوئی ہے”۔ وزیرتعلیم نے تو مدارس کے بچوں کو محروم قرار دیا لیکن میرا خیال ہے کہ اس محرومی میں مدرسوں کے ساتھ پبلک سیکٹر کے ادرے اور دیگر بہت سے ادارے بھی شامل  ہیں جو اگرچہ مدرسے کی رائج تعریف میں نہیں آتے لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں شامل ہیں، جیسا کہ پیچھے ذکرکیا گیا ہے کہ درجنوں قسم کے ادارے ہیں۔

وزیر تعلیم نے اسی موقع پر ایک بار پھر نشان دہی کی کہ :”70 سال میں تعلیمی میدان میں ریاست کی ناکامی رہی اور ریاست تعلیمی طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے میں کوئی توجہ نہ دے سکی "۔

    وزیر تعلیم نے اور بھی بہت ساری چیزیں پیش کی ہیں ۔   اس وقت ساری چیزیں بیان  کرنا مشکل ہوگا کہ    ہمارے پاس وقت کم ہے۔   البتہ کام کی  حساسیت، اہمیت اور نزاکت کو سمجھنے کے لیے وزیرتعلیم کا کہاگیا  یہ نکتہ میں ضرور پیش کرنا چاہوں گا کہ "دوستوں نے شروع میں کہا تھا کہ یہ کام نا ممکن ہے ، اٹھارہویں ترمیم کے بعد نصاب صوبوں کو تفویض ہو چکا ، پرائیویٹ سکولز اور مدارس کا تعاون کرنا بھی غیر یقینی ہو گا مگر وزیر اعظم پاکستان کی رہنمائی میں ، میں نے یہ چیلنج قبول کیا اور خوش اۤئند بات یہ رہی کہ تما م صوبوں ، خاص کر نجی سکولوں اور اتحاد تنظیم المدارس کا بہت تعاون رہا جس کے لیے ان سب کا شکرگزار ہوں۔

       آگے چل کرکہتے ہیں : "یکساں تعلیمی نصاب کو تیار کرنے کے لیے دور حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ اس نصاب سے ہمار ی ثقافت اور تاریخ کی عکاسی ہو گی۔ بین الاقوامی تعلقات کو بھی ذہن میں رکھا گیا ہے۔ مختلف زبانوں کا رول بھی متعین کیا گیا ہے اور یہ بات بھی ہم نے سامنے رکھی کہ ہم کس قسم کا شہری، کس قسم کا مسلمان اور کس قسم کا انسان بنانا چاہتے ہیں۔ ہما را یکساں نصاب ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرے گا”۔

               نجی سکولز کے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے وزیرتعلیم نے  کہا کہ” اس سرکاری نصاب کا معیار کسی بھی لحاظ سے نجی سکولوں کے نصاب سے کم نہ ہو گا بلکہ بہتر ہو گا”۔

"اپریل 2021 میں پورے پاکستان کے  تمام سکولوں میں انشاءاللہ پرائمری نصاب لاگو ہو جائے گا”۔اپنی گفتگو میں وزیراعظم پاکستان کی اس حوالہ سے راہنمائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:  "وزیراعظم عمران خان کہتے رہے ہیں کہ اس وقت نصاب میں تہہ در تہہ تفریق معاشرے کے مختلف طبقات میں پیدا ہونے والی خلیج اور تقسیم کااصل سبب ہے”۔”متوازی تعلیمی نظاموں کی بناء پر تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ کی استعداد اور ان کے سوچنے کے انداز میں فرق نے قومی سوچ اور استعداد کو بھی متاثر کیا ہے”۔[3]  

امیر اور غریب کی بنیاد پر طبقاتی تقسیم کی جانب وزیرتعلیم کا یہ نکتہ بھی پیش کرنے کے لائق ہے : ” موجودہ نظام تعلیم میں امیر اور غریب کے لیے معیار میں نمایاں فرق اور امتیاز ہے۔ ۔۔۔ انگلش میڈیم اسکول اپنے طلبہ کو ایک ایسے مقام پر پہنچادیتے ہیں جہاں  ان کے لیے کلیدی عہدوں کو جھپٹ لینا ممکن ہو جاتا ہے”۔[4] 

یہ تمام تفصیل  بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ چاہے ۲۰۱۳ کی ایجوکیشن پالیسی دستاویز ہو جو پاکستان تحریک انصاف نے دی اور  خواہ  اس بار یعنی ۲۰۱۸ کے الیکشن کا منشور ہو،   یا اس کے بعد کے مراحل یعنی نیشنل ایجوکیشن پالیسی فرہم ورک ۲۰۱۸ ہو، اور اب جو مشق قومی نصاب کی تشکیل کے لیے ہورہی ہے، اس حوالےسے وزیرتعلیم یا وزیراعظم کے بیانات ہوں یہ سب اس بارے میں نشان دہی کررہے ہیں کہ مرض اور اس کے اثرات   کاعلم بھی ہے  اور اس  کی تشخیص اور اس  کی مختلف جہات  بھی معلوم ہیں۔

 اس اعتبار سے سنجیدہ طبقات کی یہ خواہش فطری ہے کہ اس وقت جاری کوششوں  کو سمجھا جائے۔اس ضمن میں وزارت کی جانب سے بھی معلومات کی عام فراہمی ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ کیا  ہورہا ہے  اور  اسے اور بھی بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یہاں وزارت کے نمائندے   موجود ہیں ۔ اس اعتبار سے آپ کو دن میں موقع ملے گا کہ ان کی زبانی بھی چیزیں سن سکیں۔ خوش قسمتی سے چند دن پہلے جب ہم نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں سیمینار کیا تو مجھے ذاتی طورپر بھی ان کی بات تفصیل سے سننے کا موقع ملا۔ 

 _______________________________________________

میرے خیال میں چیلنج بہت بڑا ہے البتہ جو مشق ہورہی ہے اور جس پس منظر میں اس کو بیان کیا جا رہا ہے اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن تمام اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے کہ اس تمام عمل کو  کسی پولرائزیشن کی نظر نہ ہونے دیں۔ جس نوعیت کی polarization آج پاکستان کے ہر موضوع پر قومی سوچ کو متاثر کررہی ہے ‘تعلیم’ کو  اس کا شکار نہیں کر دینا چاہیے۔بدگمانی کے ماحول میں قومی سطح کے کسی بھی مسئلہ کو موثر طور پر حل کرنا ممکن نہیں ہے۔

تعاون کے اسی جذبہ کے پیش نظر یہ بات کھل کر کہنے کی ضرورت ہے    کہ یکسانیت اور عدم یکسانیت کے بہت سے دائرے ہیں ۔  ان دائروں میں سے نصاب تعلیم کو اٹھا لینا ، ایک پہلا قدم تو مانا جاسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ جڑے بہت سارے   دائرے ہیں یہ تمام دائرے بھی اس کے ساتھ ہی  زیربحث لائے جانے چاہییں۔   میرا خیال ہے اور آپ بھی اتفاق کریں گے کہ  ایک مرض کی دس وجوہات  میں   سے ایک سبب ختم کردیا جائے   اور باقی ۹ اسباب  unaddressed رہ جائیں تو مریض کاصحت یاب ہوجانا ممکن نہیں ہے۔

  اس وقت یہی معاملہ تعلیمی نظام کا ہے۔  چنانچہ مثال کے طورپر ہم  تعلیم میں یکسانیت اور عدم یکسانیت کے دائرے گننا شروع کریں تو  کم ازکم ۵بڑے دائرے بنتے ہیں جن میں سے ہر دائرہ کئی سوالات پر بحث کا تقاضا کرتا ہے۔

           ایک پوری بحث زبان [یعنی ذریعہ تعلیم] کے بارے میں ہمیں کرنی ہوگی ۔ یعنی یہ ایک لسانی مسئلہ ہے کہ انگریزی میڈیم ہو یا اُردو میڈیم اور یا بعض علاقوں میں مقامی زبان کو بطور میڈیم اختیار کیا جائے،جیسے سندھ میں سندھی میڈیم بھی رائج ہے۔ یہ سوال بھی زیرغور آنا چاہیے کہ بعض سطحوں پر بعض مضامین کی کتاب انگریزی اور تدریس میں اردو یا مادری  اور یا ماحول کی زبان کی گنجائش ہو۔

   لسانی دائرہ میں ہی دوسرا پہلو اس سوال سے متعلق ہے کہ ایک بچے کوکسی مرحلہ پر کون سی زبان /زبانوں کی تعلیم دینا لازمی ہونا چاہیے۔  اگر اس دائرے کو زیربحث نہ لایا جائے یا اس پر اتفاق رائے سے فیصلہ نہ کیا جائے اور یا اسے نظرانداز کرتے ہوئے محض مارکیٹ کی قوتوں پر چھوڑ دیا جائے تو یکساں قومی نصاب کے بارے میں ہونے والی ساری بحث غیرمکمل رہے گی اور ایک معنی میں غیر موثر بھی ہوجائے گی۔

           لسانی کے بعد دوسرامسئلہ تعلیم میں امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی تقسیم ہے۔ اگر میں تہی دست ہوں تو   میرے لیے ممکن نہیں ہے کہ میں ایک ‘معیاری  تعلیمی ادار ے’میں جا سکوں۔طبقاتی تقسیم کا ایک سبب اور نتیجہ تعلیمی اداروں کی ملکیت سے جڑا نظر آتا  ہے۔ اس کا تعلق تعلیم کو تجارت یاصنعت کا درجہ دینے سے بھی ہے۔ چنانچہ   یہاں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی ایک بہت بڑی تقسیم ہے۔  اور پھر جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں میں درجنوں  دائرے   ہیں۔ ملٹری کے اپنے ادارے  کیڈٹ کالجز اور اسکولز ہیں ، مشنری تعلیمی ادارے بھی ہمارے ہاں موجود ہیں۔ مختلف فلاحی تنظیمات  بھی اپنے اپنے تعلیمی ادارے چلا رہی ہیں۔ اس میں تجارتی  اور غیرتجارتی کی بھی ایک تقسیم ہوتی ہے۔

           سب سے بڑھ کر نظریاتی معاملہ ہے۔ اس وقت   دینی اورعصری  تعلیم کے حوالہ سے مختلف اداروں کی موجودگی اس تقسیم کی واضح ترین علامت ہے۔ خود اس تقسیم کے اندر جنہیں  دینی  تعلیم کے ادارے  قرار دیاجائے ان کے اندر مسلکی تقسیم اور تقسیم درتقسیم ہے۔  دوسری جانب عصری تعلیمی ادارے بھی یکساں نہیں۔ نجی شعبہ میں اب بعض تنظیموں اور اداروں نے دونوں طرح کے نظاموں کے  امتزاج پر مبنی نئے نئے تجربات کیے ہیں۔ یہ تمام امور  یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔

           ایک اور تقسیم نظام امتحانات کی بنیاد پر ہے۔ یہ نہایت اہم عنوان ہے۔ جیسے کہ میں نے پہلے اشارہ کیا، اگر بقیہ تمام معاملات جوں کے توں بھی رہیں لیکن امتحان اور جانچ  اور اس کی بنیاد پر ترتیب دی گئی میڑٹ لسٹ  کے نتیجے میں لوگوں کو ملازمتیں،  اختیار، منصب اور عہدے دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو پھر حکومت کو یکسانیت کے حصول کے لیے کچھ بھی اور نہیں کرنا پڑے گا۔  درحقیقت  تمام چیزیں ایک سطح تک ازخود یکساں ہوتی چلی جائیں گی۔  اس وقت  جانچ کے نظام (Assessment system)    میں ملکی اور غیرملکی بورڈز کا معاملہ بھی شامل ہے۔ دوسری جانب  خود ملکی بورڈز میں بھی اب پرائیویٹ بورڈز شروع ہو چکے ہیں۔ یہ  تعلیم کو یکسانیت کی طرف لے جانے والا عمل نہیں ہے بلکہ تعلیم میں موجود تقسیم کواور بھی گہرا کرنے  والا عمل ہے۔

           بعض چیزوں کا تعلق فیصلوں سے نہیں  بلکہ رویوں سے ہے۔ فیصلے رویوں کو پختہ یا کمزور اور یوں تبدیل کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مثال مثلاً صنفی پہلو کی ہے۔ جینڈر کے حوالے سے تعلیم میں کس حدتک اور کن امور میں یکسانیت  ضروری ہے  ، اس ضمن میں عددی برابری (equality) ہدف ہو یا عدل کی بنیاد پر برابری (equity) کوہدف بنایا جائے۔ یہ بہت اہم اور حساس موضوع ہے جس کا تعین کرنا ناگزیر ہے۔  اسی طرح اقلیتوں کا معاملہ ہے۔ بعض امور میں ان کے لیے عدم یکسانیت کو ان کا حق اور بطور ضرورت تسلیم کرنا ہوگا۔

میں ایک بار پھر یہ دہرا نا چاہوں گا کہ یکساں نظام تعلیم کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اہم ترین بلکہ لازمی ہدف یہ ہونا چاہیے کہ  ان سارے دائروں پر علیحدہ علیحدہ کام کرنے کے بجائے  ان کو بیک وقت سامنے رکھ کر کام کیا جائے۔    اس کے نتیجہ میں اولین قدم کے طورپر  جس چیز کو یکساں بنانا ضروری ہوگا وہ   مقاصد تعلیم اور اہداف میں ہم آہنگی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ آخر ہم اپنے  تعلیمی نظام سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

_______________________________________________

 ان دنوں ایک اصطلاح اور اس سے جڑا ایک نعرہ بہت عام ہو گیا  ہے ۔ یہ کہ ہمیں ‘نالج اکنامی’ کی طرف جانا ہے۔ یہ سن کر بظا ہر آپ کو کوئی ناگواری  نہیں ہوتی، ظاہر ہے ساری دنیا معیشت کو سب سے زیادہ اہم قرار دے رہی ہے۔ چنانچہ  وہ علم اور تعلیم جو دراصل اقتصادی نقطہ نظر سے دنیا میں آپ کو آگے بڑھائے اور مضبوط بنائے اس میں   پریشانی کی کیا بات ہوسکتی  ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس پر سطحی انداز میں آگے بڑھنے کی بجائے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

شروع میں عرض کیا تھا کہ تعلیم کا مقصد تو انسان کو انسان بنانا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے معاشی میدان میں مہارتوں کا حصول توبہت ضروری ہے  لیکن یہ تو بہت سی مہارتوں میں سےا یک مہارت ہے  جس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔  لیکن ہمارا اصل ہدف  ‘علم کی بنیاد پر مبنی معاشرہ‘ (Knowledge based society)ہونا چاہیے۔ ایسا معاشرہ جہاں علم پرمبنی سوچ اور فکر انسانی زندگی کی تشکیل کی بنیاد بنیں۔  علم کی بنیاد پر شخصیت کی تشکیل   ہدف ہو، ایک ایسا ماحول تشکیل دینا جو علم کا فروغ کررہا ہو۔    درحقیقت آج جو چیز ہم  کھوتے چلے جارہے ہیں وہ معاشرہ میں علم اور تعلیم کی یہ حیثیت ہے۔   آج تعلیم کا مقصد محض ڈگری کا حصول بن گیا ہے۔  اور اس میں پاکستان تنہا نہیں ہے بدقسمتی سے آج کی دنیا میں بہت ساری جگہوں پر یہی محسوس کیا جارہا ہے۔   تعلیم کا مقصد ڈگری، ڈگری کا مقصد روزگار کا حصول، اور روزگار  کامقصد   پیسہ کمانا، اور پھر اور پیسہ کمانا۔بلاشبہ یہ تعلیم کا ایک بہت ہی حقیر  سا مقصد ہے ۔ ذرا غور کیجیے اگر تعلیم کا یہی مقصد سامنے رکھا جائے تو اس مقصد کے حصول کے تو بہت سے آسان طریقے موجود ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرہ میں  ایسے بہت سے  لوگ موجود ہیں جو انگوٹھا چھا پ یا بہت کم تعلیم یافتہ ہیں لیکن  ارب پتی  ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم  کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو یہ بات او ربھی اچھی طرح واضح ہو جائے گی۔ آپ فرماتے ہیں "جو علم مقاصد حیات کو نظرانداز کرکے لوازم حیات سے بحث کرے وہ علم بے اصل ہے”۔   ["محاضرات تعلیم” ،تیسرا ایڈیشن،مئی ۲۰۱۶، زوار اکیڈیمی، ص۲۰۷]

_______________________________________________

 اس مرحلہ پر اگر ہم تعلیم کے مقاصد اور اہداف  کا تعین کرناچاہیں تو میں تین تصورات یا اصطلاحات آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔  میرے خیال میں تمام تعلیمی سرگرمیوں کا مقصد ان تصورات کی تشکیل اور انفرادی واجتماعی دائروں میں ان کا اطلاق ہونا چاہیے۔ 

           ان میں سے پہلا تصور خود شناسی ہے۔ خودشناسی سے مراد اپنا نام، خاندان اور پس منظر وغیرہ جاننا یا اپنی صلاحیتوں اور استعداد کے بارے میں جاننا نہیں ہے۔ یہ تو بہت ہی سادہ سی چیزیں ہیں اور یہ اپنی جگہ ضروری ہیں۔ خودشناسی کو سمجھنے کے لیے اس گفتگو کے آغاز میں اشارہ کیے گئے بنیادی سوالات دہرا لیجیے: مثلاً یہ کہ اس دنیا میں میرا مقام کیا ہے، میں کیوں آیاہوں، میں نے کیا کرنا ہے، کس چیز کا مجھ سے جواب طلب کیا جائے گا، میرا خالق  کون ہے، میرا مالک  کون ہے۔  خود شناسی ان تمام اور ان جیسے دوسرے بہت سے سوالوں کا جواب ہے۔

           خودشناسی کے ساتھ جڑا ہوا دوسرا تصور ہے خداشناسی۔ خودشناسی ہوگی تو خود ہی معلوم ہو  جائے گا کہ خداشناسی کیا ہے؟ یہ کہ ایک اللہ ہے جس نے اس دنیا کو بنایا ہے ۔ وہی اس کا مالک ہے، انتظام بھی وہی کر رہا ہے۔ انسان اس کا خلیفہ ہے جس نے دنیا کا انتظام کرنا ہے۔ اس کے لیے دنیا میں اس نے اسباب اور نتائج کا ایک تعلق قائم کر دیا ہے۔ لیکن معمول کے اس انتظام سے ہٹ کر کچھ ہونا ہو تو اسی ہستی کے پاس ویٹو پاور بھی ہے۔

           مذکورہ دونوں تصورات تیسرے تصور کو واضح کرتے ہیں اور وہ ہے  خلق شناسی۔  اسے آپ تصور جہاں اورورلڈ ویو سے بھی موسوم کرسکتے ہیں۔ انسانوں اور انسانی دنیا کوجاننا انسان کے علاوہ دنیا میں حیوانات، نباتات وجمادات کی ان گنت اقسام تخلیق کی گئی ہیں۔ ان تخلیقات کے درمیان باہم تعلق، ان کا انسانوں سے تعلق کیاہے، کیا ہونا چاہیے، ان تمام سوالات کے جوابات ایک  تصور جہاں تشکیل دیتے ہیں کہ دنیا کو کیسے دیکھا جائے ۔ تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ان حوالوں سے تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔  

 درحقیقت   اگر  یہ تینوں تصورات  یعنی خودشناسی، خداشناسی او رخلق شناسی صحیح بنیادوں پر ہوں گے تو اس کا لازمی نتیجہ ‘توحیداور خلافت’ پر مبنی اسلامی تصورزندگی سے  جڑ جائے گا۔   مقاصد تعلیم میں یہی اولین ہدف ہونا چاہیے کہ ہمارا تعلیمی نظام ایک طالب علم کو تعلیم کے کسی ایک جزو کے طورپر نہیں   بلکہ پورے تعلیمی عمل کے دوران مسلسل توحید اور خلافت سے جوڑتا  رہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی تصور زندگی مسلم معاشرے میں کنفیوژن کے علاوہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتا اور مقصد زندگی میں کنفیوژن کی صورت میں قوم ہمیشہ تقسیم رہے گی۔

 یکساں نصاب  اور یکساں نظام تعلیم کے دائرے میں کی جانے والی کسی بھی کوشش میں اس پہلوکو ایسے مرکزی خیال کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے جو بقیہ تمام تصورات پرحاوی ہو۔      تعلیم کی دنیا سے توحید اور خلافت کا تصور انسانوں میں منتقل ہوگا تو اس کے ساتھ ہی اس سے جڑی اقدار بھی انسانوں میں منتقل ہوگی۔  مستثنیات تو انسانی زندگی کی حقیقت ہیں لیکن اس صورت میں عمومی طورپر پورا ملک ایک سمت میں جارہا ہو گا۔

   میرا احساس یہ ہے کہ جب ہم توحید کے تصور کی بات کرتے ہیں تو مجھ   سمیت بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہوں نے توحید کا لفظ تو بالکل بچپن سے سنا ہے۔ پہلا کلمہ طیب  لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ۔  یہ ہم سب بچپن سے پڑھتے ہیں اور زندگی بھر دہراتے ہیں تو اس کے مفہوم میں توحید نمایاں ہے  لیکن  عمومی طورپر ان الفاظ کو  دہراتے ہوئے  ان میں موجود  وسعت  و  گہرائی اور  ان میں پوشیدہ   پیغام کم ہی  لوگوں  پر واضح ہوتا ہے۔

_______________________________________________

 تعلیم اور  یکساں نظام تعلیم کے زیربحث  تناظر  میں توحید کے اس تصور کے حوالہ سے تین بنیادی حقیقتیں  دہرانے کی ضرورت ہے۔ غور کیا جائے تو  درج ذیل اہم نکات   توحید اور خلافت کے  تصور میں شامل ہیں۔   

یہ تصور کہ اس کائنات اور اس میں موجودزمین اور زمین میں موجود ہرشے کو بنانے والا ایک ہے۔ وہی تنہا اس کا انتظام چلارہا ہے۔  انسان کو بھی اسی نے تخلیق کیا ہے۔ اور اسے زمین میں اپناخلیفہ اور نائب بنایا ہے۔  توحید کے تصور میں یہ بات شامل ہے کہ جو کچھ زمین کے اوپر یا اس کے اندر موجود ہے، وہ انسان کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔  ”اس طرح اسلام انسان کو اللہ اور اس کی مخلوق سے یوں جوڑتا ہے کہ جو کچھ بھی یہاں موجود ہے وہ انسانوں کے درمیان باہم تعاون کا باعث بن جائے”۔   

خلیفہ کی اس حیثیت میں انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین پر اللہ کی نیابت کرتے ہوئے ان صفات کو اپنے پیش نظر رکھے اور ان ہی کے مطابق اپنے طرزعمل کو متعین کرے جو اس کے مالک کی صفات ہیں۔

             بلاشبہ یہ development کی انتہا ہے  کہ جس ہستی کے  خلیفہ کے طور پرآپ  کام کر رہے ہیں یعنی  اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کے  ۹۹ صفاتی ناموں پر غور کریں۔ ان میں سے ہر نام  کردار کی کسی ایک خصوصیت کا اظہار کرتا ہے۔  تعلیم وتربیت کے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے انسان کو کردار کی ان خصوصیات میں  آگے بڑھنا چاہیے۔ مثلاً اگر اللہ کی ایک صفت  عادل ہے تو خلیفہ کی زندگی  اور کردار میں بھی عدل موجود ہونا چاہیے۔ اگر وہ رحمن اور رحیم ہے تو رحمن اور رحیم کی جو صفات ہیں وہ انسان کو اپنے اندر اعلیٰ ترین سطح پر پیدا کرنے کی کوششیں کرنی چاہییں۔ غرض    اللہ تعالیٰ کی یہ۹۹ صفات شخصیت کی تعمیروترقی [  development] کے عنوانات ہیں۔ ڈیویلپمنٹ کے اس تصور میں بلندی کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ مغربی دنیا  سے درآمد شدہ development   کے تصورات  ترقی کا ایک بہت ہی محدود تصور دیتے ہیں۔  مسلم معاشرے میں ترقی پر زور دینے کے لیے توحید سے بڑھ کر کوئی تصور نہیں ہوسکتا۔ 

               اس ضمن میں تصوراتی سطح پر انسانی زندگی کے تین دائروں میں ڈویلپمنٹ پر بیک وقت توجہ دینی ہوگی۔

            lشخصی نشو و نما:    شخصی نشو و نما سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جو ذہنی وجسمانی صلاحیتیں دی ہیں انہیں بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔بہتر سے بہتر نشو و نما (development) کے اس تصور میں ذہنی و فکری، جسمانی اور روحانی نشو و نما بیک وقت شامل ہیں   اور ان میں توازن کا خیال رکھنا بھی شامل ہے۔نیز اس کے نتیجہ میں اپنے لیے درست لائحہ عمل کا انتخاب اور اپنے آپ کو اس لائحہ عمل کے تحت کردار کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور تیار رہنا ہے۔ چنانچہ شخصی نشوونما کا یہ لازمی حصہ ہے کہ روحانی نشوونما کے ساتھ ساتھ ذہنی نشوونما کے لیے علم اور مہارتوں کا حصول ہو اور جسمانی نشوونما کو یقینی بنانے کے لیے غذا اور صحت و صفائی کے لیے بھی تمام ضروری تدابیر اختیار کی جائیں۔

            l سماجی و معاشرتی ترقی:  فطرت کے عناصر سے غذا، رہائش و آسائش، سہولیات و جمالیات، عقل و دانش، مسرت و شادمانی اور انسان کی بہتری اور بھلائی کے لیے طرح طرح کے سامان پیدا کرنا، نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے، انسان کو سپرد کی گئی مقدس امانت   کا لازمی تقاضا ہے۔ چنانچہ ذاتی اور شخصی نشوونما کے ساتھ ساتھ خلیفہ کے طور پر اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے اردگرد نگاہ رکھے۔ زمین پر تشدد اور فساد کاخاتمہ کرے، برائیوں کی روک تھام اور اچھائیوں کو پھیلانے کا اہتمام کرے۔کیونکہ خلافت اگرچہ ہرفرد کے لیے انفرادی ذمہ داری ہے لیکن اس کی ادائیگی کے لیے ناگزیر ہے کہ اردگرد کاماحول اس میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ معاونت کا کردار ادا کرے۔  قرآن مجیدمیں اس تناظر میں خلافت کے لیے ’جمع‘ کاصیغہ بھی استعمال کیاگیا ہے۔  چنانچہ ایسے تمام اقدامات اور سرگرمیاں جو معاشرہ میں انسانوں کی روحانی، ذہنی اور جسمانی نشوونما میں مددگارہوں۔ خلیفہ کی حیثیت سے انسان کی ذمہ داری کاحصہ ہیں۔ ان اقدامات اور سرگرمیوں میں رسمی عبادات کی انجام دہی کاانتظام ہی نہیں علمی وتعلیمی اور فلاحی سرگرمیاں، سماجی دائرے میں انسانی ضروریات کااہتمام، باہم تعاون اور امداد کے لیے ماحول کی تشکیل، عدل پر مبنی نظام کاقیام اور ان سب کاموں کے لیے اداروں کی تشکیل اور ان کا انتظام وانصرام شامل ہے اور دوسری جانب ان تمام قوتوں کامقابلہ کرنے کے لیے سازگار ماحول کی تشکیل کی کوششیں بھی اس اجتماعی ترقی کا حصہ ہیں جو ان مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بن رہی ہوں۔قرآن مجید میں بار بار معروف کوپھیلانے اور منکر سے روکنے کی ہدایت کو بھی اس وسیع تر تناظرمیں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔

            l ارضی ترقی:   شخصی نشوونما اور سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ناگزیر ہے کہ اس زمین کو بھی جہاں انسان نے خلافت کی یہ ذمہ داری اداکرنی ہے ترقی دینے کا اہتمام کیاجائے۔   چنانچہ زمین کی تہوں، آسمان کی وسعتوں اور سمندر کی گہرائیوں میں جس قدر  مواقع اور خزانے موجود ہیں ان کی نشان دہی، ان کی حفاظت، ان کو انسان کے فائدے کے لیے قابل استعمال بنانا اور ترقی دینا بھی خلافت کی ذمہ داری کا اہم جزو ہے۔ درحقیقت خلافت کا ایک بہت بڑاحصہ یہی ہے۔ یعنی زمین اور انسان کا تعلق ”انسان اور فطرت ایک دوسرے کے خلاف برسرِجنگ نہیں ہیں بلکہ وہ خالق کے مشن کی تکمیل کے لیے ایک مشترکہ جدوجہد میں حصہ دار کی حیثیت سے شریک ہیں۔ اس مربوط حکمت عملی میں زمین کے ماحولیاتی پہلو کو نظر انداز کر دینے کی ہر گز گنجائش نہیں ہے“۔   بنی نوع انسان کی اپنی زندگی اور اس کی بقاء کا انحصار زمین اور اس کی زرخیزی اور اس میں چھپے ہوئے خزانوں پرہے۔ چنانچہ زمین اور اہل زمین کی ترقی، بہتری اور بھلائی کے تمام کام اس میں شامل ہیں خواہ یہ ماحولیات کے مسائل ہوں یا ٹیکنالوجی کی ترقی اور یا زمین کی تباہی کے عوامل کی روک تھام اور ان کاموں کے لیے سازگار ماحول اور نظام کے اداروں کے قیام کی کوششیں۔ عقیدہ توحید کے تحت خلافت کے کردار کی ادائیگی میں یہ سب سرگرمیاں شامل ہیں۔

            ذاتی، سماجی اور ارضی ترقی پربیک وقت توجہ توحید پر مبنی  طرزعمل میں یہ توازن بھی فراہم کردیتا ہے کہ ایک کی قیمت پر دوسرے کاحصول عام طور پرمطلوب نہیں ہے۔  اس توازن میں بہرحال یہ بات اہم ہے کہ اگرچہ اسلام میں فرد کی آزادی اور خودمختاری کی اہمیت کو پوری طرح تسلیم کیاگیا ہے لیکن اسے کسی بھی طرح اجتماعی مفاد (general well being) پر ترجیح حاصل نہیں ہے۔

              مذکورہ تصورات  کو  آپریشنل سطح پر سمجھنے کے لیے ۵ ایسی خصوصیات متعین کی جاسکتی ہیں جنہیں   تعلیمی عمل کے نتیجہ میں  تیارکردہ  ‘پراڈکٹ’ کی مطلوبہ خصوصیات کے  طورپر بیان کیا جائے۔  تعلیمی نظام کی ہر سطح اور اس کے ہر جزو میں پیش نظر یہ ہونا چاہیے کہ تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ [پراڈکٹ] درج ذیل پانچ پیمانوں پر اعلیٰ ترین کردار کے حامل  ہوں۔ انگریزی میں یہ صفات پانچ پی ” کی بنیاد پر بیان کی جاسکتی ہیں۔

– Practicing Religion   – Patriotism      – Positivism      – Professionalism     -Paying attention to Law

 

جبکہ اردو میں انہیں : – مسلمان، با عمل      محب وطن      مثبت سوچ رکھنے والا    مہارت، پیشہ ورانہ  مہذ ب، قانون کا پابند   کے الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

            _______________________________________________

            زندگی کے لیے جتنا علم اور زندگی کی جتنی بھی مہارتیں فراہم کی جائیں۔  مذکورہ  تمام حوالوں سے  ممکنہ حدتک اعلیٰ ترین معیار [ایکسی لینس] ان کا  ہدف    ہونا چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر طالبعلم  زندگی کے ہر میدان میں اعلی ترین معیار حاصل نہیں کر سکتا لیکن  اپنے حالات اور ماحول کے اعتبار سے ممکنہ حدتک اعلی ترین معیار تک اسے پہنچانے کی کوشش قومی تعلیمی پالیسی سے لے کر کلاس روم تک تمام اسٹیک ہولڈرز کاہدف اور اسی کو جانچ کا پیمانہ ہونا چاہیے۔   

ڈگری، ڈگری کے بعد ملازمت، ملازمت کے بعد پیسہ، پیسہ کے بعداور پیسہ حاصل کرنے کی بھوک لے کر نکلنے والا پراڈکٹ ہماری تعلیمی تگ ودو کا مقصود نہیں ہوسکتا نہ ہوناچاہیے ۔ تعلیم کی دنیا میں بہتری کے لیے مذکورہ بالا پانچ خصوصیات کے حامل انسان کی تیاری ایک پیکج کی صورت میں ہدف کے طور پرسامنے رہنی چاہیے۔

اس ساری صورت حال میں وزارت تعلیم نے ایک بہت بڑے کام کا آغاز کیا ہے۔ کسی بھی بڑے ہدف کے حصول کی کوشش میں مثالیت پسندی (Desirability) اور  عملیت پسندی (doability) کے درمیان فاصلہ ہوسکتا ہے ۔ شفافیت اور inclusiveness کی صورت میں یہ فاصلہ پریشانی کا باعث نہیں بلکہ تعاون کے مواقع بڑھاتا ہے۔ عدم شفافیت یا نظرانداز کیے جانے والی فضا میں یہ بدگمانیوں اور بداعتمادیوں کے دروازے کھولتا ہے جو بھی ایکسرسائز کی جارہی ہے اس میں ان پہلووں کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔ Desirability میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے۔ مجھے یقین ہے  کچھ اور لوگ اسے اور بھی زیادہ بہتر انداز میں بیان کر سکتے ہوں گے۔ لیکن میں نے اشارہ ضرور کر دیا ہے آج کے ہونے والے اقدامات کو اسی تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

*****

 

 


 [1]زیرنظرمضمون انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایگزیکٹو پریذیڈنٹ خالدرحمن کے کلیدی خطبہ پرمبنی ہے۔یہ  کلیدی خطبہ 11مارچ 2020 کو اقبال انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیراہتمام سیمینار میں پیش کیا گیا۔ اہل علم، اساتذہ اور طلبہ وطالبات کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ وزیرتعلیم جناب شفقت محمود اوروزارت تعلیم کے اعلٰی عہدیدار بھی اس سیمینار میں موجود تھے۔

[2]-One education system for all; – Medium of Instruction –Curriculum – Assessment
-Re-engineering governance-based on complete decentralization
-Dramatically increase funding – from 2.1% to 5% of GDP
-Adult education
-Teacher training
-Information and communication technology.

[3] Prime Minister Imran Khan had been pointing out that current multi-layered curriculum was the main reason for the division and gulf among different strata of the society

a parallel education system in the country had dampened passion and abilities of the nation by graduating the students with different thinking patterns and capabilities.

[4] Under the current education system, the education standard for rich and poor was markedly different and distinct, …English medium schools gave an edge to their students to grab key posts.

 

 

 خطاب کی ویڈیوآئ پی ایس ٹی وی پر دیکھیے:

 https://www.youtube.com/watch?v=OCPIkJgoRB4     

 

یکساں نصاب تعلیم اور ہمارا نظام تعلیم[1]

  

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

جناب پروفیسرمعصوم یسین زئی صاحب، جناب پروفیسر ڈاکٹراحمدیوسف الدرویش صاحب،برادرم رفیق طاہرصاحب اور اس ہال میں کئی قابل ذکرشخصیات موجود ہیں لیکن میں کم ازکم جناب ڈاکٹرخالدمسعودصاحب، جناب مولانا زاہدالراشدی صاحب اور ڈاکٹر ضیاء الحق صاحب کا خاص طورپر ذکر کرنا چاہوں گا ۔

میں شکرگزار ہوں کہ آپ نے قومی اہمیت کے حامل اس خاص موضوع پر مجھے اپنے خیالات کے اظہار  کا موقع فراہم کیا ہے۔

 ویسے مجھے شروع میں ہی یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ میں کسی طرح بھی ماہر تعلیم کہلانے کا مستحق نہیں ہوں۔ اس کے باوجود میں نے آپ کی دعوت قبول کرلی تو اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔   ایک وجہ جو میں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی  ایک تحریر سے اخذ کی ہے آپ کے سامنے پیش کردیتا ہوں۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان نے ایک بار اپنے کالم میں لکھا ہے کہ وہ ماہر امراض چشم کی ایک کانفرنس کی  صدارت کررہے تھے ۔ یہ  ایک بین الاقوامی کانفرنس تھی چنانچہ اس میں مغربی دنیا سے بھی کئی ماہرین آئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اسٹیج پر میرے برابر میں بیٹھے ایک غیرملکی نے، جو کسی یورپی ملک سے تعلق رکھتا تھا مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کا پی ایچ ڈی کس مضمون میں ہے؟ ڈاکٹر صاحب  نے جواب میں اسے بتایا کہ "میں نے میٹلرجی میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے”۔  ڈاکٹر صاحب کے بقول اس یورپی ماہر نے زیرلب  بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ عجیب بات ہے، ماہرین امراض چشم کی کانفرنس ہے اور  اس کی صدارت کے لیے میٹلرجی کے ایک پی ایچ ڈی کو بلایا گیا ہے۔   

                               ڈاکٹر قدیر خان آگے چل کر  لکھتے ہیں  کہ میں نے اس کی یہ بات سن لی اور براہ راست اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ  "ٹھیک ہے میں ماہر امراض چشم نہیں ہوں لیکن  دوآنکھیں تو میری بھی ہیں”۔   اسی تناظر میں، میں عرض کرتاہوں کہ  ماہر تعلیم تو میں نہیں ہوں لیکن تعلیم ایک ایسا موضوع ہے جس پرہماری آئندہ نسلوں کے مستقبل کا انحصار ہے ، قوموں کی برادری میں ہماری شناخت اور ہمارے مقام کا اس سے براہ راست تعلق ہے ۔یوں یہ ہم میں سے ہر ایک سے متعلق ہے۔ اپنی اجتماعی بقاء اور قومی ترقی سے جسے ذرا بھی دلچسپی ہو وہ    اس سے کیسے لاتعلقی اختیار کر سکتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

مجھے مدعو کرنے کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرا تعلق  انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے ہے ۔۱۹۷۹ میں اپنے قیام سے لے کر اب تک کے چالیس سال میں اس ادارہ نے  اپنی علمی وتحقیقی سرگرمیوں میں تعلیم، تعلیمی نظام اور تعلیمی پالیسی  پر متعدد اور کئی طرح کے کام کیے ہیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ  آج جس موضوع پر ہم بات کررہے ہیں وہ ہمارے ان سارے کاموں کا ایک مرکزی عنوان رہا ہے۔ بذات خود ‘یکساں نظام تعلیم’ کے عنوان  سے نہ صرف یہ کہ ہم نے ایک قومی سیمینار منعقد کیا بلکہ اس پر کتاب بھی شائع کی۔   اسی طرح پرائیویٹ پبلک سیکٹر کی بحث  میں ہم نے "تعلیم اور نجی شعبہ” کے عنوان سے ایک دو روزہ قومی سیمینار   منعقد کیا اور اس پربھی کتاب شائع کی۔ ‘ ذریعہ تعلیم کے مسئلہ’  اور ‘نظام امتحانات’ پر بھی دو روزہ سیمینارز علیحدہ علیحدہ منعقد کیے اور ان موضوعات پربھی جامع مطبوعات  پیش کی ہیں۔ ایک اہم دو روزہ سیمینار ہم نے ‘تعلیم میں بیرونی معاونت’ کے عنوان سے منعقد کیا تھا جس کے قیمتی مقالات ۱۹۹۶میں اسی عنوان سے کتاب کی صورت میں شائع ہوئے۔ دینی نظام تعلیم پر ایسی ہی کاوشوں پر مبنی نصف درجن سے زائد تخلیقات ان کے علاوہ موجود ہیں۔  یہ سارا کام آج کا نہیں ہے بلکہ یہ ۱۹۸۰ کی دہائی سے شروع ہوکر مسلسل ہوتا رہا ہے۔  

ظاہر ہے کہ ایک معنی میں ہمیں اس پر خوشی ہوتی ہے کہ ایک ایسے موضوع کو جسے ہم کئی سال بلکہ کئی دہائیوں سے اٹھا رہے تھے، اس پر اگرچہ  درمیان میں بھی مختلف حکومتوں کی طرف سے اپنے اپنے انداز میں کچھ کیا گیا ہے  لیکن اب اس پر ایک زیادہ بڑی  کوشش ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ لیکن دوسری جانب یہ سوچ کر دکھ  ہونا چاہیے کہ جن چیزوں کو ۱۹۸۰ کی دہائی میں کھل کر بیان کر دیا گیا تھا ان پر اقدامات آج تک نہیں ہوسکے ہیں۔وہ مسائل جو اس زمانے میں زیادہ آسانی سے حل ہوسکتے تھے  آج وہ زیادہ پیچیدہ ہو چکے  ہیں۔ اس اعتبار سے زیربحث موضوع پر شائد اولین پیغام یہ ہونا چاہیے کہ جتنا ہم تاخیر کریں گے مسائل کی پیچیدگی بڑھتی چلے جائے گی۔ ہمیں مزیدوقت ضائع کیے بغیر زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

_______________________________________________

 

نصاب تعلیم یکساں کیوں ہو؟ اس بارے میں کوئی بھی بات کرنے سے قبل  ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ آخر تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے؟

اگر قومی سطح پر  تعلیم کی ضرورت کا  انکارکردیاجائے  تو اس کے بعد یکساں اور عدم یکساں کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔ ظاہر ہے اس صورت میں  ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی اور کسی بھی سطح کی تعلیم کا انتظام کرلے۔ لیکن دراصل قومی سطح پر تعلیم کے بارے میں بات ہوگی تو غوروفکر کے بعد اس کا تعین  ضروری ہو گا کہ آخر تعلیم کی ضرورت ہی کیا ہے؟

  ہمارے پاس جتنا وقت ہے میں اس میں صرف اشارے ہی کرسکوں گا لیکن میرے خیال میں تعلیم کا تعلق بعض بہت اہم اور ان بنیادی سوالات سے ہے جو ہرانسان کے ذہن میں زندگی کے مختلف مراحل پر سامنے آتے رہتے ہیں۔  دنیا میں جو انسان بھی آتا ہے،اور  یادرکھنا چاہیے کہ    ہرانسان کواللہ تعالی نے   سوچنے سمجھنے والا دماغ دیا ہے، اس کے ذہن میں اپنی ذات اور    وجود کے بارے میں، کائنات میں اپنی  حیثیت  اور  اس دنیا میں اپنے مقام کے بارے میں، یااسی طرح اس دنیا سے رخصت ہوکر اپنے انجام کے بارے میں سوالات آتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ جو کچھ اس کی نظروں کے سامنے ہے اس کی حقیقت کیا ہے۔ صرف ایک مثال لی جائے توسورج روز اپنے مقررہ وقت پر طلوع ہوتا ہے اور روشنی اور حرارت کی جملہ انسانی اور نباتاتی ضروریات کا انتظام کرتے ہوئے ایک خاص وقت پر غروب ہوجاتا ہے۔۔۔۔یہ سلسلہ نمعلوم کب سے جاری ہے۔ نہ اس میں کوئی تعطل آتا ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی آتی ہے،  اس پورے نظام کی پشت پر کون ہے اور کیسے چل رہا ہے۔۔۔آگے چل کر  کیا ہوگا، کیوں ہوگا، کیسے ہوگا، اور آخر اس سارے کا اختتام کیا ہوگا؟ غرض،  بے شمار سوالات اس کے ذہن میں جنم لیتے ہیں۔  اور ظاہر ہے جب یہ سوالات ذہن میں آتے ہیں تو فطری طورپر وہ ان کے جواب کے لیے جستجو کرتا ہے۔ اس جستجو میں تعلیم کا  اہم ترین کردار ہے۔

 اس حوالے سے اس بات کو دہرا لینے کی ضرورت ہے کہ ان سوالات کے جواب میں یوں تو دنیا میں بہت سارے جوابات موجود ہیں،  لیکن اگر وسیع تر دائروں میں تقسیم کیا جائے یا  ایک لکیر کھینچ کر دو حصوں میں بانٹا جائے تو طرزفکر کے دو مختلف انداز سامنے آتے ہیں۔ ایک طرزفکر [پیراڈائم] یہ ہے کہ دنیا کا ایک خالق ہے، اسے کسی ہستی نے تخلیق کیا ہے اور اسی  نے دنیا میں  بے شمار نعمتیں انسان کے لیے پیدا کی ہیں۔   پھر اس نے انسان کو تخلیق کرنے کے بعد چھوڑ نہیں دیا بلکہ زندگی گزارنے کے لیے ایک راہنمائی  بھی دی ہے۔ بے شک اسے آزاد چھوڑا ہے کہ وہ اس رہنمائی  پر عمل کرے یا نہ کرے۔ اس آزادی کو اس نے امتحان قرار دیا ہے۔ اور امتحان میں کامیابی کی صورت میں انعام کا مستحق ٹھہرایا ہے۔

زندگی کی دوسری پیراڈائم یہ ہے کہ دنیا خود بخود بن گئی ہے۔ اس دنیا میں جتنا وقت کسی انسان نے گزارنا ہے اس کے لیے انسانوں نے خود ہی کوئی ضابطہ بنانا ہے۔ یہ ضابطہ  بنا لیا ہو تو بھی ٹھیک ہے ورنہ  وہ جیسے بھی زندگی گزارنا چاہے اسے اس کا حق حاصل ہے۔ زندگی کے بارے میں یہ دو مختلف طرزہائے فکر [پیراڈائمز]  دو مختلف انسان بناتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں تعلیم کانظام کیاہو، اس کا ان بنیادی سوالات سے بڑا گہرا تعلق ہے۔

 پاکستان میں تعلیم کس پیراڈائم پر مبنی ہو اس کا فیصلہ کرنے کے لیے پاکستان کی آبادی پر اس پہلوسے نگاہ ڈالنا ہوگی کہ زندگی کے بارے میں اس کے بنیادی تصورات کس پیراڈائم پر مبنی ہیں۔ یہ سوال ایسا  ہے   جس کے جواب کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے ۔ حقائق  اور اعدادوشمار سب واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی کی عظیم اکثریت اس نقطہ نظر پر یقین رکھتی ہے کہ دنیا کو کسی ہستی نے بنایا ہے اور بنانے کے بعد ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا، وہی نظام چلا رہا ہے اور اس نے اس کے لیے رہنمائی دے دی ہے۔   اس رہنمائی میں انسان نے بہت کچھ غوروفکر کرنا ہے کہ اس کو زمان ومکاں   کے مطابق کیسے روبہ عمل لایا جائے۔ اس پر آراء میں تنوع ہوسکتا ہے۔ لیکن اس رہنمائی سے اس نے باہر نہیں نکلنا۔

 انسان کے پاس  جو بھی ذرائٰع علم  ہیں  جس میں اس کے حواس ،  عقل اور وجدان     اور ان کی   بنیاد پر تشکیل پاجانے والی سائنس بھی شامل ہے۔  یہ تمام ذرائع ایک حدتک انسان کو رہنمائی دے سکتے ہیں یوں  یہ سارے ذرائع محدود ہیں۔    

_______________________________________________

 ایسے میں تعلیم، تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب کا تعین کرتے ہوئے اہم ترین سوال یہ بن جاتا ہے کہ وہ کس تصور علم پر مبنی ہو۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ۹۷فیصد مسلمان ہوں یہ بات اصولاً بحث طلب نہیں ہونی چاہیے کہ یہاں  تصورعلم اس تصور زندگی کی بنیادپر تشکیل پانا چاہیے جو یہ  کہتا ہے کہ کائنات کی تخلیق ہی نہیں علم کا سر چشمہ بھی اللہ کی ذات ہے جس نے اولین انسان یعنی آدم علیہ السلام کو اشیا  کے نام بتا کر انسان تک  علم پہنچانے  کا آغاز کیا تھا-   اس تصور علم سے جڑی ہوئی بات یہ ہے کہ علم کا تعلق محض ضروریات زندگی سے نہیں ہے بلکہ مقاصد زندگی سے ہونا چاہیے ۔جب بھی  یکساں نظام تعلیم کی اور اس کے نتیجے میں قومی نصاب کی تشکیل کی بات کی جارہی ہو  تو یہ اہم نکتہ دوٹوک طورپر   سامنے رہنا چاہیے کہ ‘علم کا تعلق محض ضروریات زندگی سے نہیں بلکہ اصلاً مقاصد زندگی سے ہے’۔

اس مجموعی تناظر میں جب ہم پاکستان کے دستور کو دیکھتے ہیں تو دستور میں یوں تو کئی چیزیں ہمارے زیربحث موضوع سے متعلق ہیں لیکن اس وقت  میں محض چند اشارے آپ کے سامنے کر رہا ہوں۔ دستور کا باب  ۲ پالیسیوں کے لیے اصول [Principles of Policy]بیان کرتا ہے۔ یعنی یہ ان  اصولوں کے بارے میں ہے جو ریاست کے لیے یہ لازم کرتے ہیں کہ اس کے تمام ادارے  اور افراد یعنی   پوری حکومت ان اصولوں کے مطابق  اپنے اپنے دائرہ اثر میں  اقدامات کر رہے ہوں۔ اس باب  میں شامل دفعہ ۳۱     اسلامی طرززندگی کے حوالہ سے پابند کرتی ہےکہ اس ضمن میں  قرآن مجید اور اسلامیات کی لازمی تعلیم ،عربی کی تعلیم کے لیے سہولتیں ،  قرآن مجید کی درست اشاعت اوراتحاد نیز  اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی پروموشن کا اہتمام کیاجائے۔

 آرٹیکل ۳۷ ب کم از کم مدت میں نا خواندگی کے خاتمہ کے بارے میں ہے۔ آرٹیکل ۳۸ د ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی کمزوری، بیماری یا بےروزگاری کی بناء پرمعذوری سے، خواہ وہ مستقل طور پر معذور ہو یا عارضی  معذور ہو، قطع نظر تمام شہریوں  کو بلا لحاظ ذات جنس،نسل اورعقیدہ بنیادی ضروریات زندگی خوراک ، لباس، صحت اور تعلیم مہیا کرے گی۔  اس سے قبل بنیادی حقوق کے عنوان سے باب اول میں آرٹیکل ۲۵ الف  جواٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں شامل کیا گیا ہے ۵تا ۱۶ سال تک کی عمر  کےتمام  بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کا ذکر کرتا ہے۔اسی باب میں موجود دفعہ ۲۲  تاکید کرتی ہے کہ کسی کو اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہ کیا  جائے گا۔اس موضوع کے حوالے سے یہ بھی بڑی اہم بات ہے۔  یوں دستور پاکستان اس بارے میں بالکل واضح ہے اور ان اقدامات کی تاکید کرتے ہوئے اس میں آبادی میں [مذہبی تعلیم کے ضمن میں آرٹیکل  ۲۲میں دستیاب تحفظات کے علاوہ] کسی بنیاد پر تفریق نہیں کرنا۔

_______________________________________________

اس مجموعی تناظر میں  جب ہم موجودہ حکومت کی اعلان شدہ پالیسیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں  تو مجھے یہ جان کرخوشی ہوتی ہے کہ اس کی جانب سے اعلانات میں تسلسل سے یکساں نظام تعلیم کی بات کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں اہم ترین دستاویز  وہ پالیسی دستاویز ہے جو آپ سب لوگوں کو کسی وقت موقع نکال کر پڑھنا چاہیے ۔ یہ  پی ٹی آئی نے ۲۰۱۳ میں جاری کی  تھی۔ اسے تعلیمی پالیسی: انسانی وسائل میں سرمایہ کاری (Education Policy: Investing in Pakistan’s Human Resource) کانام دیا گیا ہے۔ اگر مجھے صحیح طورپر یاد ہے تو یہ ۲۱فروری ۲۰۱۳کو باقاعدہ پریس کانفرنس میں جاری کیاگیا تھا۔ دستاویز  میں ۶نکات کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف نے اپنے تعلیمی وژن کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اس میں پہلا نکتہ ” سب کے لیے ایک  ہی تعلیمی  نظام”    [one education system for all]پر مبنی تھا[2]۔ وقت کی قلت کے پیش نطر ا س وقت  بقیہ نکات نظرانداز  کر رہا ہوں۔ ۴۸ صفحات  پر مشتمل یہ دستاویز بہت   جامع ہے۔ یکساں تعلیمی نظام  کے حوالے سے یہ دستاویز [صفحہ نمبر22]  ذریعہ تعلیم  کے بارے میں دو اور دو چار کی طرح واضح کرتے ہوئے کہتی ہے  :

Mother tongue and/or Urdu to be the medium of instruction in all public and private schools up to Class VIII

بہت ہی دوٹوک طور پر یہ بات کہی گئی ہے۔ اس کے بعد اس کا روڈ میپ بھی، بڑی حدتک جو کسی ایسی دستاویز  میں واضح کیا جا سکتا ہے، اسی صفحہ پر دیاگیا ہے۔ اس دستاویز میں  دوسری اہم  چیز جس کی جانب میں اشارہ کر رہا ہوں صفحہ نمبر 29 پر موجود ہے۔ یہ  امتحان اورجانچ[Assessment] کے  نظام سے متعلق ہے ۔ نصاب کوئی بھی ہو اور تعلیم کا نظام کیسا  بھی ہو یعنی تھوڑی دیر کے لیے باقی تمام امور کو نظرانداز بھی کر دیا جائےاور جو چیزیں   جس طرح   چل رہی ہیں انہیں جوں کا توں رہنے دیا جائے البتہ    تمام لوگوں کے لیے امتحانی نظام یکساں کر دیا جائے، یعنی جانچ ایک ہی معیار پر ہورہی  ہو تو غیریکسانیت کے بہت سے مسائل ازخود حل ہوجائیں گے۔ اس صورت میں تمام لوگ اپنے آپ کو جانچ کے  اس نظام کے مطابق تبدیل کرنے  پر مجبور ہوں گے۔ صفحہ ۲۹پر موجود بیان کے الفاظ ہیں:

All students in public and private schools to be assessed under one standardized assessment system

یوں بہت ہی واضح  الفاظ میں یکساں نظام امتحانات کی  یہ بات واضح کی گئی ہے۔

 اس مرتبہ   ۲۰۱۸ کے انتخابات کے موقع پر بھی پی ٹی آئی نے   اپنے منشور میں تعلیم کا  ذکر کیا تو اس میں بھی بہت ہی دوٹوک طور پر باتیں کہی گئی ہیں۔ منشور میں شعبہ تعلیم کے حوالہ سے  پہلے تو عدم یکسانیت کے مرض کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ

"شعبہ تعلیم جب سے صوبائی سطح پر منتقل ہوا ہے تب سے اس اہم ترین شعبے میں برابری کے حساس معاملہ پر اتفاق رائے سے گریز کیا جا تا رہا ہے”۔ ۔۔۔ "ذریعہ تعلیم اورتدریس میں زبان کے انتخاب پر بھی آج تک قومی اتفاق رائَے نہیں ہو سکا”۔ ۔۔۔"ناقص تعلیمی منصوبہ بندی کے باعث طلب اور رسد میں نمایاں فرق آ چکا ہے”۔۔۔۔"سرکاری سکول کا نظام وسائل کی کمی کا شکار ہےاور اس نظام کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں”۔[منشور پی ٹی آئی ۲۰۱۸، ص۴۵]

مرض کی اس بڑی حدتک درست  تشخیص  کے نتیجے میں منشور کی دستاویز کافی جامع بن جاتی ہے۔ بلاشبہ اس دستاویز میں اور بھی کچھ تفصیلات مل جائیں گی اور ظاہر ہے کہ ان تفصیلات کو اور بہتر بھی بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی حکومت  نے نیشل پالیسی فریم ورک کا نومبر۲۰۱۸ ،یعنی اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی   اعلان کیا ہے۔  اس پالیسی فریم ورک میں اس  بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ "تعلیمی میدان میں ملک کو درپیش چیلنجز میں سے دوسرا بڑا چیلنج ملک کے تمام طبقات کے لیے یکساں نظام تعلیم کا موجود نہ ہونا ہے”۔

اس کے ساتھ ہی یہ تشخیص بیان کی گئی ہے کہ  "تین بڑے نظام ہائے تعلیم یعنی سرکاری شعبہ، نجی شعبہ اور مدارس کام کر رہے ہیں”۔ نیز یہ کہ "سہولیات، ترجیحات، طبقاتی تقسیم اورتعلیمی معیار کے لحاظ سے مزید گہری تقسیم موجود ہے” ۔  مزید کہا گیا ہے کہ "نظام ہائے تعلیم کی اس بڑی تفریق میں اہم ترین معاملہ متفرق تعلیمی نصاب کا ہے”۔ پھر کہاگیا ہے "جبکہ  نصاب میں بنیادی تفریق اردو اور انگریزی زبان کی بنیاد پر ہے جبکہ متفرق سماجی اقدار، معاشرتی تقسیم اور ترجیحات کے لحاظ سے درجنوں قسم کے”، میں ان الفاظ پر زور دے رہاہوں کہ اس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ "درجنوں قسم کے نصاب مختلف سکولوں اور مدارس میں رائج ہیں”۔

۲۰۱۳ کی پالیسی دستاویز، ۲۰۱۸ کے منشور اور حکومتی نیشنل پالیسی فریم ورک کے ان اقتباسات کی روشنی میں تسلیم کیاجانا چاہیے کہ موجودہ حکومت کے اعلانات میں تسلسل نظر آتا ہے ۔ اعلانات کا یہ تسلسل نومبر ۲۰۱۸ سے اب تک [مارچ۲۰۲۰]  بھی نظر آتا ہے۔ مثلاً وزیرتعلیم کا یہ بیان قابل ذکر ہے جو انہوں نے سینیٹ کی کمیٹی برائے ایجوکیشن میں ۲۹جنوری  ۲۰۲۰ کو یعنی کم وبیش ۶ہفتے قبل    ہی دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ

Multiple curricula currently in use in educational institutions across Pakistan is hampering governments’ efforts to ensure national unity and unison,

آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی میں نے جو دستور کے چند نکات پیش کیے ہیں اس میں تمام حکومتی اداروں کے لیےunity کو promote   کرنا ان  principles of policy  میں شامل ہے۔   

  وزیر تعلیم نے اسی موقع پر مزید کہا

For uniform education system, an international standard uniform curriculum was being prepared in consultation with all stakeholders including public, private and Madaaris schools which would be implemented till March 2021,

…that education ministry had signed a four-year agreement with the Wafaq-ul-Madaaris under which the Madaaris would send their children in public-private schools for formal education till intermediate level.

 

وزارت تعلیم کے تحت چار روزہ قومی کانفرنس ابھی  ایک ماہ قبل [۱۱ تا ۱۴]  فروری میں اسلام آباد میں منعقد ہوئی ہے۔ اس کانفرنس میں بھی وزیر تعلیم نے خطاب کیا: "تعلیمی نظام میں طبقاتی تقسیم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ”اس وقت سوچ اور نظریات اور اہلیت میں اتنا فرق ہے کہ دو طبقوں کو ایک ساتھ بٹھا دیں تو وہ بات چیت کرنے کے قابل نہیں ہوتے”۔ انگریزی زبان کی بالادستی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں "ملک میں سرکاری زبان ، عدالتی زبان اور کارپوریٹ زبان انگریزی ہے ۔پس انگریزی میں مہارت یا فتہ طبقے کو اۤگے جانے کے لیے اۤسانی ہوتی ہے جبکہ مدرسوں کے بچوں کو آگے جانے کے لیے بہت رکاوٹیں طے کرنا پڑتی تھیں۔پوری قوم بکھری ہوئی ہے”۔ وزیرتعلیم نے تو مدارس کے بچوں کو محروم قرار دیا لیکن میرا خیال ہے کہ اس محرومی میں مدرسوں کے ساتھ پبلک سیکٹر کے ادرے اور دیگر بہت سے ادارے بھی شامل  ہیں جو اگرچہ مدرسے کی رائج تعریف میں نہیں آتے لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں شامل ہیں، جیسا کہ پیچھے ذکرکیا گیا ہے کہ درجنوں قسم کے ادارے ہیں۔

وزیر تعلیم نے اسی موقع پر ایک بار پھر نشان دہی کی کہ :”70 سال میں تعلیمی میدان میں ریاست کی ناکامی رہی اور ریاست تعلیمی طبقاتی تقسیم کو ختم کرنے میں کوئی توجہ نہ دے سکی "۔

    وزیر تعلیم نے اور بھی بہت ساری چیزیں پیش کی ہیں ۔   اس وقت ساری چیزیں بیان  کرنا مشکل ہوگا کہ    ہمارے پاس وقت کم ہے۔   البتہ کام کی  حساسیت، اہمیت اور نزاکت کو سمجھنے کے لیے وزیرتعلیم کا کہاگیا  یہ نکتہ میں ضرور پیش کرنا چاہوں گا کہ "دوستوں نے شروع میں کہا تھا کہ یہ کام نا ممکن ہے ، اٹھارہویں ترمیم کے بعد نصاب صوبوں کو تفویض ہو چکا ، پرائیویٹ سکولز اور مدارس کا تعاون کرنا بھی غیر یقینی ہو گا مگر وزیر اعظم پاکستان کی رہنمائی میں ، میں نے یہ چیلنج قبول کیا اور خوش اۤئند بات یہ رہی کہ تما م صوبوں ، خاص کر نجی سکولوں اور اتحاد تنظیم المدارس کا بہت تعاون رہا جس کے لیے ان سب کا شکرگزار ہوں۔

       آگے چل کرکہتے ہیں : "یکساں تعلیمی نصاب کو تیار کرنے کے لیے دور حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ اس نصاب سے ہمار ی ثقافت اور تاریخ کی عکاسی ہو گی۔ بین الاقوامی تعلقات کو بھی ذہن میں رکھا گیا ہے۔ مختلف زبانوں کا رول بھی متعین کیا گیا ہے اور یہ بات بھی ہم نے سامنے رکھی کہ ہم کس قسم کا شہری، کس قسم کا مسلمان اور کس قسم کا انسان بنانا چاہتے ہیں۔ ہما را یکساں نصاب ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرے گا”۔
               نجی سکولز کے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے وزیرتعلیم نے  کہا کہ” اس سرکاری نصاب کا معیار کسی بھی لحاظ سے نجی سکولوں کے نصاب سے کم نہ ہو گا بلکہ بہتر ہو گا”۔
"اپریل 2021 میں پورے پاکستان کے  تمام سکولوں میں انشاءاللہ پرائمری نصاب لاگو ہو جائے گا”۔اپنی گفتگو میں وزیراعظم پاکستان کی اس حوالہ سے راہنمائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:  "وزیراعظم عمران خان کہتے رہے ہیں کہ اس وقت نصاب میں تہہ در تہہ تفریق معاشرے کے مختلف طبقات میں پیدا ہونے والی خلیج اور تقسیم کااصل سبب ہے”۔”متوازی تعلیمی نظاموں کی بناء پر تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ کی استعداد اور ان کے سوچنے کے انداز میں فرق نے قومی سوچ اور استعداد کو بھی متاثر کیا ہے”۔  [3]

امیر اور غریب کی بنیاد پر طبقاتی تقسیم کی جانب وزیرتعلیم کا یہ نکتہ بھی پیش کرنے کے لائق ہے : ” موجودہ نظام تعلیم میں امیر اور غریب کے لیے معیار میں نمایاں فرق اور امتیاز ہے۔ ۔۔۔ انگلش میڈیم اسکول اپنے طلبہ کو ایک ایسے مقام پر پہنچادیتے ہیں جہاں  ان کے لیے کلیدی عہدوں کو جھپٹ لینا ممکن ہو جاتا ہے”۔ [4]

یہ تمام تفصیل  بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ چاہے ۲۰۱۳ کی ایجوکیشن پالیسی دستاویز ہو جو پاکستان تحریک انصاف نے دی اور  خواہ  اس بار یعنی ۲۰۱۸ کے الیکشن کا منشور ہو،   یا اس کے بعد کے مراحل یعنی نیشنل ایجوکیشن پالیسی فرہم ورک ۲۰۱۸ ہو، اور اب جو مشق قومی نصاب کی تشکیل کے لیے ہورہی ہے، اس حوالےسے وزیرتعلیم یا وزیراعظم کے بیانات ہوں یہ سب اس بارے میں نشان دہی کررہے ہیں کہ مرض اور اس کے اثرات   کاعلم بھی ہے  اور اس  کی تشخیص اور اس  کی مختلف جہات  بھی معلوم ہیں۔

 اس اعتبار سے سنجیدہ طبقات کی یہ خواہش فطری ہے کہ اس وقت جاری کوششوں  کو سمجھا جائے۔اس ضمن میں وزارت کی جانب سے بھی معلومات کی عام فراہمی ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ کیا  ہورہا ہے  اور  اسے اور بھی بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ یہاں وزارت کے نمائندے   موجود ہیں ۔ اس اعتبار سے آپ کو دن میں موقع ملے گا کہ ان کی زبانی بھی چیزیں سن سکیں۔ خوش قسمتی سے چند دن پہلے جب ہم نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں سیمینار کیا تو مجھے ذاتی طورپر بھی ان کی بات تفصیل سے سننے کا موقع ملا۔ 

 _______________________________________________

میرے خیال میں چیلنج بہت بڑا ہے البتہ جو مشق ہورہی ہے اور جس پس منظر میں اس کو بیان کیا جا رہا ہے اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن تمام اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے کہ اس تمام عمل کو  کسی پولرائزیشن کی نظر نہ ہونے دیں۔ جس نوعیت کی polarization آج پاکستان کے ہر موضوع پر قومی سوچ کو متاثر کررہی ہے ‘تعلیم’ کو  اس کا شکار نہیں کر دینا چاہیے۔بدگمانی کے ماحول میں قومی سطح کے کسی بھی مسئلہ کو موثر طور پر حل کرنا ممکن نہیں ہے۔

تعاون کے اسی جذبہ کے پیش نظر یہ بات کھل کر کہنے کی ضرورت ہے    کہ یکسانیت اور عدم یکسانیت کے بہت سے دائرے ہیں ۔  ان دائروں میں سے نصاب تعلیم کو اٹھا لینا ، ایک پہلا قدم تو مانا جاسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ جڑے بہت سارے   دائرے ہیں یہ تمام دائرے بھی اس کے ساتھ ہی  زیربحث لائے جانے چاہییں۔   میرا خیال ہے اور آپ بھی اتفاق کریں گے کہ  ایک مرض کی دس وجوہات  میں   سے ایک سبب ختم کردیا جائے   اور باقی ۹ اسباب  unaddressed رہ جائیں تو مریض کاصحت یاب ہوجانا ممکن نہیں ہے۔

  اس وقت یہی معاملہ تعلیمی نظام کا ہے۔  چنانچہ مثال کے طورپر ہم  تعلیم میں یکسانیت اور عدم یکسانیت کے دائرے گننا شروع کریں تو  کم ازکم ۵بڑے دائرے بنتے ہیں جن میں سے ہر دائرہ کئی سوالات پر بحث کا تقاضا کرتا ہے۔

·       ایک پوری بحث زبان [یعنی ذریعہ تعلیم] کے بارے میں ہمیں کرنی ہوگی ۔ یعنی یہ ایک لسانی مسئلہ ہے کہ انگریزی میڈیم ہو یا اُردو میڈیم اور یا بعض علاقوں میں مقامی زبان کو بطور میڈیم اختیار کیا جائے،جیسے سندھ میں سندھی میڈیم بھی رائج ہے۔ یہ سوال بھی زیرغور آنا چاہیے کہ بعض سطحوں پر بعض مضامین کی کتاب انگریزی اور تدریس میں اردو یا مادری  اور یا ماحول کی زبان کی گنجائش ہو۔

   لسانی دائرہ میں ہی دوسرا پہلو اس سوال سے متعلق ہے کہ ایک بچے کوکسی مرحلہ پر کون سی زبان /زبانوں کی تعلیم دینا لازمی ہونا چاہیے۔  اگر اس دائرے کو زیربحث نہ لایا جائے یا اس پر اتفاق رائے سے فیصلہ نہ کیا جائے اور یا اسے نظرانداز کرتے ہوئے محض مارکیٹ کی قوتوں پر چھوڑ دیا جائے تو یکساں قومی نصاب کے بارے میں ہونے والی ساری بحث غیرمکمل رہے گی اور ایک معنی میں غیر موثر بھی ہوجائے گی۔

·    لسانی کے بعد دوسرامسئلہ تعلیم میں امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی تقسیم ہے۔ اگر میں تہی دست ہوں تو   میرے لیے ممکن نہیں ہے کہ میں ایک ‘معیاری  تعلیمی ادار ے’میں جا سکوں۔طبقاتی تقسیم کا ایک سبب اور نتیجہ تعلیمی اداروں کی ملکیت سے جڑا نظر آتا  ہے۔ اس کا تعلق تعلیم کو تجارت یاصنعت کا درجہ دینے سے بھی ہے۔ چنانچہ   یہاں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کی ایک بہت بڑی تقسیم ہے۔  اور پھر جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر دونوں میں درجنوں  دائرے   ہیں۔ ملٹری کے اپنے ادارے  کیڈٹ کالجز اور اسکولز ہیں ، مشنری تعلیمی ادارے بھی ہمارے ہاں موجود ہیں۔ مختلف فلاحی تنظیمات  بھی اپنے اپنے تعلیمی ادارے چلا رہی ہیں۔ اس میں تجارتی  اور غیرتجارتی کی بھی ایک تقسیم ہوتی ہے۔

·           سب سے بڑھ کر نظریاتی معاملہ ہے۔ اس وقت   دینی اورعصری  تعلیم کے حوالہ سے مختلف اداروں کی موجودگی اس تقسیم کی واضح ترین علامت ہے۔ خود اس تقسیم کے اندر جنہیں  دینی  تعلیم کے ادارے  قرار دیاجائے ان کے اندر مسلکی تقسیم اور تقسیم درتقسیم ہے۔  دوسری جانب عصری تعلیمی ادارے بھی یکساں نہیں۔ نجی شعبہ میں اب بعض تنظیموں اور اداروں نے دونوں طرح کے نظاموں کے  امتزاج پر مبنی نئے نئے تجربات کیے ہیں۔ یہ تمام امور  یکساں نظام تعلیم کے حوالے سے ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔

·          ایک اور تقسیم نظام امتحانات کی بنیاد پر ہے۔ یہ نہایت اہم عنوان ہے۔ جیسے کہ میں نے پہلے اشارہ کیا، اگر بقیہ تمام معاملات جوں کے توں بھی رہیں لیکن امتحان اور جانچ  اور اس کی بنیاد پر ترتیب دی گئی میڑٹ لسٹ  کے نتیجے میں لوگوں کو ملازمتیں،  اختیار، منصب اور عہدے دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو پھر حکومت کو یکسانیت کے حصول کے لیے کچھ بھی اور نہیں کرنا پڑے گا۔  درحقیقت  تمام چیزیں ایک سطح تک ازخود یکساں ہوتی چلی جائیں گی۔  اس وقت  جانچ کے نظام (Assessment system)   میں ملکی اور غیرملکی بورڈز کا معاملہ بھی شامل ہے۔ دوسری جانب  خود ملکی بورڈز میں بھی اب پرائیویٹ بورڈز شروع ہو چکے ہیں۔ یہ  تعلیم کو یکسانیت کی طرف لے جانے والا عمل نہیں ہے بلکہ تعلیم میں موجود تقسیم کواور بھی گہرا کرنے  والا عمل ہے۔

·       بعض چیزوں کا تعلق فیصلوں سے نہیں  بلکہ رویوں سے ہے۔ فیصلے رویوں کو پختہ یا کمزور اور یوں تبدیل کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مثال مثلاً صنفی پہلو کی ہے۔ جینڈر کے حوالے سے تعلیم میں کس حدتک اور کن امور میں یکسانیت  ضروری ہے  ، اس ضمن میں عددی برابری (equality)ہدف ہو یا عدل کی بنیاد پر برابری (equity) کوہدف بنایا جائے۔ یہ بہت اہم اور حساس موضوع ہے جس کا تعین کرنا ناگزیر ہے۔  اسی طرح اقلیتوں کا معاملہ ہے۔ بعض امور میں ان کے لیے عدم یکسانیت کو ان کا حق اور بطور ضرورت تسلیم کرنا ہوگا۔

میں ایک بار پھر یہ دہرا نا چاہوں گا کہ یکساں نظام تعلیم کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اہم ترین بلکہ لازمی ہدف یہ ہونا چاہیے کہ  ان سارے دائروں پر علیحدہ علیحدہ کام کرنے کے بجائے  ان کو بیک وقت سامنے رکھ کر کام کیا جائے۔    اس کے نتیجہ میں اولین قدم کے طورپر  جس چیز کو یکساں بنانا ضروری ہوگا وہ   مقاصد تعلیم اور اہداف میں ہم آہنگی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کرنا چاہیے کہ آخر ہم اپنے  تعلیمی نظام سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

_______________________________________________

 ان دنوں ایک اصطلاح اور اس سے جڑا ایک نعرہ بہت عام ہو گیا  ہے ۔ یہ کہ ہمیں ‘نالج اکنامی’ کی طرف جانا ہے۔ یہ سن کر بظا ہر آپ کو کوئی ناگواری  نہیں ہوتی، ظاہر ہے ساری دنیا معیشت کو سب سے زیادہ اہم قرار دے رہی ہے۔ چنانچہ  وہ علم اور تعلیم جو دراصل اقتصادی نقطہ نظر سے دنیا میں آپ کو آگے بڑھائے اور مضبوط بنائے اس میں   پریشانی کی کیا بات ہوسکتی  ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس پر سطحی انداز میں آگے بڑھنے کی بجائے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

شروع میں عرض کیا تھا کہ تعلیم کا مقصد تو انسان کو انسان بنانا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے معاشی میدان میں مہارتوں کا حصول توبہت ضروری ہے  لیکن یہ تو بہت سی مہارتوں میں سےا یک مہارت ہے  جس کی طرف توجہ دینی چاہیے۔  لیکن ہمارا اصل ہدف  ‘علم کی بنیاد پر مبنی معاشرہ’ (Knowledge based society)ہونا چاہیے۔ ایسا معاشرہ جہاں علم پرمبنی سوچ اور فکر انسانی زندگی کی تشکیل کی بنیاد بنیں۔  علم کی بنیاد پر شخصیت کی تشکیل   ہدف ہو، ایک ایسا ماحول تشکیل دینا جو علم کا فروغ کررہا ہو۔    درحقیقت آج جو چیز ہم  کھوتے چلے جارہے ہیں وہ معاشرہ میں علم اور تعلیم کی یہ حیثیت ہے۔   آج تعلیم کا مقصد محض ڈگری کا حصول بن گیا ہے۔  اور اس میں پاکستان تنہا نہیں ہے بدقسمتی سے آج کی دنیا میں بہت ساری جگہوں پر یہی محسوس کیا جارہا ہے۔   تعلیم کا مقصد ڈگری، ڈگری کا مقصد روزگار کا حصول، اور روزگار  کامقصد   پیسہ کمانا، اور پھر اور پیسہ کمانا۔بلاشبہ یہ تعلیم کا ایک بہت ہی حقیر  سا مقصد ہے ۔ ذرا غور کیجیے اگر تعلیم کا یہی مقصد سامنے رکھا جائے تو اس مقصد کے حصول کے تو بہت سے آسان طریقے موجود ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرہ میں  ایسے بہت سے  لوگ موجود ہیں جو انگوٹھا چھا پ یا بہت کم تعلیم یافتہ ہیں لیکن  ارب پتی  ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم  کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو یہ بات او ربھی اچھی طرح واضح ہو جائے گی۔ آپ فرماتے ہیں "جو علم مقاصد حیات کو نظرانداز کرکے لوازم حیات سے بحث کرے وہ علم بے اصل ہے”۔   ["محاضرات تعلیم” ،تیسرا ایڈیشن،مئی ۲۰۱۶، زوار اکیڈیمی، ص۲۰۷]

_______________________________________________

 

اس مرحلہ پر اگر ہم تعلیم کے مقاصد اور اہداف  کا تعین کرناچاہیں تو میں تین تصورات یا اصطلاحات آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔  میرے خیال میں تمام تعلیمی سرگرمیوں کا مقصد ان تصورات کی تشکیل اور انفرادی واجتماعی دائروں میں ان کا اطلاق ہونا چاہیے۔  

·       ان میں سے پہلا تصور خود شناسی ہے۔ خودشناسی سے مراد اپنا نام، خاندان اور پس منظر وغیرہ جاننا یا اپنی صلاحیتوں اور استعداد کے بارے میں جاننا نہیں ہے۔ یہ تو بہت ہی سادہ سی چیزیں ہیں اور یہ اپنی جگہ ضروری ہیں۔ خودشناسی کو سمجھنے کے لیے اس گفتگو کے آغاز میں اشارہ کیے گئے بنیادی سوالات دہرا لیجیے: مثلاً یہ کہ اس دنیا میں میرا مقام کیا ہے، میں کیوں آیاہوں، میں نے کیا کرنا ہے، کس چیز کا مجھ سے جواب طلب کیا جائے گا، میرا خالق  کون ہے، میرا مالک  کون ہے۔  خود شناسی ان تمام اور ان جیسے دوسرے بہت سے سوالوں کا جواب ہے۔

·       خودشناسی کے ساتھ جڑا ہوا دوسرا تصور ہے خداشناسی۔ خودشناسی ہوگی تو خود ہی معلوم ہو  جائے گا کہ خداشناسی کیا ہے؟ یہ کہ ایک اللہ ہے جس نے اس دنیا کو بنایا ہے ۔ وہی اس کا مالک ہے، انتظام بھی وہی کر رہا ہے۔ انسان اس کا خلیفہ ہے جس نے دنیا کا انتظام کرنا ہے۔ اس کے لیے دنیا میں اس نے اسباب اور نتائج کا ایک تعلق قائم کر دیا ہے۔ لیکن معمول کے اس انتظام سے ہٹ کر کچھ ہونا ہو تو اسی ہستی کے پاس ویٹو پاور بھی ہے۔

·        مذکورہ دونوں تصورات تیسرے تصور کو واضح کرتے ہیں اور وہ ہے  خلق شناسی۔  اسے آپ تصور جہاں اورورلڈ ویو سے بھی موسوم کرسکتے ہیں۔ انسانوں اور انسانی دنیا کوجاننا انسان کے علاوہ دنیا میں حیوانات، نباتات وجمادات کی ان گنت اقسام تخلیق کی گئی ہیں۔ ان تخلیقات کے درمیان باہم تعلق، ان کا انسانوں سے تعلق کیاہے، کیا ہونا چاہیے، ان تمام سوالات کے جوابات ایک  تصور جہاں تشکیل دیتے ہیں کہ دنیا کو کیسے دیکھا جائے ۔ تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ان حوالوں سے تعلیم یافتہ ہونا چاہیے۔   

 درحقیقت   اگر  یہ تینوں تصورات  یعنی خودشناسی، خداشناسی او رخلق شناسی صحیح بنیادوں پر ہوں گے تو اس کا لازمی نتیجہ ‘توحیداور خلافت’ پر مبنی اسلامی تصورزندگی سے  جڑ جائے گا۔   مقاصد تعلیم میں یہی اولین ہدف ہونا چاہیے کہ ہمارا تعلیمی نظام ایک طالب علم کو تعلیم کے کسی ایک جزو کے طورپر نہیں   بلکہ پورے تعلیمی عمل کے دوران مسلسل توحید اور خلافت سے جوڑتا  رہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی تصور زندگی مسلم معاشرے میں کنفیوژن کے علاوہ کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتا اور مقصد زندگی میں کنفیوژن کی صورت میں قوم ہمیشہ تقسیم رہے گی۔

 یکساں نصاب  اور یکساں نظام تعلیم کے دائرے میں کی جانے والی کسی بھی کوشش میں اس پہلوکو ایسے مرکزی خیال کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے جو بقیہ تمام تصورات پرحاوی ہو۔      تعلیم کی دنیا سے توحید اور خلافت کا تصور انسانوں میں منتقل ہوگا تو اس کے ساتھ ہی اس سے جڑی اقدار بھی انسانوں میں منتقل ہوگی۔  مستثنیات تو انسانی زندگی کی حقیقت ہیں لیکن اس صورت میں عمومی طورپر پورا ملک ایک سمت میں جارہا ہو گا۔

   میرا احساس یہ ہے کہ جب ہم توحید کے تصور کی بات کرتے ہیں تو مجھ   سمیت بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہوں نے توحید کا لفظ تو بالکل بچپن سے سنا ہے۔ پہلا کلمہ طیب  لاالہ الااللہ محمدالرسول اللہ۔  یہ ہم سب بچپن سے پڑھتے ہیں اور زندگی بھر دہراتے ہیں تو اس کے مفہوم میں توحید نمایاں ہے  لیکن  عمومی طورپر ان الفاظ کو  دہراتے ہوئے  ان میں موجود  وسعت  و  گہرائی اور  ان میں پوشیدہ   پیغام کم ہی  لوگوں  پر واضح ہوتا ہے۔

_______________________________________________

 تعلیم اور  یکساں نظام تعلیم کے زیربحث  تناظر  میں توحید کے اس تصور کے حوالہ سے تین بنیادی حقیقتیں  دہرانے کی ضرورت ہے۔ غور کیا جائے تو  درج ذیل اہم نکات   توحید اور خلافت کے  تصور میں شامل ہیں۔    

یہ تصور کہ اس کائنات اور اس میں موجودزمین اور زمین میں موجود ہرشے کو بنانے والا ایک ہے۔ وہی تنہا اس کا انتظام چلارہا ہے۔  انسان کو بھی اسی نے تخلیق کیا ہے۔ اور اسے زمین میں اپناخلیفہ اور نائب بنایا ہے۔  توحید کے تصور میں یہ بات شامل ہے کہ جو کچھ زمین کے اوپر یا اس کے اندر موجود ہے، وہ انسان کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔  اس طرح اسلام انسان کو اللہ اور اس کی مخلوق سے یوں جوڑتا ہے کہ جو کچھ بھی یہاں موجود ہے وہ انسانوں کے درمیان باہم تعاون کا باعث بن جائے۔    

خلیفہ کی اس حیثیت میں انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین پر اللہ کی نیابت کرتے ہوئے ان صفات کو اپنے پیش نظر رکھے اور ان ہی کے مطابق اپنے طرزعمل کو متعین کرے جو اس کے مالک کی صفات ہیں۔

    بلاشبہ یہ development کی انتہا ہے  کہ جس ہستی کے  خلیفہ کے طور پرآپ  کام کر رہے ہیں یعنی  اللہ تعالیٰ کی ذات ، اس کے  ۹۹ صفاتی ناموں پر غور کریں۔ ان میں سے ہر نام  کردار کی کسی ایک خصوصیت کا اظہار کرتا ہے۔  تعلیم وتربیت کے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے انسان کو کردار کی ان خصوصیات میں  آگے بڑھنا چاہیے۔ مثلاً اگر اللہ کی ایک صفت  عادل ہے تو خلیفہ کی زندگی  اور کردار میں بھی عدل موجود ہونا چاہیے۔ اگر وہ رحمن اور رحیم ہے تو رحمن اور رحیم کی جو صفات ہیں وہ انسان کو اپنے اندر اعلیٰ ترین سطح پر پیدا کرنے کی کوششیں کرنی چاہییں۔ غرض    اللہ تعالیٰ کی یہ۹۹ صفات شخصیت کی تعمیروترقی [  development] کے عنوانات ہیں۔ ڈیویلپمنٹ کے اس تصور میں بلندی کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ مغربی دنیا  سے درآمد شدہ development  کے تصورات  ترقی کا ایک بہت ہی محدود تصور دیتے ہیں۔  مسلم معاشرے میں ترقی پر زور دینے کے لیے توحید سے بڑھ کر کوئی تصور نہیں ہوسکتا۔  

                    اس ضمن میں تصوراتی سطح پر انسانی زندگی کے تین دائروں میں ڈویلپمنٹ پر بیک وقت توجہ دینی ہوگی۔

   lشخصی نشو و نما:    شخصی نشو و نما سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو جو ذہنی وجسمانی صلاحیتیں دی ہیں انہیں بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔بہتر سے بہتر نشو و نما (development) کے اس تصور میں ذہنی و فکری، جسمانی اور روحانی نشو و نما بیک وقت شامل ہیں   اور ان میں توازن کا خیال رکھنا بھی شامل ہے۔نیز اس کے نتیجہ میں اپنے لیے درست لائحہ عمل کا انتخاب اور اپنے آپ کو اس لائحہ عمل کے تحت کردار کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا اور تیار رہنا ہے۔ چنانچہ شخصی نشوونما کا یہ لازمی حصہ ہے کہ روحانی نشوونما کے ساتھ ساتھ ذہنی نشوونما کے لیے علم اور مہارتوں کا حصول ہو اور جسمانی نشوونما کو یقینی بنانے کے لیے غذا اور صحت و صفائی کے لیے بھی تمام ضروری تدابیر اختیار کی جائیں۔

   l سماجی و معاشرتی ترقی:  فطرت کے عناصر سے غذا، رہائش و آسائش، سہولیات و جمالیات، عقل و دانش، مسرت و شادمانی اور انسان کی بہتری اور بھلائی کے لیے طرح طرح کے سامان پیدا کرنا، نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے، انسان کو سپرد کی گئی مقدس امانت   کا لازمی تقاضا ہے۔ چنانچہ ذاتی اور شخصی نشوونما کے ساتھ ساتھ خلیفہ کے طور پر اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے اردگرد نگاہ رکھے۔ زمین پر تشدد اور فساد کاخاتمہ کرے، برائیوں کی روک تھام اور اچھائیوں کو پھیلانے کا اہتمام کرے۔کیونکہ خلافت اگرچہ ہرفرد کے لیے انفرادی ذمہ داری ہے لیکن اس کی ادائیگی کے لیے ناگزیر ہے کہ اردگرد کاماحول اس میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ معاونت کا کردار ادا کرے۔  قرآن مجیدمیں اس تناظر میں خلافت کے لیے ’جمع‘ کاصیغہ بھی استعمال کیاگیا ہے۔  چنانچہ ایسے تمام اقدامات اور سرگرمیاں جو معاشرہ میں انسانوں کی روحانی، ذہنی اور جسمانی نشوونما میں مددگارہوں۔ خلیفہ کی حیثیت سے انسان کی ذمہ داری کاحصہ ہیں۔ ان اقدامات اور سرگرمیوں میں رسمی عبادات کی انجام دہی کاانتظام ہی نہیں علمی وتعلیمی اور فلاحی سرگرمیاں، سماجی دائرے میں انسانی ضروریات کااہتمام، باہم تعاون اور امداد کے لیے ماحول کی تشکیل، عدل پر مبنی نظام کاقیام اور ان سب کاموں کے لیے اداروں کی تشکیل اور ان کا انتظام وانصرام شامل ہے اور دوسری جانب ان تمام قوتوں کامقابلہ کرنے کے لیے سازگار ماحول کی تشکیل کی کوششیں بھی اس اجتماعی ترقی کا حصہ ہیں جو ان مقاصد کے حصول میں رکاوٹ بن رہی ہوں۔قرآن مجید میں بار بار معروف کوپھیلانے اور منکر سے روکنے کی ہدایت کو بھی اس وسیع تر تناظرمیں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔

   l ارضی ترقی:   شخصی نشوونما اور سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ناگزیر ہے کہ اس زمین کو بھی جہاں انسان نے خلافت کی یہ ذمہ داری اداکرنی ہے ترقی دینے کا اہتمام کیاجائے۔   چنانچہ زمین کی تہوں، آسمان کی وسعتوں اور سمندر کی گہرائیوں میں جس قدر  مواقع اور خزانے موجود ہیں ان کی نشان دہی، ان کی حفاظت، ان کو انسان کے فائدے کے لیے قابل استعمال بنانا اور ترقی دینا بھی خلافت کی ذمہ داری کا اہم جزو ہے۔ درحقیقت خلافت کا ایک بہت بڑاحصہ یہی ہے۔ یعنی زمین اور انسان کا تعلق ”انسان اور فطرت ایک دوسرے کے خلاف برسرِجنگ نہیں ہیں بلکہ وہ خالق کے مشن کی تکمیل کے لیے ایک مشترکہ جدوجہد میں حصہ دار کی حیثیت سے شریک ہیں۔ اس مربوط حکمت عملی میں زمین کے ماحولیاتی پہلو کو نظر انداز کر دینے کی ہر گز گنجائش نہیں ہے“۔   بنی نوع انسان کی اپنی زندگی اور اس کی بقاء کا انحصار زمین اور اس کی زرخیزی اور اس میں چھپے ہوئے خزانوں پرہے۔ چنانچہ زمین اور اہل زمین کی ترقی، بہتری اور بھلائی کے تمام کام اس میں شامل ہیں خواہ یہ ماحولیات کے مسائل ہوں یا ٹیکنالوجی کی ترقی اور یا زمین کی تباہی کے عوامل کی روک تھام اور ان کاموں کے لیے سازگار ماحول اور نظام کے اداروں کے قیام کی کوششیں۔ عقیدہ توحید کے تحت خلافت کے کردار کی ادائیگی میں یہ سب سرگرمیاں شامل ہیں۔

                       ذاتی، سماجی اور ارضی ترقی پربیک وقت توجہ توحید پر مبنی  طرزعمل میں یہ توازن بھی فراہم کردیتا ہے کہ ایک کی قیمت پر دوسرے کاحصول عام طور پرمطلوب نہیں ہے۔  اس توازن میں بہرحال یہ بات اہم ہے کہ اگرچہ اسلام میں فرد کی آزادی اور خودمختاری کی اہمیت کو پوری طرح تسلیم کیاگیا ہے لیکن اسے کسی بھی طرح اجتماعی مفاد (general well being) پر ترجیح حاصل نہیں ہے۔

                     مذکورہ تصورات  کو  آپریشنل سطح پر سمجھنے کے لیے ۵ ایسی خصوصیات متعین کی جاسکتی ہیں جنہیں   تعلیمی عمل کے نتیجہ میں  تیارکردہ  ‘پراڈکٹ’ کی مطلوبہ خصوصیات کے  طورپر بیان کیا جائے۔  تعلیمی نظام کی ہر سطح اور اس کے ہر جزو میں پیش نظر یہ ہونا چاہیے کہ تعلیم سے فارغ ہونے والے طلبہ [پراڈکٹ] درج ذیل پانچ پیمانوں پر اعلیٰ ترین کردار کے حامل  ہوں۔ انگریزی میں یہ صفات پانچ پی ” کی بنیاد پر بیان کی جاسکتی ہیں۔

l Practicing Religion    l Patriotism     l Positivism     l Professionalism   lPaying attention to Law

 

جبکہ اردو میں انہیں : l مسلمان، با عمل      l محب وطن      l مثبت سوچ رکھنے والا      l مہارت، پیشہ ورانہ  l مہذ ب، قانون کا پابند   کے الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

           _______________________________________________

                    زندگی کے لیے جتنا علم اور زندگی کی جتنی بھی مہارتیں فراہم کی جائیں۔  مذکورہ  تمام حوالوں سے  ممکنہ حدتک اعلیٰ ترین معیار [ایکسی لینس] ان کا  ہدف    ہونا چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر طالبعلم  زندگی کے ہر میدان میں اعلی ترین معیار حاصل نہیں کر سکتا لیکن  اپنے حالات اور ماحول کے اعتبار سے ممکنہ حدتک اعلی ترین معیار تک اسے پہنچانے کی کوشش قومی تعلیمی پالیسی سے لے کر کلاس روم تک تمام اسٹیک ہولڈرز کاہدف اور اسی کو جانچ کا پیمانہ ہونا چاہیے۔    

ڈگری، ڈگری کے بعد ملازمت، ملازمت کے بعد پیسہ، پیسہ کے بعداور پیسہ حاصل کرنے کی بھوک لے کر نکلنے والا پراڈکٹ ہماری تعلیمی تگ ودو کا مقصود نہیں ہوسکتا نہ ہوناچاہیے ۔ تعلیم کی دنیا میں بہتری کے لیے مذکورہ بالا پانچ خصوصیات کے حامل انسان کی تیاری ایک پیکج کی صورت میں ہدف کے طور پرسامنے رہنی چاہیے۔

اس ساری صورت حال میں وزارت تعلیم نے ایک بہت بڑے کام کا آغاز کیا ہے۔ کسی بھی بڑے ہدف کے حصول کی کوشش میں مثالیت پسندی (Desirability) اور  عملیت پسندی (doability) کے درمیان فاصلہ ہوسکتا ہے ۔ شفافیت اور inclusiveness کی صورت میں یہ فاصلہ پریشانی کا باعث نہیں بلکہ تعاون کے مواقع بڑھاتا ہے۔ عدم شفافیت یا نظرانداز کیے جانے والی فضا میں یہ بدگمانیوں اور بداعتمادیوں کے دروازے کھولتا ہے جو بھی ایکسرسائز کی جارہی ہے اس میں ان پہلووں کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔ Desirabilityمیں نے آپ کے سامنے بیان کی ہے۔ مجھے یقین ہے  کچھ اور لوگ اسے اور بھی زیادہ بہتر انداز میں بیان کر سکتے ہوں گے۔ لیکن میں نے اشارہ ضرور کر دیا ہے آج کے ہونے والے اقدامات کو اسی تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔



[1]  زیرنظرمضمون انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایگزیکٹو پریذیڈنٹ خالدرحمن کے کلیدی خطبہ پرمبنی ہے۔یہ  کلیدی خطبہ 11مارچ 2020 کو اقبال انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیراہتمام سیمینار میں پیش کیا گیا۔ اہل علم، اساتذہ اور طلبہ وطالبات کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ وزیرتعلیم جناب شفقت محمود اوروزارت تعلیم کے اعلٰی عہدیدار بھی اس سیمینار میں موجود تھے۔

[2]       lOne education system for all; – Medium of Instruction –Curriculum – Assessment

l Re-engineering governance-based on complete decentralization;

l Dramatically increase funding – from 2.1% to 5% of GDP;

l Adult education;

l Teacher training;

l Information and communication technology.

[3] Prime Minister Imran Khan had been pointing out that current multi-layered curriculum was the main reason for the division and gulf among different strata of the society

a parallel education system in the country had dampened passion and abilities of the nation by graduating the students with different thinking patterns and capabilities.

[4]Under the current education system, the education standard for rich and poor was markedly different and distinct, …English medium schools gave an edge to their students to grab key posts.

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے