کشمیر پر آئی پی ایس کے ورکنگ گروپ کی چھٹی میٹنگ
حکومتِ پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں۔ تاہم ایک جامع نوعیت کا پالیسی فریم ورک اور ٹھوس عملی منصوبہ بندی نہ ہونا اس کی پیش رفت میں کافی حد تک رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں۔ تاہم ایک جامع نوعیت کا پالیسی فریم ورک اور ٹھوس عملی منصوبہ بندی نہ ہونا اس کی پیش رفت میں کافی حد تک رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
یہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں اُس ورکنگ گروپ کے چھٹے اجلاس کا لب لباب تھا جو 5 اگست 2019ء کو ہندوستانی مقبوضہ کشمیر (IOK) پر وزیراعظم مودی کے کیے گئے اقدامات کے باعث تازہ ترین پیش رفت پر تبادلہ خیال کے لیے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے تشکیل دیا ہے۔
27 فروری 2020ء کو ہونے والے اجلاس کی صدارت ایگزیکٹو صدر آئی پی ایس خالد رحمٰن نے کی جبکہ دیگر شرکاء میں ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) سیداشتیاق حسین اندرابی، جموں و کشمیر کی سابقہ وزیر فرزانہ یعقوب، آئی پی ایس کے سینئر ریسرچ فیلو ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) سید ابرار حسین، سابق صدر راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری امان اللہ خان، بین الاقوامی قانون کے ماہر ایڈووکیٹ ناصر قادری اور ڈاکٹر عائشہ شامل تھے۔
شرکائے گفتگو اس بات پر متفق تھے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے حالیہ دورۂ پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر ہونے والی گفتگو اور بین الاقوامی میڈیا پر اس کے تذکرے سے یہ تاثر تو ملتا ہے کہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں پاکستان نے کافی سفارتی بنیاد حاصل کرلی ہے لیکن اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومتی سطح پر کسی جامع پالیسی اور ٹھوس کارروائی کی کمی سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یا تو وہ اپنے کسی عملی منصوبے کے بارے میں واضح نہیں ہے یا اس کے پاس ٹھوس جواب دینے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔
اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں اصل صورتِ حال اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جس طرح کہ عالمی سطح پر پیش کی جارہی ہے جبکہ بھارت بھی جمود کی اس صورتِ حال میں ردوبدل کرکے اپنے غیرقانونی فعل کو قانونی حیثیت دینے کے لیے زمین کو اپنے لیے مزید ہموار کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ موجودہ عالمی منظرنامے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جہاں تمام اقوام اور درحقیقت پورا بین الاقوامی نظام اپنے مفادات کے مطابق چلتا ہے۔ پاکستان کو اس صورتِ حال میں زمینی حقائق کا بھی ادراک کرنا ہو گا اور ایک ایسی حکمت عملی تشکیل دینا ہو گی جس کے ذریعے اپنا راستہ وضع کیا جاسکے۔
مقررین نے پاکستان کے اب تک کے جوابات پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان میں کشمیر کے حوالہ سے کافی سرگرمیاں ہو رہی ہیں تاہم ان کے ذریعے کشمیر کے حوالہ سے یادداشت کو ازسرنو زندہ کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں لیا جارہا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بیانیہ پر مسلسل کاربند ہونا یقیناً ریاستی اداروں کی مرضی کا نتیجہ ہے تاہم پالیسی اور عمل دونوں مفلوج ہونا صورتِ حال کو مزید پریشان کن بنا رہا ہے۔ اگر اس علامتی بے عملی کو بھی کسی پالیسی کے حصے کے طور پر اختیار کیا گیا ہے تو اس کا اظہار منصوبے کے ایک حصے کے طور پر ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی وزارتوں میں کسی مقصد کے تحت کشمیر پر سیل اور کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ اس کے باوجود کوئی ایک لائحہ عمل بھی ایسا نہیں جس میں پاکستان کے لیے اس بحران میں آگے کی حکمتِ عملی کا طریقۂ کار طے ہو۔
مقررین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ کشمیر پر متفرق سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی میڈیا میں اس معاملے کو ملنے والی تشہیر پر بھی حکمتِ عملی تعمیر کرے۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ کشمیری تارکین وطن نے اب تک بہت فعال کردار ادا کیا ہے لیکن ان کی حوصلہ افزائی اسی صورت میں ہو گی جب انہیں پاکستان کی طرف سے کوئی ٹھوس جواب آتا دکھائی دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ وقت ہے کہ حکومت کو عوامی ڈپلومیسی کو مؤثر انداز میں عملی طور پر چلانے کی ضرورت ہے اور صرف شور مچائے جانے پر انحصار کرنے کی بجائے ایسے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ ارادوں کی عملی شکل نظر آئے۔
جواب دیں