بڑے ڈیم تنازعات کا باعث ہیں تو چھوٹے ڈیم بنائیں
سابق وفاقی سیکرٹری اور پانی و توانائی کے امور کے نامور ماہر اشفاق محمود نے سالہا سال تاخیر سے آنے والی پاکستان کی پہلی نیشنل واٹر پالیسی کی متفقہ منظوری پر تبصرہ کرتے ہوے کہا کہ دنیا بھر میں اب رائے بڑے ڈیموں کی بجائے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کی طرف مبذول ہورہی ہے۔پاکستان کے لیے بھی یہی سوچ موافق ہے خصوصاً ایسے حالات میں کہ جب بڑے ڈیموں کی تعمیر تنازعات کا باعث بن رہی ہے اوران کی تعمیر پر بھاری قرضوں اور بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی۔
وہ 11مئی 2018کو آئی پی ایس میں منعقد ہونے والے ایک گول میز اجلاس سے خطاب کر رہے تھے جس کا موضوع تھا ’’پاکستان کی نیشنل واٹر پالیسی : ایک جائزہ“۔ اجلاس کی صدارت مرزا حامد حسن، سابق وفاقی سیکرٹری اور آئی پی ایس کی توانائی، پانی اور ماحولیاتی تبدیلی کی کمیٹی کے چیئر مین نے کی۔ مذاکرات کے دیگر مقررین میں پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے سابق ممبر توانائی سید اختر علی، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمٰن اور سابق سفیر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف شامل تھے۔
سائنسی ذرائع سے پانی کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اشفاق محمود نے ایسے طریقہ کا ر وضع کرنے کا مشورہ دیا جن کے ذریعے بارش کے پانی اور گدلے پانی کو صاف کرنے کے بعد قابلِ استعمال بنایا جا سکتا ہے۔ مقرر نے یہ بھی مشورہ دیا کہ گنے اور چاول جیسی کچھ ایسی فصلوں کی بیجائی کومحدود کیا جائے جن کی بڑھوتری کے لیے پانی کی بہت بڑی مقدار درکار ہوتی ہے اور انکی جگہ ایسی فصلوں کی آبیاری کی جائے جنہیں کم پانی درکار ہوتا ہے۔
انھوں نے پانی کے معاملات پر لوگوں میں آگاہی بڑھانے کو بھی ایک اہم طریقہ کار قرار دیا جس پر بھرپورتوجہ کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا کہ لوگوں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ پانی کا استعمال احتیا ط سے کریں ۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سکولوں میں ابتدائی سطح سے یہ موضوع باقاعدہ پڑھایا جائے تا کہ آنے والی نسلوں میں پانی کے احتیاط سے استعمال سے متعلق سوچ پروان چڑھ سکے۔
پاکستان کی پہلی ’’نیشنل واٹر پالیسی‘‘ کی چاروں صوبوں سے منظوری کی تعریف کرتے ہوئے اجلاس میں شریک ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ اس پالیسی کا جلد از جلداطلاق ملک کے اپنے وسائل پر انحصار کر کے کیا جائے نہ کہ دوسروں سے مدد مانگ کر۔
مرزا حامد حسن نے کہا کہ کسی بھی ملک کے لیے پانی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ تاہم ہماری بدقسمتی یہ تھی کہ پالیسی بنانے والوں کے باہمی اختلافات کے باعث اس مسئلے پہ پالیسی کی تشکیل میں اتنا طویل وقت لگ گیا۔ تاہم اب یہ خوش آئند ہے کہ اس مسئلے پر اتفاق رائے نظر آ رہا ہے اور پاکستان کے لیے یہ تاریخی موقع ہے۔
پالیسی سازی کے ماہرین،سابق بیوروکریٹس اور پانی اور بجلی کے امور پر ماہرین کے اس اجلاس میں دیگر قابلِ توجہ سفارشات پر نظر ڈالنے کے ساتھ ساتھ دریائے کابل سے آنے والے پانی کے موثر استعمال اور سندھ طاس معاہدے کی طرز پہ چین اور ایران کے ساتھ بھی معاہدے تشکیل دینے کی سفارش کی گئی۔
جواب دیں