علاقائی اور عالمی حالات کے درمیان کھڑا کشمیر کا بحران
کشمیریوں کے زیرقیادت، کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل ہی بحران کو حل کرسکتا ہے اور خطے کو جنگ سے بچاسکتا ہے۔
کشمیریوں کے زیرقیادت، کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل ہی بحران کو حل کرسکتا ہے اور خطے کو جنگ سے بچاسکتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد خودمختار حیثیت کے خاتمے نے جھوٹی بھارتی جمہوریت کی اصل حقیقت کو بےنقاب کردیا ہے اور برصغیر کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اگر تنازعہ کو پُرامن طریقے سے بروقت حل نہ کیا گیا تو نہ صرف اس سے خطے کا استحکام خطرے میں پڑا رہے گا بلکہ اس کے اثرات پورے براعظم پر سے بھی کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔ دہائیوں سے حل طلب تنازعہ کشمیر صرف اور صرف کشمیری قیادت اور ان کی خواہش پر حل ہوسکتا ہے۔
یہ وہ نکات تھے جو ”علاقائی اور عالمی حالات کے درمیان کھڑا کشمیر کا بحران“ کے موضوع پر ہونے والے بین الاقوامی سیمینار میں بار بار سننے کو ملتے رہے۔ اس سیمینار کا انعقاد انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے 28 نومبر 2019ء کو پالیسی ریسرچ فورم اے جے کے (PRFAJK) اور میری ٹائم اسٹڈی فورم (MSF) کے اشتراک سے مظفرآباد آزادکشمیر میں کیا تھا تاکہ کشمیر کے بحران پر بھرپور گفتگو کرکے پالیسی میں بہتری لائی جائے۔
سیمینار میں متعدد بین الاقوامی اور قومی رہنماؤں، ماہرین اور دانشوروں نے شرکت کی جن میں وزیراعظم آزادجموں و کشمیر راجہ فاروق حیدر، آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالد رحمٰن، قانونی ماہر ڈاکٹر سید انور، قائم مقام چیئرمین ’پی آر ایف جے کے‘ منصور قادر ڈار، برطانوی مورخ اور سیاسی معیشت کے ماہر ڈاکٹر راجروین زوانیبرگ، برطانوی مصنف اور سیاسی کارکن ڈاکٹر یشپال امرچند ٹنڈن، امریکی دانشور اور مصنف ڈاکٹر عاکس کلائٹزڈس، ترک دانشور ڈاکٹر حلیل ٹوکر، بھارتی مقبوضہ کشمیر کے سینئر صحافی سید افتخارگیلانی، کابل سے تعلق رکھنے والے عالم اور سیاستدان ڈاکٹر فضل الحادی وزین، سیاسی کارکن فرزانہ یعقوب اور دیگر بہت سے افراد نے شرکت کی۔
مقررین کی رائے تھی کہ طویل عرصے سے چلے آنے والے اس تنازعہ کے حل کے لیے ایک کثیرالجہتی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے جس میں سفارتی، قانونی، معاشرتی تمام پہلو شامل ہیں۔ انہوں نے لاکھوں کشمیریوں کی توقعات پر پورا نہ اترنے والی اقوام متحدہ کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا اور فاشٹ مودی حکومت سے نمٹنے کے لیے خود انحصاری پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 اور 35-A کی منسوخی کشمیریوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو ختم کرنے کا عمل ہے اور یہ بابری مسجد کے خاتمے کے مترادف ہے۔
تنازعہ کشمیر کے حل میں ضروری ہے کہ پوری دنیا میں پھیلے کشمیری تارکینِ وطن مشترکہ اور پائیدار جدوجہد کا حصہ بنیں۔ جس طرح عالمی سطح پر کشمیریوں نے اپنا مقدمہ لڑا ہے اور بین الاقوامی میڈیا کو اس تنازعہ کے حساس پہلو سمجھائے ہیں وہ قابل تحسین ہے تاہم اس کے لیے مزید مستقل نوعیت کی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مقررین نے آزاد جموں و کشمیر حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدامات نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے مقبوضہ وادی میں پھنسے کشمیریوں پر جاری ظلم و استبداد سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے جدید ہندوستان کو نسل پرستانہ ملک قرار دیا جہاں اقلیتوں کے حقوق چھینے جارہے ہیں۔ سیمینار میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ ہندوستان میں درسی کتابوں میں ایسا زہریلا مواد موجود ہے جس کا مقصد اکھنڈ بھارت کی راہ ہموار کرنے کے لیے مذہبی منافرت پھیلانا ہے۔
مقررین نے کہا کہ مایوسی اور غلط فہمیاں کشمیر کے تنازعہ کو نتیجہ خیز ثابت کرنے میں مددگار نہیں ہوں گی۔ یہ سچ ہے کہ مسلم دنیا خاص طور پر عرب ممالک کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے معاملے میں مخلصانہ کردار ادا نہیں کر رہے۔ اس کے باوجود یہ غیردانشمندانہ بات ہو گی کہ اس پروپیگنڈہ کا شکار ہوا جائے کہ دوسرے مسلمان ممالک نے کشمیریوں سے قطعہ تعلق کرلیا ہے۔
اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ مظفرآباد میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی نمائندگی کرنے والی جلاوطن حکومت قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے جدوجہد آزادی کو تقویت ملے گی۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں غیرنمائندہ اقوام، عوامی تنظیموں اور غیرخودمختار علاقوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
جواب دیں