ایرانی جوہری معاہدے سے امریکہ کے خروج پر سفارتی ماہرین کی کڑی تنقید

US-exit-from-Iran-Nuclear-Deal-thumb

ایرانی جوہری معاہدے سے امریکہ کے خروج پر سفارتی ماہرین کی کڑی تنقید

US-exit-from-Iran-Nuclear-Deal

ایرانی جوہری معاہدے سے امریکہ کے خروج کے بعد پاکستان کو ضرورت کی اس گھڑی میں ایران کے لیے ایک متوازن اور غیر جانبدارانہ نقطہ نظر اختیار کرنا چاہیے ۔ سلامتی اور سفارتی شعبے کے ماہرین نے اس رائے کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد اور انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائم افئیرز کے اشتراک سے  آئی پی ایس اسلام آباد میں منعقد ہونے والےایک سیمینار میں کیا ۔سیمینار کا عنوان تھا ’’ ایرانی جوہری معاہدے سے امریکہ کا خروج اور ابھرتی سیاسی  و ارضیاتی حرکیات  ‘‘۔

 سیمینار کی صدارت انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کے چیئرمین ایمبیسڈر  (ریٹائرڈ) خالد محمود نے کی ۔ دیگر مقررین میں کموڈور (ریٹائرڈ) بابر بلال ، ڈائریکٹر نیشنل سنٹرفار میری ٹائم پالیسی ریسرچ (RNCMP)، ائیر کموڈور خالد اقبال ، چئیر مین آئی پی ایس کمیٹی برائے پاکستان جیو سٹریٹیجک اینڈ جیو پولیٹیکل ڈائنامکس ، ایمبیسڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف، سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ ، آئی پی ایس اور کمانڈر (ریٹائرڈ) ڈاکٹر اظہر احمد ، سینئر  ایسوسی ایٹ آئی پی ایس  اور بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ ہیومینٹیزاینڈ سوشل سائنسز کے سربراہ شامل تھے ۔

 مقررین کا خیال تھا کہ جائنٹ کمپری ہنسیو پلان آف ایکشن( JCPO) سے پیچھے ہٹنے نے امریکہ کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے کیونکہ ایک ایسے بین الاقوامی معاہدے کو احترام دینے سے انکا ر کیا گیا ہے جس کی منظوری اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل دے چکی تھی ۔ مزید یہ کہ اس سے ’ سرد جنگ کے فاتح ‘ کی زوال پذیر طاقت کا راز فاش ہو کر رہ گیا ہے  جیسا کہ یورپین یونین جیسے  قریبی اتحادی نے اس معاہدے پر کاربند رہنے کا وعدہ نبھاتے ہوے امریکی قیادت کو ماننے سے انکار کر دیا ہے علاقائی سطح پر اس فیصلے کے باعث ایران اور سعودی عرب کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے جسے ماہرین’ ‘مشرقِ وسطیٰ کی نئی سرد جنگ‘    کا  عنوان دے رہے ہیں ۔ صدر ٹرمپ کے متنازعہ فیصلے نے دوستوں اور اتحادیوں کے درمیان ایک میخ گاڑ دی ہے ۔ صدر ٹرمپ  نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن(NATO) اور ٹرانس اٹلانٹک پارٹنرشپ اگریمنٹ پر متواتر حملہ آور ہو رہے ہیں اور انھیں ’ ’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے ‘‘ کی اپنی کوشش کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں ۔جبکہ امریکہ کی جانب  سے ایٹمی معاہدے کو تتر  بتر کرنے کی امریکی کوشش کی یورپی یونین کی جانب سے پیروی سے انکا رکے باعث ایسے لگتا ہے کہ  یک قطبی دنیا کے دن گنے جا چکے ہیں ۔

بابر بلال نے اپنی پریزنٹیشن میں اپنی رائے کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ معاہدے سے نکلنے کے پیچھے ٹرمپ انتظامیہ کے جو مقاصد ہو سکتے ہیں ان میں اسرائیل کو خوش کرنا، ایران پر مالی دباؤ ڈالنا  اپنے ہتھیار بیچنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی خطرے کو برقرار رکھنا، تیل کی مارکیٹوں کو اپنے قابو میں رکھنا اور اگلے الیکشن کوجیتنا قابلِ توجہ ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے سے امریکی خروج کو خلیجی ممالک کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے جو ایران کو اسرائیل سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں ۔

پاکستان سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمیں  شعوری طور پرسعودی عرب اور بھارت کو سامنے رکھتے ہوئے  متوازن تعلقات قائم رکھنے پر توجہ دینی چاہیے ۔  کموڈور (ریٹائرڈ) بابر بلال نے یہ نکتہ بھی پیش کیا کہ چین ، روس ، پاکستان ، ایران اور ترکی کے اشتراک سے ایک  نئے بلاک  کے ابھرنے کا موقع موجود ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو امریکہ کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کی شکل میں  ایک جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مقرر کا خیال تھا کہ سی پیک منصوبوں کے تحت ملنے والے موقع سے ایران سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔  اس معاملے میں چین کو قیادت سونپی جا سکتی ہے۔ حتی کہ چاہ بہار بندرگاہ  کو  مقابلے کی بجائے گوادر پورٹ میں ایک اضافے کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

ایمبیسڈر(ریٹائرڈ) خالد محمودنےبابر بلال کی رائے سے اتفاق کرتے ہوے کہا کہ امریکہ ایران کا ہر طرح سے گلا دبانے پر تُلا ہوا ہے تاہم اس معاہدے سے دستبرداری  نے اس کی اپنی ساکھ پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔ان کے نذدیک یہ صورتحال پاکستان کی سفارت کاری کا بھی ایک امتحان  ہے ۔ پاکستان کو سعودی  عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کا توازن برقرار رکھتے ہوئے ایران کے ساتھ شعوری طور پر تعاون کرنا چاہیے ۔

ایمبیسڈر(ریٹائرڈ) تجمل الطاف نے گفتکو میں حصہ لیتے ہوئے کہا  کہ دنیا سے امریکہ کو الگ کر دینے والی ٹرمپ کی پالیسیوں نے پورے عالمی نظا م کے ڈھانچے کو داؤ پر لگا دیا ہے جسے اس کے پیش روؤں نے ترتیب دیا تھا۔

ائیر کموڈور(ریٹائرڈ) خالد اقبال نے کہا کہ پاکستان اور ایران کو ایک  منفردموقع ملا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے قریب آئیں اور موجودہ صورتحال میں ایک مضبوط تعلق استوار کریں ۔

ڈاکٹر ا ظہر احمد نے اس خیال کا اظہار کیا کہ چین اور روس  کو قابو میں رکھتے ہوئے امریکہ  اپنی یک قطبی حاکمیت برقرار رکھنا چاہتا ہے ۔ انھوں نے  کہا کہ امریکہ ایک جنگی معیشت کا حامل ہے اور جنگوں کا مسلسل جاری رہنا اس کے ملکی مفادات کا حصہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اگرچہ اس معاہدے سے دستبرداری نے ایران کے لیے چیلنج کھڑے کر دیے ہیں ، تاہم  وہ  نئے علاقائی اور بین الاقوامی روابط اور اتحادوں کو تشکیل دے  کر خود کو مضبوط بنا سکتا ہے ۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے