بھارت میں انتخابات کے نتائج: خطے پر اثرات بھارت میں ہندوتوا کی قیادت میں قومیت پرستی کی لہر
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں 24 مئی 2019ءکو ایک گول میز اجلاس منعقد ہوا جس کا موضوع تھا ”بھارت میں انتخابات کے نتائج: خطے پر اثرات“۔ اجلاس سے خطاب کرنے والے مقررین نے ہندوتوا کی رہنمائی میں مسلمان مخالف اور پاکستان مخالف جنون کو مودی کی انتخابی فتح کا سبب قرار دیا۔ انہوں نے بھارت میں اقلیتوں کو یکسرنظرانداز کردینے کے خطرے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس خطرے کا اظہار کیا کہ اگر اس معاملے کو صحیح طرح سے گرفت میں نہ لیا گیا تو اس سے بھارت میں انتہائی سنجیدہ نوعیت کا سماجی بحران اور عدم تحفظ ابھر کر سامنے آئے گا۔
سیمینار سے خطاب کرنے والوں میں ڈاکٹر مجیب افضل اسسٹنٹ پروفیسر سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد، سلطان ایم حالی سینئر تجزیہ کار اور رائزنگ ہندوتوا کے مصنف، خالدرحمٰن ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس، ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف سینئر ریسرچ فیلو آئی پی ایس، ڈاکٹر سید محمد انور سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان, رکن اسلامی نظریاتی کونسل اور آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن، فرزانہ یعقوب سابق وزیر سوشل ویلفیئر اینڈ وومن ڈویلپمنٹ آزاد جموں و کشمیر (AJK)، اصغر علی شاد اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IPRI)، جواد فلک ریسرچ آفیسر میری ٹائم سٹڈی فورم اور آئی پی ایس ریسرچ ٹیم کے ممبران وقار النساء اور فیضان فاخر شامل تھے۔
ڈاکٹر افضال نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ مودی کا ہندوتوا پر مبنی بیانیہ ہے جس نے اسے کامیاب کیا ہے۔ مودی نے ہندوتوا نیشنل ازم کو بھارتی نیشنل ازم کی جگہ دے دی ہے۔ اسے ایسی شناخت دی ہے جیسے یہی زندگی کا ماحاصل ہے۔ اس سوچ نے بی جے پی کی انتخاب میں بظاہر کمزور سیاسی پوزیشن کو اکثریت حاصل کرنے کی طرف ایک ایسی لہر میں تبدیل کیا کہ ایک شاندار فتح کی شکل میں پانسہ ہی پلٹ گیا۔ تاہم انہوں نے بی جے پی کی حاصل کردہ اکثریت پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہندو ووٹ کو متحد کرکے حاصل کی گئی یہ کامیابی اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ ملک میں اقلیتیں بالخصوص مسلمان تفرید کا شکار ہو گئے ہیں جو عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا ایک ایسا احساس ثابت ہوسکتا ہے جو ہندوستانی معاشرے میں سماجی ابتری پیدا کردے۔
حالی نے اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ مودی نے اپنے پہلے دورِحکومت سے ہندوتوا کے نظریہ کو بھارتی سیکولرزم کی جگہ دینا شروع کردی تھی اور اس نے سارے دور میں اسی ایجنڈے پر کام کیا۔ اس نے زبان میں پرانی ہندو اصطلاحوں کو بحال کیا، جگہوں کے مسلم ناموں کو تبدیل کردیا اور ملک میں مسلمانوں کے لیے زندگی مشکل بنا دی۔ اگرچہ اس کے دور میں ہندوستان کے اقتصادی اور سماجی حالات ابتری کا شکار ہوئے لیکن ہندوتوا کے حامیوں نے اس کے نظریات کی حمایت کی اور ملک بھر میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوتوا نظریہ کا نفوذ بھارت کی مسلح افواج اور دیگر سرکاری اداروں میں بھی نظر آتا ہے جن میں بہت سے اہم اہلکار اور افسران ماضی میں آر ایس ایس سے براہِ راست یا بالواسطہ منسلک رہے ہیں۔
الطاف نے بی جے پی کی فتح کو ایک بڑے کنیوس پر دیکھتے ہوئے اسے بھارت کی سیاست میں ایک ایسی درست سمت قرار دیا جس میں سخت مؤقف رکھنے والے گروہ کو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ایک پلیٹ فارم دستیاب ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مودی کے پہلے دور میں بھارت کی معاشی اور سماجی صورتِ حال تباہی سے دوچار ہوئی ہے تاہم اس نے بالاکوٹ، کشمیر اور گھر واپسی پروگرام پر اپنے بیانیے کو تقویت دے کر لوگوں کے جذبات سے بڑی کامیابی کے ساتھ کھیلا ہے۔
سید محمد انور نے اپنی تقریر میں کہا کہ ذات پات کے شکار بھارت میں ہندوؤں کے مختلف فرقوں کو متفقہ طور پر جوڑے رکھنا ایک مشکل کام تھا۔ تاہم یہ اس طرح کیا گیا کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کی سب سے چھوٹی ذات سے بھی بدتر بناکر پیش کیا گیا جس کے نتیجے میں انہیں کسی بھی بہتر سطح سے نہ صرف محروم رکھنے کی کوشش ہوتی رہی بلکہ ان کے ساتھ برتا جانے والا رویہ کسی موازنے میں ہی نہیں آتا۔
یعقوب نے ووٹر کی نفسیات اور انتخابی اور انتظامی سیاست کے درمیان فرق کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انتخابی سیاست ہمیشہ جنگ جوآنہ طرزِعمل ہوتی ہے اور اس میں ووٹروں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے بیان بازی میں اپنائی گئی حکمتِ عملی غالب ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان بھارتی معاشرے میں کبھی بھی آسودہ حال شہری نہیں رہے ہیں لیکن اب مودی کی قیادت میں ابھرنے والے ہندوستان میں انہیں واضح طور پر الگ تھلگ کر دیاگیا ہے۔
شاد نے بھارت کی اندرونی سیاست میں مختلف پہلوؤں کو سمجھنے پر زور دیتے ہوئے سب سے اہم بات یہ گردانی کہ سیاسی فوائد سمیٹنے کے لیے ہمیشہ سے پاکستان پر لعن طعن کو وتیرہ بنایا گیا ہے۔
فلک نے اس بات کی نشاندہی کی کہ دائیں بازو کی ہندوتوا سیاست بڑی گہرائی کے ساتھ ہندو سماج میں داخل ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی میڈیا، ان کی بڑی بڑی کارپوریشنیں حتٰی کہ بھارت کے ریاستی ادارے بھی بہت حد تک سیاست زدہ ہو گئے ہوئے ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف بھارت بلکہ اس پورے خطے کے لیے ایک خطرناک منظرنامے کو تشکیل دے رہا ہے۔
جواب دیں