کشمیر میں ارتقا پذیر صورتِ حال

کشمیر میں ارتقا پذیر صورتِ حال

Evolving-Situation-in-Kashmir thumbاس وقت بھارت کی جموں و کشمیر کو ہڑپ کرلینے کی بھوک ختم کرنے اور دہائیوں پرانی حالت زار تبدیل کردینے کا نادر موقع ہے:آئی پی ایس سیمینار

 Evolving-Situation-in-Kashmir 2

اس وقت بھارت کی جموں و کشمیر کو ہڑپ کرلینے کی بھوک ختم کرنے اور دہائیوں پرانی حالت زار تبدیل کردینے کا نادر موقع ہے:آئی پی ایس سیمینار

آرٹیکلز 370 اور 35-A وہ واحد قانونی بل تھا جو ہندوستان کے آئین کو جموں و کشمیر سے جوڑے ہوئے تھا اور بھارت کی جانب سے ان آرٹیکلز کی منسوخی نے تکنیکی بنیادوں پر اس خطے کو آزاد کردیا ہے۔ اس صورتحال نے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا نادر موقع فراہم کردیا ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے اور اس کے عوام کو اپنی دہائیوں پرانی حالت زار بدلنے میں مدد مل سکتی ہے۔

یہ وہ پیغام ہے جو ”کشمیر میں ارتقا پذیر صورتِ حال“ کے عنوان سے ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس میں دیا گیا۔ یہ مشاورتی اجلاس 19 ستمبر 2019ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ہوا۔ اجلاس کی صدارت میجر جنرل (ریٹائرڈ) سردار محمد انور خان سابق صدر آزاد جموں و کشمیر (AJ&K) نے کی۔ دیگر شرکائے گفتگو میں ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) ابرار حسین، ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف، بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) سید نذیر مہند دفاعی تجزیہ کار، غلام محمد صافی حریت رہنما، ڈاکٹر سید محمد انور سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان، شیخ تجمل الاسلام سربراہ کشمیر میڈیا سروسز (KMS)، اور معروف دفاعی تجزیہ کار محمد علی شامل تھے۔

مقررین میں اس بات پر اتفاقِ رائے تھا کہ مودی کے انتہاپسندانہ اقدامات نے کشمیر کو ہندوستانی آئین کے ساتھ جوڑے ہوئے تھا اور اب اس پل کو توڑ دیا ہے اور اب قانونی نکتۂ نگاہ سے وادی میں کسی ایک بھی ہندوستانی فوجی کی موجودگی کو غیرقانونی قبضہ قرار دیا جائے گا۔

مسئلہ کشمیر کے قانونی پہلوؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے مقررین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ 5 اگست کے اس اقدام کے خلاف بھارتی عدالتوں میں متعدد درخواستیں دائر ہوچکی ہوئی ہیں۔ تاہم یہ یاد رہنا چاہیے کہ ہندوستانی عدالتیں اس نظام کا ایک حصہ ہیں جو قابض فوج کی حمایت کرتا ہے اس لیے ہندوستانی نظام کے کسی بھی عنصر سے مثبت توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہییں۔

 مقررین کی رائے تھی کہ پاکستان کے پاس امن اور جنگ کے درمیان سینکڑوں آپشنز موجود ہیں جنہیں دانشمندانہ طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے لیے مقدمہ تیار کرنے کے لیے بین الاقوامی نظام قانون پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ اس کے علاوہ پاکستان بھی ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی Non Self-Governing Territories (NSGT) لسٹ میں شامل کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ یہ وہ خطے ہیں جن پر کسی دوسرے ملک کے زیرِ اقتدار ہیں، انہیں حکمرانی کرنے والے ملک کی قانون سازی میں شاذونادر ہی نمائندگی کی اجازت ہے اور ان کے عوام کو ابھی تک خود حکمرانی کا پورا حق حاصل نہیں ہے۔ ماہرین کا خیال تھا کہ ایسے ذرائع کو بھی متحرک کیا جاسکتا ہے جن کے ذریعے غیرنمائندہ اقوام اور افراد کی تنظیمیں کشمیر کی رکنیت حاصل کرنی کی کوشش کریں۔

مسئلہ کشمیر کے سیکورٹی پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مقبوضہ کشمیر کی زمینی صورتِ حال کو کنٹرول کرناہے۔ اور اس مقصد کے لیے بھارت اپنی ریاستی مشینری کو ہر حد تک استعمال کرے گا۔ دوسری طرف کشمیری اپنے خطے میں ہندوستان کی کل فوج کے نصف سے زیادہ حصے کا بہادری سے مقابلہ کرکے ایک قابل فخر کردار ادا کررہے ہیں اور اس کے بدلے میں پاکستان کو نہ صرف کشمیری عوام کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر سے ہندوستانی فوج منتشر کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔

جنگ کے سوال پر گفتگو کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ منطق تو کہتی ہے کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر سے باہر جنگ شروع کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا تاہم وہ یہاں اور وہاں ہر جگہ خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کرسکتا ہے چنانچہ پاکستان کو کسی بھی قسم کے خطرے سے نبٹنے کے لیے ہر طرح سے چوکنا رہنا ہوگا۔

اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان کے مسئلہ کشمیر پر جو بھی چھوٹی سے چھوٹی کامیابی حاصل کی ہے اسے صرف ایک چھوٹا قدم سمجھا جانا چاہیے اور اسے بہت بڑھا چڑھا نہیں لینا چاہیے۔ پوری توجہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد پر رہنی چاہیے جس کی حمایت میں پاکستان کو کشمیریوں کے لیے انسان دوست اور اخلاقی بنیادوں پر مبنی انسانی اور مادی وسائل کے لحاظ سے ہر مدد کا کھلم کھلا اظہار کرنا چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے