بابری مسجد: ہندوتوا زدہ بھارت اور اس کے خطرات
بابری مسجد کے بارے میں بھارت کی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک بڑے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جموں و کشمیر کی حیثیت پر کیا گیا وار، بابری مسجد کا فیصلہ اور اب شہریت کے بارے میں بھارتی اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہندوستانی سیکولرزم صرف سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا ایک ڈھونگ ہے۔ ہندوستانی ریاست کی اصل صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے جہاں پچھلے 70 سالوں سے آر ایس ایس کی بھرپور موجودگی اور موجودہ حکومت کے زیر سایہ اسکی شدّت میں اضافہ آنے والے حالات و واقعات کی نشاندہی کر رہا ہے۔
بھارت ہمیشہ سے ایک اعلیٰ ذات ہندو ریاست رہا ہے۔ضمیر اکرم
بابری مسجد کے بارے میں بھارت کی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک بڑے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جموں و کشمیر کی حیثیت پر کیا گیا وار، بابری مسجد کا فیصلہ اور اب شہریت کے بارے میں بھارتی اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہندوستانی سیکولرزم صرف سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا ایک ڈھونگ ہے۔ ہندوستانی ریاست کی اصل صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے جہاں پچھلے 70 سالوں سے آر ایس ایس کی بھرپور موجودگی اور موجودہ حکومت کے زیر سایہ اسکی شدّت میں اضافہ آنے والے حالات و واقعات کی نشاندہی کر رہا ہے۔
یہ وہ پیغام ہے جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیراہتمام ”بابری مسجد: ہندوتوا زدہ بھارت اور اس کے خطرات“ کے عنوان سے مورخہ 18 دسمبر 2019 کو منعقدہ ایک سیمینار میں سامنے آیا۔ اجلاس سے اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندے ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) ضمیر اکرم، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر مجیب افضل، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ امیر عبداللہ عباسی اور آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالدرحمٰن نے خطاب کیا۔
ضمیر اکرم نے ہندوستان میں جاری صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو نسل پرستی کا عروج کس طرح بھارت پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس فیصلے نے آر ایس ایس کے بنیادپرستوں کو اس طرح کے مزید اقدامات اٹھانے کی راہ دکھا دی ہے جس کے لیے وہ پہلے سے ہی عوامی سطح پر اپنے ارادے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ 20ویں صدی کے اوائل میں آر ایس ایس کا قیام ہندو قوم پرست نظریہ کی تحریروں کے باعث وجود میں آیا اور یہ تنظیم ہی بی جے پی کی بنیادی شکل ہے۔ بی جے پی نے 1996ء میں بھی بابری مسجد کے معاملے پر سیاست کی تھی جب اسے لوک سبھا کی میں اکثریت حاصل ہوئ تھی۔ یہاں تک کہ 1992ء میں جب بابری مسجد کو مسمار کیا جارہا تھا تو اس وقت کی ہندوستانی حکومت بھی اس کو روکنے کی پوزیشن میں تھی جبکہ موقع پر پہلے سے پولیس اور نیم فوجی دستے موجودتھے لیکن انہوں نے خوف کے مارے مداخلت نہیں کی۔ اس کے برعکس انہوں نے آر ایس ایس کے غنڈوں کے دباؤ کے سامنے جھک جانے میں عافیت جانی۔
سابق سفیر نے کہا کہ گاندھی اور نہرو کی جانب سے کیا گیا بھارتی سیکولرزم کا دعویٰ درحقیقت اس وقت کی صورت حال میں ایک سیاسی ضرورت تھا کیونکہ یہی وہ راستہ تھا جو اتنے بڑے متنوع ملک کو اکٹھا رکھا جاسکتا تھا۔ تاہم اصل حقیقت اس وقت سے بالکل مختلف ہی رہی ہےکہ جہاں اس کا آئین ملک کو ایک معاشرتی سیکولر جمہوریہ کہتا ہے لیکن ملک صرف ایک نسل پرست ہندو ریاست کے طور پر ہی کام کرتا رہا ہے۔ تاہم اب یہ بلبلا واضح طور پر پھٹ چکا ہے اور اس کے اندر چھپی منافقت بے نقاب ہو گئی ہے۔
ضمیراکرم نے مزید کہا کہ ہندوتوا کے عفریت کا مستقبل قریب میں مزید پھلنے پھولنے کا امکان ہے۔ مودی اپنے ہندوتوا کے نظریے پر قائم رہے گا کیونکہ اس کے پاس دکھانے کو اور کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ کا سہارا لیے ہوئے ہے لیکن حقیقت میں ملک آہستہ آہستہ معاشی مشکلات کے دور میں داخل ہو رہا ہے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے ہندوستان میں اتحاد کی فضا تباہی سے دوچار ہو گی اور سارا الزام ہمیشہ کی طرح پاکستان پر ہی ڈالا جائے گا۔ دوسری طرف پاکستان کو بھی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بھارتی منصوبوں کو سمجھنے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بھارتی فوج نے بھی پہلے سے ہی ہندوتوا کی زبان بولنا شروع کردی ہے۔ چنانچہ پاکستان کو اپنی سرحدوں پر بڑھتے ہوئے دشمن پڑوسی کا جواب دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ڈاکٹر مجیب افضل نے ضمیراکرم کی گفتگو سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس بی جےپی پر غلبہ حاصل کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ ضلعی سطح سے مرکز تک پارٹی کے ہر جنرل سیکرٹری کو انتہا پسند تنظیم کی طرف سے نامزد کیا جاتاہے۔ ہندوستانی ریاست کا موجودہ دور اس کے خودساختہ سیکولرزم کو ہندوتوا نظریات کی طرف موڑ رہا ہے اور یہ بات ان کی انتخابی فہرستوں سے بھی اچھی طرح ظاہر ہوتی ہے جہاں تقریباً 70 سے 80 فیصد منتخب امیدوار ہندو اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں بے تحاشا تنوع ہندو اشرافیہ میں خوف کا باعث بھی ہے۔
اس سے قبل عامر عباسی نے بابری مسجد کیس کا باضابطہ تجزیہ قانونی نقطۂ نظر سے پیش کیا۔ 1528ء میں قائم ہونے والی مسجد کی ایک مختصر تاریخ پیش کرتے ہوئے اسپیکر نے اس بات سے آگاہی دی کہ تنازعہ کس طرح شروع ہوا اور پھر دونوں طرف سے اٹھائے گئے نکات پر قانونی جنگ کے مختلف مراحل کا ذکر کیا۔ ہائیکورٹ کے وکیل نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں متعدد واضح تضادات اور نقائص پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے نےبھارت کی سیاست کے اصل تانے بانے کو بے نقاب کر دیا ہے اور دو قومی نظریہ کو موثر انداز میں دوبارہ زندہ کردیا ہے۔
خالد رحمٰن نے اجلاس کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ آج ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ فعال سفارتی حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم خراب عالمی طرزِحکمرانی کا دور گزار رہے ہیں جہاں فیصلے کسی اصول کے مطابق نہیں بلکہ قومی مفادات کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔تاہم ابھی بھی بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ اخلاقیات، اخلاقی اورانسانی اقدار کی بنیاد پر بھی بہت سے معاملات کو حل طلب بنا لیا جاتا ہے اور یہی حکمت عملی اختیار کرکے ہمیں بھی معاملات کو آگے چلانا چاہیے۔ اگر حکمتِ عملی معاشی مفادات پر حاوی ہو کر اقوام عالم کی رائے کو نئی شکل دینے پر مجبور کردے تو رائے عامہ اپنی ریاست کے فیصلہ سازی کے عمل کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستانی حکومت کے جموں و کشمیر کی حیثیت، بابری مسجد اور اب شہریوں کے بارے میں حالیہ اقدامات کے باعث پہلے سے کہیں زیادہ بین الاقوامی برادری کی توجہ اس جانب مبذول ہو گئی ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے کہ جو ہمیں موقع فراہم کرتی ہے کہ بہترین حکمت عملی اور متناسب اقدامات کے ذریعے دنیا میں اس معاملے پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اپنی پوری صلاحیتیں صَرف کردیں۔
جواب دیں