اسلامو فوبیا، اسلام اور سیاست
آج کی عالمی سیاست میں مسلمان ایک بہت بڑی تعداد ہونے کے باعث نظرانداز نہیں ہو سکتے لیکن اتنے کمزور ہیں کہ اپنی حیثیت منوا نہیں پا رہے۔ اسلامو فوبیا میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے، اس کا ایک ہی حل ہے کہ مسلمان اپنی علمی اور دانشورانہ صلاحیتوں کو ازسرِنو زندہ اور مضبوط کریں اور اپنے معاشروں میں مثبت اور تعمیری اندازِ فکر کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں۔
ان خیالات کا اظہار 30مارچ 2017ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں ایک علمی نشست میں کیا گیا جو مذہب اور بین الاقوامی امور پر دسترس رکھنے والے نامور امریکی محقق پروفیسر جان ایل ایسپوزیٹو کے ایک لیکچر کے بعد ہوئی۔
یہ دانشور اِن دنوں امریکن اکیڈمی آف ریلیجن کے صدر اور تہذیبوں کے اقوام متحدہ الائنس کے سفیر ہیں۔ اسکے علاوہ وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں مسلم عیسائی تفہیم کے مرکز کے بانی اور موجودہ ڈائریکٹر ہیں۔
معروف پاکستانی مفکّر اور محقّق ڈاکٹرممتازاحمد کی یاد میں منعقد ہونے والے اس خصوصی لیکچر کا عنوان تھا ”اسلامو فوبیا، اسلام اور سیاست“۔ اس لیکچر کی صدارت رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر انیس احمد نے کی اور آئی پی ایس کے ایگزیکٹیو پریذیڈنٹ خالد رحمٰن یونیورسٹی آف لیڈز، برطانیہ کے ڈاکٹر سلمان سیّد اور شکاگو میں مقیم مسلم کمیونٹی راہنما امام عبدالمالک مجاہد بھی مقررین میں شامل تھے۔
شرکاء میں امریکہ سے آئے عیسائی اور یہودی پیشواؤں کے وفد، تحقیق کاروں اور اسلام آباد، راولپنڈی کے مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات شامل تھے۔
مقررین نے مغربی رہنماؤں اور میڈیا کے دوہرے معیار پر تنقید کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ جب انتہا پسند مسلمانوں کی طرف سے دہشت گردی پر مبنی حملے ہوتے ہیں تو ان کا طرزِ گفتگو اور آراء مغربی ممالک اورامریکہ کے ان مظالم پر کی گئی گفتگو سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو ان ممالک نے مشرقِ وسطی ، افغانستان اورتیسری دنیا کے دیگر حصوں میں بڑے پیمانے پر روا رکھا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ جب مصر میں صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو اوبامہ سمیت مغربی رہنما لفظ ” بغاوت“ کا استعمال نہ کرنے میں انتہائی محتاط تھے۔
ایسپوزیٹونے کہا کہ اسلام فوبیا ایک حقیقی اور سنجیدہ معاملہ ہے۔ اگرچہ یہ ہمیشہ سے وجود رکھتا ہے لیکن امریکہ کے صدارتی انتخابات کی مہم میں اس کے اندر ایک نمایاں اضافہ دیکھنے کو ملا اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ اسے قانونی حیثیت ملتی جارہی ہے۔ صورتِ حال نہ صرف امریکہ میں تشویشناک تھی بلکہ یورپ اور آسٹریلیا سمیت دنیا بھر اس نفرت کی لہراٹھ رہی ہے۔
مقررین نے کہا کہ اسلاموفوبیا مسلمانوں کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھا گیا ہے لیکن دراصل یہ انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔حقیقی معنوں میں یہ امریکہ اور یورپی معاشروں میں رہنے والے مسلمانوں اور مسلمان معاشروں میں رہنے والے غیرمسلموں کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے دانشوروں، نوجوانوں اور تحقیق کاروں پر زور دیا کہ وہ اسےاپنی تحقیق کا موضوع بنائیں کیونکہ یہ توجہ طلب پہلو ہے۔
مقررین کا خیال تھا کہ اسلامو فوبیا کی ایک وجہ مسلم اداروں کی کمزوری اور قیادت کا فقدان ہے۔ انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلاموفوبیا کو شدیدتر بنانے میں امریکی اور یورپی میڈیا کا کردار انتہائی خوفناک ہے۔
جواب دیں