افغانستان سے نیٹو کا انخلاء اور چین کا کردار
کسی سنجیدہ مقصد کے بغیر شروع کردہ جنگ دکھ بھری داستانوں اور تباہی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچی۔ اسے شروع کرنے والی حکومت نے نہ تو اس سے کوئی نیک نامی کمائی اور نہ ان قوموں نے جو اپنی افواج کے ساتھ اس میں کود پڑی تھیں سیاسی، عسکری یا کسی بھی نوعیت کے قابل ذکر فوائد سمیٹے۔
افغانستان مشن سے نیٹو افواج کی واپسی کے موقع پر مغربی میڈیا میں زیربحث نکات کا ایک جامع تجزیہ ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ڈاکٹر نجم عباس نے پیش کیا۔ وہ 2 جنوری 2015ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں منعقدہ ایک اجلاس سے مخاطب تھے جس کا موضوع تھا ’’نیٹو انخلاء کے بعد کا افغانستان اور چین کا کردار‘‘۔
نجم عباس نے شنگھائی کو آپریٹو آرگنائزیشن کی اہمیت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا کہ ایس سی او فورم پر افغانستان کے موضوع کی حیثیت ثانوی ہی رہی اور رکن ممالک کی طرف سے اس مسئلے پر اٹھائے گئے اجتماعی اقدامات یا مشترکہ کوششوں کو درخورِ اعتناہی نہیں سمجھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے ایس سی او کی مشاورت مسئلے کے پائیدار حل کے لیے کی گئی کسی کوشش کے بجائے محض سرگرمیوں کا اظہار ہی نظر آتی ہے۔
مقرر نے کہا کہ ایس سی او کو افغانستان مسئلے پر اپنے بیانیے اور اجتماعی اقدامات کو ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اسے چاہیے کہ اس ضمن میں ٹھوس اقدامات اٹھائے اور اپنے پلیٹ فارم کو ایک بڑا کردار ادا کرنے کے لیے استعمال کرے۔ انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایس سی او ایسا کردار ادا کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو اس سے مستقبل میں اس کی اہمیت کم ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر نجم کا کہنا تھا کہ ستمبر ۲۰۱۴ء میں دوشنبے، تاجکستان میں منعقد ہونے والی ایس سی او سربراہی کانفرنس کے بعد سے چین کے مقتدر حلقے اس بات پر آواز بلند کرتے رہے ہیں کہ تنظیم کو علاقائی امن اور ترقی کے وسیع تر مفاد کی خاطر افغانستان کے استحکام، معاشی مضبوطی اور ترقی کے عمل کو معمول پر لانے کے لیے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ امید کا یہ چشمہ ایک نئے دور کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے جس میں یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ چین افغانستان میں انفرادی سطح پر اور ایس سی او کے تحت کثیر فریقی حیثیت میں مزید کردار ادا کرے گا۔
آئی پی ایس کے سینئر ایسوسی ایٹ ایمبسیڈر (ریٹائرڈ) ایاز وزیر، کموڈور (ریٹائرڈ) ڈاکٹر اظہر احمد اور سکواڈرن لیڈر (ریٹائرڈ) طارق عبدالمجید نے بھی افغانستان کے ساتھ ساتھ علاقائی صورت حال پر ابھرنے والے نئے منظر نامے پر اپنے بصیرت افروز خیالات کا اظہار کیا۔
جواب دیں