اسلام، سیاست اور معاصر معاشرے
مغرب میں مسلمانوں کو الگ کرنے کا عمل فطری نہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔ عالمگیر معاشی اشرافیہ کی طرف سے اس پالیسی کا مقصد کچھ مخصوص معاشی، سیاسی اور تزویراتی اہداف کا حصول ہے۔
’اسلاموفوبیا‘ کی تخلیق کا مقصد خاص اہداف کا حصول ہے۔ ڈاکٹر ٹمارا سون
مغرب میں مسلمانوں کو الگ کرنے کا عمل فطری نہیں بلکہ ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔ عالمگیر معاشی اشرافیہ کی طرف سے اس پالیسی کا مقصد کچھ مخصوص معاشی، سیاسی اور تزویراتی اہداف کا حصول ہے۔
یہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی میں ایڈمنڈ اے والش سکول آف فارن سروس میں تاریخِ اسلام کی پروفیسر ڈاکٹر ٹمارا سون کی اُس گفتگو کا لب لباب ہے جو انہوں نے 30 اکتوبر 2019ء کو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS) اسلام آباد میں ”اسلام، سیاست اور معاصر معاشرے“ کے عنوان دیے گئے اپنے لیکچر میں کی ۔
ڈاکٹر ممتازاحمدکی یاد میں منعقد کیے گئے اس اجلاس کی صدارت رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی (RIU) کے وائس چانسلر ڈاکٹر انیس احمد نے کی، جبکہ دیگر مقررین میں آئی پی ایس کے ایگزیکٹو صدر خالد رحمٰن، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی فیکلٹی برائے عصری علوم کے ڈاکٹر اعجاز اکرم اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (NUML) اسلام آباد کے ڈاکٹر سفیر اعوان شامل تھے۔
ڈاکٹر سون نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ اسلامی انتہا پسندی کی اصطلاح کی جڑیں فطری کی بجائے سیاسی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کو مغرب کی طرف سے مستقل طور پر ایک خطرہ قرار دینے کے پیچھے سیاسی اور اقتصادی وجوہات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کی الگ شناخت دراصل افسانوی تھی جسے صرف ایک سو سال پہلے قدم بہ قدم تراشا گیا تاکہ ایک ایسا ماحول تشکیل دیا جا سکے جہاں عالمی اشرافیہ عالمگیر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
اپنا نکتۂ نظر تفصیل سے بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر سون نے کہا کہ یورپ نے جدید دور کی تاریخ وضع کرنے کا کام 17ویں صدی شروع کیا اور یہی وہ وقت تھا جب تاریخ میں بہت ساری تبدیلیوں کے رونما ہونے کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ آہستہ آہستہ یورپی یونیورسٹیوں میں تاریخ کے مضامین متعارف کروائے گئے اور انہیں لازمی قرار دیا گیا۔ پھر وہاں ’اورینٹل اسٹڈیز‘ کا آغاز ہوا جو بعد ازاں ’ایریا اسٹڈیز‘ میں تبدیل ہوگیا جس میں مطالعہ ایشیا، مطالعہ مشرقِ وسطیٰ وغیرہ شامل ہیں۔ بنیادی طور پر اس سب کا مقصد ’مغرب‘ کو مرکزی تہذیب کے طور پر پیش کرتے ہوئے دوسرے معاشروں کو ’باقی‘ کے نام سے پکارنا تھا۔
ڈاکٹر سون کے نزدیک اس ناقص تاریخ کی تشکیل کی وجہ سے نہ صرف مسلمانوں کی بطور ولن تصویرکشی ہوئِ بلکہ اس سے ان کے خلاف نفرت بھی پھیلی جو بالآخر افغانستان، عراق اور شام پر یلغار، فلسطین اور کشمیر پر قبضے اور میانمار میں مسلمانوں کے قتل و غارت کی شکل میں رونما ہوئ۔ امریکی سیاسی سائنسدان سیموئیل ہٹنگٹن کی تھیوری ”تہذیبوں کا تصادم“ نے بھی سرد جنگ کے بعد عالمی تنازعات میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر سون نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ تمام ثقافتیں اپنی اقدار کو ایک دوسرے سے بانٹتی ہیں جبکہ یہودی، عیسائی اور اسلامی تاریخیں بھی نہ صرف متعدد مشترک صحیفوں کے امین ہیں بلکہ بہت سی اقدار میں بھی ایک دوسرے کی شریک ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے مسلم تہذیب سے بہت کچھ اخذ کیا ہے۔مثلا مسلمانوں نے 10ویں صدی میں مغرب سے ایک صدی قبل انسانی تاریخ کی پہلی یونیورسٹی قائم کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات میں سوچتی ہوں کہ عربی زبان اور ہندسوں وغیرہ کے بغیر مغربی تہذیب آج کہاں کھڑی ہوتی؟
ڈاکٹر سون نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ عالمی معاشی اشرافیہ – جو دراصل لوگوں کا کوئِ گروہ نہیں بلکہ وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے پیسہ بنایا جاتا ہے– کے لیے کوئی بھی چیز اس سے زیادہ مفید نہیں کہ وہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی میں مصروف رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں انسانیت کے ناطے ہمارے لیے یہ اور بھی زیادہ بڑا چیلنج بن گیا ہے کہ ہم انسانی زندگی کے ہر پہلو کی تقدیس کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے رہیں۔
ڈاکٹر اعجاز نے ڈاکٹر سون کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ عہد حاضر میں دفاع کے نام پر سب سے بڑی سیاسی معیشت کا بازار گرم ہے۔ اس عمل میں امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے اور اس کھیل کو برقرار رکھنے کے پیچھے اصل مقصد یہ ہے کہ دنیا کا کنٹرول حاصل کیا جائے۔
خالد رحمٰن نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام سب سے زیادہ زیرِبحث مذہب ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مغربی دنیا اس کی تصویرکشی اپنے متعصبانہ خیالات کے مطابق کرتی رہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلاموفوبیا کے تصور کو پھیلانے کے پیچھے مذہب کی بجائے سیاسی اور معاشی پہلو کارفرما ہیں۔
جواب دیں