سی پیک کا مستقبل ہائبرڈسیکورٹی چیلنجوں سے نمٹنے اور کاروبار کے لیے ابھرتےمواقع سے وابستہ ہے

CPEC-Future-thumb

سی پیک کا مستقبل ہائبرڈسیکورٹی چیلنجوں سے نمٹنے اور کاروبار کے لیے ابھرتےمواقع سے وابستہ ہے

 CPEC-Future

یہ بات ہر کسی کے سمجھنے کی ہے کہ سی پیک کو ہائبرڈسیکورٹی خطرات کی صورت میں چیلنجز درپیش ہیں۔ سماجی و اقتصادی ماہرین نے لوگوں کی  توجہ اس بات پر  مبذول کروائی کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں تاکہ نہ صرف سی پیک گزرگاہ کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے بلکہ اس سے کما حقہ فوائد سمیٹے جاسکیں۔

یہ ماہرین ایک سیمینار کے شرکاء سے مخاطب تھے جس کا عنوان تھا ”سی پیک کا مستقبل: ہائبرڈسیکورٹی چیلنجوں کا سامنااور کاروبار کے  لیےابھرتےمواقع “۔ اس سیمینار کا انعقاد ۲۸ نومبر ۲۰۱۸ء کو  سی پیک اکنامک فورم، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد (IPS) اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ) PIM ( کراچی کے سنٹر آف ایکسیلنس نےباہمی اشتراک سے PIM’S  کی عمارت  واقع کراچی میں کیا تھا۔

اجلاس سے خطاب کرنے والوں میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل نمائندے ایمبیسیڈر (ریٹائرڈ) منیر اکرم، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اینڈ ریجنل اسٹڈیز ازبکستان کے سربراہ رسولوو سدولو شکر بالووچ ، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمٰن، نیشنل مینجمنٹ  کنسلٹنٹس کے بانی چیئرمین ڈاکٹر جنید احمد، کالج آف اکنامکس اینڈ سوشل ڈویلپمنٹ IOBM کی سربراہ ڈاکٹر شاہدہ وزارت، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد صابری اور سی پیک اکنامک فورم کے ایگزیکٹو چیئرمین ارشد قائم خانی شامل تھے۔

سابق سفیر منیراکرم نےاپنی تقریر میں کہا کہ اقوام عالم کی تاریخ میں چین نے کسی بھی دیگر ملک کی نسبت انتہائی تیزرفتاری سے ترقی کی ہے اور اب وہ اپنے ساتھی ممالک کو مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مددگار بنا ہوا ہے کہ وہ بھی ترقی کے عمل میں آگے بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کی اہمیت کے تحت چین نے فنڈز فراہم کیےتا کہ پاکستان ایک بندرگاہ تعمیر کرے جسے بعد ازاں سنگاپور کی ایک کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ خصوصی اقتصادی زون میں اپنی تزویراتی پوزیشن کا فائدہ اٹھانے کے لیے وضع کیے گئے منصوبوں کے مطابق بندرگاہ کی تیزتر ترقی ممکن بنائے اور دیگر متعلقہ منصوبوں کو مؤثر طور پر پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ ملک کے وسائل سے بھرپور  فوائد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو جن شعبوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے ان پر گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر نے کہا کہ ملک کی ضرورت یہ ہے کہ اس کے صنعتی شعبے کو ہنگامی بنیادوں پر ترقی دی جائے جو کہ ملکی آمدنی کا ۱۲ فی صد  تھا۔ انہوں نے چند چینی صنعتوں کی نشاندہی کی جو ان کے نزدیک پہلے زوال پذیر تھیں۔ اسی طرح مناسب منصوبہ بندی اور مہارت کو بروئے کار لاکر پاکستان بھی مواقع سے فوائد سمیٹ سکتا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمٰن نے واضح کیا کہ سی پیک کے خلاف جاری پروپیگنڈہ ان بہت سی ہائبرڈ چالبازیوں میں سے ایک ہے جو مخالفین نے منصوبے کو کمزور کرنے کے لیے اپنا  رکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ بہتر طرزِحکمرانی منصوبے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے تاہم منصوبے میں شامل فریقین کے درمیان ربط بھی اس مقصد کے حصول کے لیے اتنا ہی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ ہم انفرادی اور اجتماعی صلاحیتوں کے استعمال سے کیا کچھ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ اسی شعور و فہم کی مدد سے سی پیک کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

رسولوو سدولو  نے ’’سی  پیک‘‘ پر ازبک نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے اسے نہ صرف پاکستان بلکہ ازبکستان کے لئے بھی بہترین موقع قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ خشکی سے محصور ملک ازبکستان کے لئے ’’سی پیک‘‘ میں بہت کشش ہے اور  وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں  کہ سی پیک اور ازبکستان دونوں ہی ایک دوسرے سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر وزارت نے ’’سی پیک‘‘ اور “OBOR” کو ہر فریق کےلئے فائدہ مند گردانا، انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کے مقامی رہنماؤں نے اپنے مفادات کی خاطر پیشکش کے کئی ایسے مواقع ضائع کیے جن میں فریقین کے درمیان منافع کا تناسب  یکساں نہیں تھا  اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کو اس سے کہیں زیادہ دینا پڑ گیا جتنا کچھ حاصل کرنا تھا۔

معروف اقتصادی ماہر نے اس پر دکھ کا اظہار کیا کہ پاکستان میں امریکی پشت پناہی کی حامل وابستگیوں کو عمومی طور پر زیادہ ترجیح دی جاتی تھی انہوں نے ایسے بہت سے پہلو گنوائے جن پر ہمیں چین سے سیکھنا چاہیئے۔ ڈاکٹر وزارت نے زراعت کو ایک ایسا شعبہ قرار دیا جس میں پاکستان چین سے بہت کچھ سیکھ سکتاہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ چین نے غذائی مصنوعات کی شکل میں ۱۰۰ بلین ڈالر کی درآمدات کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں پاکستان کو چاہیئے کہ ان کو اپنا ہدف بنائے۔

ڈاکٹر جنید نے سی پیک منصوبوں سے متعلق ایسےبہت سے مسائل پر روشنی ڈالی جو اندرون ملک سرمایہ کاروں کو در پیش ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ۳ملین ڈالر سے زیادہ مالیت کے منصوبے جن پر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پچھلے دو سال میں رضا مندی ظاہر کی تھی خبر ہی نہیں کہاں چلے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے زیادہ تر کاروباری معاملات پر امریکہ براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کے باعث اس سارے منصوبے میں سکیورٹی کے پہلو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

مقررین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان  معاشی صورت حال  اور اس میں موجود امکانات کو سمجھتے ہوئے پاکستان کو چین کے ساتھ مذاکراتی عمل بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیئے جبکہ قوم کو واضح ہونا چاہیے کہ امریکہ اور چین کےساتھ معاملات میں ہم بحیثیت قوم کہاں کھڑے ہیں۔

 عابدصابری نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دشمن اب ’’سی پیک ‘‘کے بھی دشمن ہو تے چلے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ صرف اس وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب قوم متحد رہے۔ہائبرڈ سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کےطریقۂ کار پر تجاویز دیتے ہوئے مقرر نے کہا کہ تمام فریقین کو منصوبے کا حصہ ہونے کے باعث مکمل طور پر اعتماد میں لیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے پاکستانیوں کو مشورہ دیا کہ وہ ’’سی پیک‘‘ کا کریڈٹ لینے یا دینے کی بحث میں  نہ الجھیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کو اسکے حصے کا کریڈٹ دیا جانا چاہیئے تاکہ اس سے منصوبے کے تمام فریقین میں ملکیت کاتصور ابھرے اور وہ ترقی کے عمل میں مدد گار ہو سکیں۔

قائم خانی کا خیالی تھا کہ ’’سی پیک‘‘ امن، ترقی اور خوشحالی کے لئے لوگوں کو آپس میں جوڑ رہا ہے  ۔ تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ملک کو سی پیک کے سماجی پہلوؤں پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے اس منصوبے کو پاکستان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے اسے ایک قومی مقصد قرار دیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک کو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ’’سی پیک‘‘ سے ابھرنے والے مواقع کا درست استعمال کرے تاکہ نہ صرف  معیشت کو مستحکم کیا جا سکے بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے نقصانات کو بھی پورا کیا جا سکے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے