پاک بھارت تعلقات: مودی سرکار کا رویہ اور پاکستان کا جواب
بھارت کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ نہ صرف پاکستان سے نفرت ہے بلکہ کشمیر جیسے اہم ترین اور قدیمی مسئلے کو مسلسل نظرانداز کرتے ہوئے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنا اور اسے دنیا سے کاٹ کر الگ تھلگ رکھنا ہمیشہ سے بھارت کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ یہ صرف آج کی مودی حکومت کی پالیسی نہیں ہے بلکہ اس حکومت کو تو یہ پالیسی ورثے میں ملی ہے، البتہ اس کی ہندتوا ذہنیت نے اس میں مزید رنگ ڈال دیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار مقررین نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں کیا، جس کا عنوان تھا: ’’پاک بھارت تعلقات: مودی سرکار کا رویہ اور پاکستان کا جواب‘‘۔ 15 ستمبر2015ء کو ہونے والے اس سیمینار میں جن مقررین نے اظہارِ خیال کیا ان میں ایئرکموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال، خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار سید محمد علی، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن، بریگیڈیر (ریٹائرڈ) سید نذیر، سابق سفیر ایاز وزیر، سابق سفیر آصف ایزدی، کشمیری رہنما سید علی گیلانی کے اسلام آباد میں نمائندے غلام محمد صفی اور سابق وفاقی سیکرٹری حکومت پاکستان مسعود داہر شامل تھے۔
سیمینار کے شرکاء کا اس بات پر اتفاق تھا کہ موجودہ بھارتی حکومت بھی گزشتہ بھارتی حکومت کی طرح جنگ کو خارجہ پالیسی کے ایک اوزار کے طور پر استعمال کر رہی ہے جب کہ پاکستان کی جانب سے بڑے پڑوسی ملک کے بالادستی کے جارحانہ منصوبوں کے خلاف ردِّعمل روایتی طور پر مدافعانہ اور سدِّجارحیت کے کم سے کم ممکنہ ذرائع کو یقینی بنانے تک محدود ہے۔
گفتگو میں حصہ لینے والے بہت سے شرکاء کا خیال تھا کہ پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر جارحانہ انداز اپنانا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ کشمیر کے مسئلے کے بارے میں آگہی پھیلانی چاہیے جہاں بھارت کے رویے اور حکمت عملی نے خطے کے دیرپا امن کے لیے شدید خطرات پیدا کر دیے ہیں۔
اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان کے پالیسی سازوں کو خود بھارت سے یہ سیکھنا چاہیے کہ اس نے کس طرح بیک وقت سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سے؛ امریکہ اور چین سے؛ اور سرد جنگ کے زمانے میں روس اور امریکہ سے اچھے تعلقات رکھے اور اپنے مفادات کو تقویت دی۔ جب کہ پاکستان نے عمومی طور کسی ایک بین الاقوامی کھلاڑی کی طرف داری کا رویہ اپنایا۔
سیمینار میں قومی اتفاقِ رائے کے حامل اقدامات کی حمایت کا اظہار کیا گیا جن میں آپریشن ضربِ عضب، افغان حکومت سے تعلقات میں بہتری اور پاک چین اقتصادی راہداری کی راہ میں ہر رکاوٹ کو دور کرنے کا عزم شامل ہیں۔
جواب دیں