کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں: ایک آگہی
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں مقررین نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اپنے ہی بتائے ہوئے طریقۂ کار کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک جاندار کردار ادا کرے کیونکہ 70 سال سے لٹکا یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں موجود قدیم ترین تنازعہ ہے جس کی قسمت کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
23 جنوری 2018ء کو ہونے والے اس اجلاس کا موضوع تھا ”کشمیر اور اقوام متحدہ کی قراردادیں: ایک آگہی“۔ اس اجلاس کی صدارت ایمبسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف نے کی اور اس سے خطاب کرنے والوں میں ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمٰن اور سٹریٹیجک سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد (SSII) کے ریسرچ ایسوسی ایٹ محمد عبدالقدیر شامل تھے۔
عبدالقدیر نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1948ء کی قرارداد کے مطابق کشمیر کی قسمت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے استصوابِ رائے سے ہونا ہے۔ قرارداد کے فوری بعد استصوابِ رائے کے لیے طریقۂ کار بھی تجویز کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس قرارداد پر عمل درآمد اس وقت سے تعطل کا شکار ہےکیونکہ بھارت اس کی تاخیر کے لیے مسلسل منفی حربے استعمال کرتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدا میں بھارت پاکستان پر الزام عائد کرتا رہا کہ وہ اقوام متحدہ کی اس اولین شرط کو پورا نہیں کر رہا کہ استصوابِ رائے سے پہلے علاقے سے فوجوں کا انخلاء کیا جائے۔ جبکہ اپنے لیے وہ یہ توجیہہ پیش کرتا رہا کہ وہ اپنی فوجوں کا بڑا حصہ اس وقت نکالے گا جب اقوام متحدہ کا کمیشن اس بات کی تصدیق کردے گا کہ پہلے پاکستان نے اپنی افواج نکال لی ہیں۔
سپیکر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کی یہ دلیل 13اگست1948ء کو پیش کی گئی قرارداد کے مطابق اقوام متحدہ کے پاکستان اور بھارت کے لیے قائم کردہ کمیشن (UNCIP) کی طرف سے استصوابِ رائے کے لیے طے کردہ اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اکتوبر 1967ء میں کشمیر پر اقوام متحدہ کے مبصر ڈاکٹر فرانک پی گراہم نے اس مسئلے پر لکھی گئی اپنی طویل نوٹ میں یہ تحریر کیا کہ پاکستانی افواج کی واپسی اس بات سے جڑی ہوئی تھی کہ بھارت اپنی افواج کی کثیر تعداد کو مراحل میں واپس بلائےگا۔ اور اس پر بھارت اور اقوام متحدہ نے رضامندی دی تھی۔ تاہم اس معاہدے کی پاسداری میں ناکامی کے باعث اب تک بھارت اور پاکستان کے درمیان افواج کی واپسی طویل عرصہ سے تعطل کا شکار ہے۔
عبدالقدیر نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اس رپورٹ میں بھارت کو موردِالزام ٹھہرایا گیا تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان دونوں نے کشمیر سے کچھ افواج کی واپسی کی ، تاہم پاکستان نے باقی افواج کی واپسی سے اس وقت تک انکار کر دیا جب تک بھارت 1948ء کی اقوام متحدہ کی قرارداد کے حصہ دوم میں بیان کردہ اصول کے مطابق اقوام متحدہ کے کمیشن کے ساتھ معاہدے کو شکل نہیں دیتا۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 1950ء میں بھارتی حکومت نے استصوابِ رائے سے دستبردار ہوتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد اس کا پابند نہیں کرتی کیونکہ اسے سیکشن 6 کے تحت بنایا گیا ہے اور اس وقت سے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا۔ اب 11/9 کے بعد بھارت بے بنیاد طریقے سے کشمیر کے مسئلے کو دہشت گردی سے جوڑ رہا ہے تاکہ اقوام متحدہ کی پیش کردہ قرارداد کے ذریعے اس کے حل کی کوشش کو سبوتاژ کیا جا سکے۔
اس نوجوان تحقیق کار نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے موجودہ دعوؤں کے جواب میں پاکستان کو کشمیریوں کی حق خودارادیت پر زور دیتے ہوئے کشمیر کی جدوجہد آزادی کو دہشت گردی کے الزام سے الگ رکھنا ہے۔ کیونکہ یہی وہ موقف ہے جو بین الاقوامی اور انسانی حقوق کے قوانین سے مطابقت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قانون جس جدوجہد کو آزادی کی لڑائی کے طور پر ہی شناخت کرتا ہے کشمیر اس کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔
ایمبسیڈر (ریٹائرڈ) تجمل الطاف نے مسئلہ کشمیر پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ بھارت 1948ء میں اس تنازعہ کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں لے گیا۔ بھارت نے وہاں اسے ایک زمینی جھگڑا پیش کرنے کی کوشش کی جبکہ پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ یہ کشمیر کے لوگوں کے حق خودارادیت کا مسئلہ ہے۔ بعدازاں پاکستان کے موقف کو اقوام متحدہ کی قرارداد میں پذیرائی ملی جس میں کشمیر کو ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا گیا اور اس کا فیصلہ استصوابِ رائے کے ذریعے کرنے کا کہا گیا۔
سابق سفیر نے کہا کہ کیونکہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی قرارداد کو تسلیم کیا تھا اس لیے بھارت اس سے لاتعلق ہونے کے لیے اس کوشش میں لگا رہا کہ پاکستان کو اس معاملے سے الگ کر دیا جائے۔ تاہم جب اس کی یہ کوشش بارآور نہ ہوسکی تو اس نے اقوام متحدہ کی قرارداد سے بچنے کے لیے اس تنازعہ کو بین الاقوامی معاملے کی بجائے ایک دوطرفہ معاملہ قرار دینا شروع کر دیا۔
تقریر کے اختتام پر مقرر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس تنازعہ کے تیزرفتار حل کے لیے پاکستان کو بھارت کے ساتھ پائیدار اور بامعنی مذاکرات جاری رکھنے چاہئیں۔
موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمٰن نے پانچ نکات پیش کیے جو کہ پاکستان کی اس مسئلہ میں حکمتِ عملی کا حصہ ہونے چاہئیں۔
- کشمیر ایک غیرحل شدہ مسئلہ ہے اور لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کے مبصرین کی موجودگی اس کی توثیق کرتی ہے۔ چنانچہ بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے بجائے اس کے کہ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑھا کر اس بڑے اور اہم مسئلے کو زومعنی طریقوں سے الجھائے رکھے۔
- اس تنازعہ کی حیثیت کو بالکل واضح ہونا چاہیے۔ بھارت اسے علاقائی مسئلہ بنا کر پیش کرتا رہتا ہے۔ جبکہ پاکستان کے لیے یہ ایک انسانی معاملہ ہے جس میں 1.3 کروڑ کی آبادی کو حق خوداردیت سے محروم کر دیا گیا ہے۔
- مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی خالصتاً مقامی ہے جس میں وہاں کے لوگوں کی پانچویں نسل اس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف پاکستان اس تنازعہ سے کسی بھی طور الگ نہ ہونے والا عنصر ہے۔
- قرارداد پاس ہونے کے بعد اب اقوام متحدہ بھی اس مسئلہ میں ایک پارٹی ہے۔ اور کسی قرارداد کے بغیر بھی یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے تنازعات کو حل کی جانب لے جائے۔
- بھارت کے قبضہ کردہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ترجیحی بنیادوں پر روکا جانا چاہیے۔
خالد رحمٰن نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت چھوٹے اور غیرمتعلقہ معاملات کو نمایاں کرکے پاکستان اور دنیا کی توجہ اس اہم مسئلے سے ہٹانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس کے حقیقی جواز کے لیے مسلسل کوششیں جاری رکھے اور اس قومی اتفاقِ رائے کو یقینی بنائے رکھے کہ کشمیر کے مسئلہ پر حکومت کا موقف سچائی اور زمینی حقائق پر مبنی ہے۔
جواب دیں