سیمینار: مذہب، سیکولرزم اور سماجی و معاشی ترقی
’’ترقی کا سرمایہ دارانہ تصور یہ ہے کہ روایتی معاشرے اور تمدن کو ایک ایسے ’’جدید معاشرے‘‘ کی طرف بڑھایا جائے جس میں روایتی عقائد اور عملی رویوں کو جدیدیت، سیکولر اقدار اور’’ٹیکنو کلچر‘‘ کے مطابق تشکیل دیا گیا ہو۔ اس کے برعکس اسلام تقسیم کے اس سیکولر تصور کو ردّ کرتا ہے جس میں ’مقدس‘ اور ’غیرمقدس‘ اور ’مذہبی‘ اور ’دنیاوی‘ امور کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔ اسلام پوری زندگی کو ایک اکائی کے طور پر دیکھتا ہے خصوصاً وہ سماجی و معاشی اور سیاسی پہلو کو بہت اہمیت دیتا ہے۔‘‘
ان خیالات کا اظہار معروف اسکالر اور تقابلِ ادیان اور اخلاقیات کے پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے ایک لیکچر میں کیا، جس کا عنوان تھا: ’’مذہب، سیکولرزم اور سماجی و معاشی ترقی‘‘۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں یہ توسیعی لیکچر ۲۶ اگست ۲۰۱۵ء کو اسلامک فنانس ریسورس سنٹر، ہیلپنگ ہینڈ فار ریلیف اینڈ ڈویلپمنٹ (HHRD) کے تعاون کے ساتھ منعقد ہوا۔
ڈاکٹر انیس احمد نے عالمی سطح پر مروجہ اس تصور کو ردّ کیا جس کے مطابق سماجی و معاشی ترقی کا راستہ مغرب کی پیروی کرنے کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فکر و فلسفہ میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ سماجی و معاشی ترقی صرف اسی وقت ممکن ہے جب لوگوں کے ذہنوں سے ’’مذہب‘‘ اور ’’مذہبی تصورات‘‘ کو نکال کر ان کی جگہ جدیدیت، روشن خیالی اور حقیقت پسندی اور عملیت پسندی جیسے تصورات ڈال دیے جائیں۔ اور مذہب کا دائرہ انفرادی معاملات تک محدود کر دیا جائے اور اسے معاشرے اور ریاست کے معاملات سے بے دخل کر دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام ایک ہمہ گیر ترقی کی دعوت دیتا ہے، جس میں انسانی شخصیت، معاشرہ، تعلیم، قانون، معیشت، سیاست اور زندگی کے دیگر پہلوئوں کو ایک بالا تر ہستی کی جامع تعلیمات کے مطابق منظم کیا جائے۔ جب کہ سیکولر اپروچ کے مطابق انسانی فکر اور تجربہ ہی حتمی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے اور وہ کسی بالاتر خدائی تعلیمات کی ضرورت سے انکار کرتا ہے۔ اسلام ایک ایسا نظریۂ حیات دیتا ہے جو اپنے ماننے والوں کو ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کے لیے متحرک کرتا ہے جہاں معاشی و سماجی ترقی کے یکساں مواقع سب کو حاصل ہوں تاکہ اس دنیا میں بھی اور اُخروی زندگی میں بھی انسان کامیابی حاصل کرسکے۔
جواب دیں