فاٹا کی قومی دھارے میں شمولیت ناگزیر ہے، پالیسی مکالمہ
وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کی موجودہ انتظامی حیثیت کو برقرار رکھنا اب کسی طورممکن نہیں ہے۔ اسے جلد از جلد قبائلی عوام کی خواہشات کے مطابق تبدیل کرنا ہو گا۔ اس کے لیے بہترین طریقہ یہ ہو گا کہ یا تو ریفرنڈم کروایا جائے یا اس علاقے کے عمائدین اوراصحاب الرائے سے وسیع پیمانے پر مشاورت کا عمل کیا جائے۔
یہ اس پالیسی مکالمہ کا حاصل ہے جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کے زیر اہتمام ’’فاٹا اصلاحات: تجاویز، مضمرات اور راستے‘‘ کے زیرِعنوان ۲۱دسمبر ۲۰۱۵ کو منعقد ہوا۔
مذکورہ پروگرام فاٹا کے حوالے سے ماضی قریب میں تسلسل کے ساتھ ہونے والے غوروفکر اور مکالمے کے ایسے ہی پروگراموں کی ایک تازہ کڑی تھی۔ اس موضوع سے وابستہ اہم ترین شخصیات جنہوں نے اس پروگرام میں شرکت کی ان میں عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور سابق صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین، فاٹا ڈائریکٹوریٹ کے سابق سیکرٹری حبیب اللہ خان، فاٹا سے سابق ایم این اے اور جماعت اسلامی کے رہنما ہارون الرشید سابق سفیر ایاز وزیر، زیڈ کامز سنٹر فار ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر اشرف علی، پشاور یونیورسٹی میں پاکستان اسٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فخرالاسلام، آئی پی ایس ایسوسی ایٹ اور دفاعی امور کے تجزیہ کار بریگیڈیر (ریٹائرڈ) سید نذیر، کمانڈر(ریٹائرڈ) ڈاکٹر اظہر احمد اور آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمٰن شامل ہیں۔
بریگیڈیر (ریٹائرڈ) سید نذیر نے اپنی کلیدی پریزنٹیشن میں فاٹا کی دستوری اور سیاسی تاریخ کا جائزہ پیش کیا اور دستور پاکستان کی دفعہ 247 میں ترمیم کی تجویز دی تاکہ قبائلی عوام کو بنیادی آئینی حقوق دیے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ رائے عامہ کی بنیاد پر فاٹا کے مستقبل کے لیے تین بڑے آپشنز سامنے آتے ہیں: (1) خیبر پختونخوا میں انضمام، (2) اس کی حیثیت فاٹا کے بجائے پاٹا (صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقے) والی کر دی جائے، یا (3) الگ صوبہ بنا دیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہر قبائلی ایجنسی میں ان تین آراء پر ریفرنڈم کروایا جائے۔
ڈاکٹر فخرالاسلام نے کہا کہ پہلے صرف فاٹا سے تعلق رکھنے والاتعلیم یافتہ اور باشعور طبقہ قبائلی علاقے کے لیے اصلاحات کی بات کرتا تھا تاہم اب دہشت گردی اور فوجی آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں قبائلی عوام کے اندربندوبستی علاقوں میں رہنے کے بعد اپنی سرزمین اور اپنے علاقے کی حیثیت کو پاکستان کے دوسرے علاقوں کے برابرلانےکا جذبہ بیدار ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے یا اسے الگ صوبے کا درجہ دینے کا فیصلہ قبائلیوں کو خود کرنا چاہیے۔ کوئی بھی حل ان پر تھوپنا منفی نتائج کا حامل ہو گا۔ یہاں کے عوام کی رائے حاصل کرنے کے لیے ایک مرحلہ وار ریفرنڈم اس علاقے کی تمام سات ایجنسیوں اور چھے فرنٹیر ریجنز میں الگ الگ کروایا جائے۔ فاٹا کے عوام 2010ء میں دستور میں ہونے والی اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر اپنی اصلاحات اس میں شامل کروانے کا موقع کھو چکے ہیں، اب ایک اور موقع ان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ یہ موقع اس لحاظ سے زیادہ اہم ہے کہ پرانے نظام کو ختم کرنے اور نئے نظام کے قیام کے لیے اب ایک اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ سیاسی قوتوں اور پارلیمانی ارکان کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر محض اپنی پارٹی کے مفادات دیکھنے یا سیاسی لحاظ سے نمبر بنانے کے بجائے خلوصِ دل سے قبائلیوں کی حمایت کریں۔
میاں افتخار حسین نے کہا کہ جو فیصلہ بھی ہو وہ کثرتِ رائے کی بنیاد پر کر لیا جائے کیونکہ اس مسئلہ کے حل کے لیے کسی ایک آپشن پر مکمل اتفاقِ رائے شائد ممکن نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کی ایجنسیاں آپس میں سڑکوں کے ذریعے بھی منسلک نہیں ہیں۔ اتنی پیچیدہ صورتِ حال میں کسی ایک حل پر سب کا متفق ہونا مشکل ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ فاٹا کو نظرانداز کیے رکھنے اور اس کی مایوسی میں اضافہ کرتے چلے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے، اب وقت آگیا کہ قبائلی عوام، ان کے رہنما، خصوصاً فاٹا سے منتخب ہوانے والے پارلیمانی رہنما آگے آئیں۔ انہیں بااختیار بنایا جائے اور اپنے معاملات کے فیصلے خود کرنے کا اختیار دیا جائے۔ فاضل مقرر نے جنگ سے متاثرہ علاقے فاٹا کی بحالی کے لیے اپنی تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ دستورِ پاکستان کی عمل داری فاٹا تک بڑھائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ترقیاتی کاموں میں تیزی لائی جائے، خصوصاً پاک چین اقتصادی راہداری سے اس علاقے کو منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا جائے۔
ایاز وزیر نے خیال ظاہر کیا کہ معاملات کو آگے بڑھانے کا واحد عملی راستہ یہ ہے کہ مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والے کسی فرد کو وہ اختیار دیا جائے جو کہ فاٹا کے معاملات کے حوالے سے گورنر خیبر پختونخوا کو حاصل ہے اوروہ پہلے عوام میں اس مسئلہ کی نوعیت سے آگاہی پھیلانے کا کام کرے۔ اس کے بعد ہی کسی ممکنہ حل کے لیے ریفرنڈم کروانے کا مرحلہ آئے گا۔ انہوں نے فاٹا اصلاحات کمیٹی کی ہیئت پر بھی سخت تنقید کی جس میں اس علاقے سے کسی کی بھی نمائندگی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کمیٹی کے ارکان نہ تو اس علاقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور نہ عوام کی بلکہ یہ صرف حکومت کے نامزد کردہ ہیں۔
حبیب اللہ خان نے کہا کہ فاٹا کے مسئلہ کا دستوری حل آسانی کے ساتھ ممکن بنایا جا سکتا ہے، اگر حکومت اس مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اصلاحات صرف اسی وقت قابلِ قبول ہوں گی جب یہ فاٹا کےحقیقی نمائندوں کی جانب سے آئیں اور مشوروں کا عمل شروع ہونے سے پہلے بڑے پیمانے پر ان سے آگاہی پھیل چکی ہو۔ اس کے بعد ریفرنڈم کا انعقاد ہو سکتا ہے جو فاٹا کے مستقبل کا حتمی فیصلہ کرے۔
ہارون الرشید نے وفاقی زیرِانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کو صوبائی زیرِانتظام قبائلی علاقے (پاٹا) میں تبدیل کرنے کی وکالت کی اور دعویٰ کیا کہ حال ہی میں 2 نومبر 2015ء کو اسلام آباد میں ہونے والے جرگے میں ان کی جماعت (جماعت اسلامی) نے اس حل پر اتفاقِ رائے پیدا کروا دیا تھا۔
ڈی جی آئی پی ایس خالد رحمن نے اپنے اختتامی کلمات میں اس بات پر دلی مسرت کا اظہار کیا کہ اس وقت حکومت اورقبائلی عوام دونوں ہی فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اس صورتِ حال کو مسئلہ یا خطرہ بنانے کے بجائے ایک مثبت اور تعمیری موقع بنانے اور آگے بڑھ کر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے فاٹا کے عوام کی خواہشات کے مطابق دستوری، سیاسی، جمہوری اور ساختیاتی اصلاحات کا راستہ ہموار ہو سکے۔
جواب دیں