مشرق وسطیٰ کے حالیہ انقلابات: اثرات و نتائج

arab-spring

مشرق وسطیٰ کے حالیہ انقلابات: اثرات و نتائج

 مشرقِ وسطیٰ خصوصاًمصر، لیبیا، شام، فلسطین اور تیونس و الجزائر گذشتہ پچاس سالوں میں مغربی تجزیہ نگاروں کی تحقیق کا خاص موضوع رہے ہیں۔ جامعات میں ان مسلم ممالک میں ابھرنے والی سیاسی، معاشرتی اور دینی تحریکات پر تحقیقی مقالات لکھے جاتے رہے ہیں اور صحافت کے میدان میں علمی جرائد سمیت شاید ہی کوئی شمارہ ایسا ہو جس میں مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ہونے والی صورت حال پر کوئی مقالہ یا رپورٹ ہر ماہ طبع نہ ہو رہی ہو۔

لندن سے طبع ہونے والے ہفتہ وار Economist اور امریکہ سے طبع ہونے والے ہفتہ وار Time اور Newsweek میں ہر ہفتہ کسی ایک ملک پر خصوصی مقالہ یا تصویری رپورٹ اشاعت کا حصہ ہوتی ہے۔ عام صحافیانہ جرائد کو چھوڑتے ہوئے اگر علمی جرائد کا جائزہ لیا جائے تو Foreign Affairs، Journal of Democracy، Global Security Study، Washington Quarterly، Current History، Middle East Journal اور دیگر علمی جرائد مشرقِ وسطیٰ کے حالات کے تناظر میں وقفے وقفے سے امریکہ کے پالیسی ساز اداروں، انتظامیہ اور فکری حلقوں، تھنک ٹینکس کی سوچ، ردّعمل، خدشات اور حکمت عملی کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ ’’بہارِ عرب‘‘ (Arab Spring) کے حوالہ سے اگر ان جرائد کا جائزہ لیا جائے تو مغربی فکر کے اہم خدوخال کو پانچ نکات میں اختصار کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔

پہلی اہم چیز جو ابھر کر سامنے آتی ہے وہ مغربی مفکرین کا مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت کے حوالہ سے یہ تاثر ہے کہ عرب دنیا میں نہ جمہوری روایات پائی جاتی ہیں اور نہ بظاہر اس روایت کے پنپنے کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اکثر مفکرین عرب دنیا کے سیاسی نظام کو پانچ اقسام میں بانٹتے ہیں: اوّلاً آمرانہ (Authoritarian)، ثانیاً جابرانہ یا استبدادی (Totalitarian)، ثا لثاً بعد جابرانہ (Post Totalitarian)، رابعاً سلطانیت یا بادشاہت (Sultanestic)، اور خامساً جمہوری (Democratic)۔ ان میں ایک چھٹی قسم کا اضافہ، جو دوطرزِ فکر کا مجموعہ کہا جا سکتا ہے، کیا جاتا ہے یعنی آمرانہ-جمہوری ملاپ (Authoritarian-Democratic Hybrid) ۔۱

اس چھٹی قسم کو مصر سے وابستہ کیا جاتا ہے جہاں حسنی مبارک اور ان کے بعد جنرل سیسی کے نظامِ حکومت میں قوت و اختیار مکمل طور پر صدر کے ہاتھ میں مرتکز پایا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب ایک ایوان نمائندگان کا وجود بھی پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ Post-Totalitarian کی اصطلاح کا عرب ممالک میں اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ وہاں کسی نہ کسی شکل میں آمریت پائی جاتی ہے۔

مغرب کی یہ تنقید کہ عرب ممالک بادشاہتوں اور آمریتوں کی بنا پر آزادی اور مغربی جمہوریت سے ناآشنا ہیں۔ بظاہر بہت معقول نظر آتی ہے لیکن یہ مغربی نقاد اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ ان بادشاہتوں اور فوجی یا نیم فوجی آمریتوں کو کس کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ کیا ان ممالک کے عوام کی ۲۵ فی صد آبادی نے بھی کبھی ان آمروں اور بادشاہوں کو اعتماد کا ووٹ دیا ہے؟ دوسری جانب مغربی ممالک نے ان آمروں کو فوجی اور معاشی امداد کے ذریعہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نہ صرف گوارا کیا ہے بلکہ ان کے ہاتھ مضبوط کرنے میں اور انہیں جدیدیت (Moderation) اور ترقی (Progress) کے پیغامبر باور کرانے میں کردار ادا کیا ہے۔

اگر گذشتہ دو سو سالوں میں برپا ہونے والے اہم سیاسی انقلابات پر ایک نظر ڈالی جائے تو ۱۷۷۶ء کا امریکی انقلابِ آزادی ہو یا ۱۷۸۹ء کا فرانسیسی انقلاب اور بیسویں صدی میں ۱۹۱۷ء کا اشتراکی انقلاب، یہ تینوں بڑے تاریخی سنگِ میل معاشی، استحصالی یا طبقاتی تضاد اور عوام اور برسراقتدار طبقہ کے درمیان ٹکرائو کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ عرب دنیا میں انقلاب کی لہر ایک نئے رجحان کا پتہ دیتی ہے۔

مصر ہو یا لیبیا یا تیونس و الجزائر، اگر ان کی صرف پچاس سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ اقتدار پر قابض فوجی اور غیرفوجی آمروں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو اسلام پسند قوتوں کو کمزور کر سکے۔ چاہے وہ تیونس کے بن علی کی تعلیم، معیشت اور ثقافت کے ذریعہ ملک کو مکمل طور پر مغربیت میں غرق کرنے کی حکمت عملی ہو یا مصر میں برطانوی اور امریکی تعلیم، ثقافت اور لادینیت کو فروغ یا  لیبیا میں قذافی کی اسلام دشمنی اور اباحیت پسندانہ پالیسی، مغربی طاقتوں کی پشت پناہی ایسے تمام حکمرانوں کو حاصل رہی۔ الجزائر میں نوے کی دھائی میں جب لوکل باڈیز کے انتخابات نے یہ بات واضح کر دی کہ جلد ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اسلام پسند بھاری اکثریت سے کامیاب ہوں گے تو فوج نے امریکی سامراج کی مدد سے ملک میں جمہوری عمل کا اسقاط اور بڑے پیمانے پر اسلام پسند افراد کے قتلِ عام اور گرفتاریوں کے ذریعہ اسلام پسندوں کے جمہوری ذرائع سے کامیاب ہونے کے تمام راستے بند کر دیے۔

فروری ۲۰۱۱ء میں مصر میں حسنی مبارک کے خلاف انقلاب اور پھر عوامی انتخاب میں منتخب ہونے والے صدر مرسی کے ساتھ فوج نے جو سلوک کیا وہ جمہوری اداروں کا روزِ روشن میں قتل تھا لیکن مغربی سامراج نے صدر مرسی کو ’’شدت پسند‘‘، ’’بنیاد پرست‘‘ وغیرہ قرار دیتے ہوئے جمہوریت کے قتل پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا بلکہ مغربی سامراج کے زیر اثر بعض مسلم ممالک نے مغربی سامراج کے اشاروں پر آگے بڑھ کر بھاری مالی امداد کے ذریعہ فوجی آمریت کو استحکام دیا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا۔

تیونس میں بھی مغربی لابی نے پوری کوشش کی کہ اسلام دوست جماعت النہضہ کو بطور ایک انتہا پسند جماعت کے بدنام کیا جائے لیکن النہضہ کے قائد راشد غنوشی کی حکمت عملی اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کی بنا پر وہ اپنے ارادوں میں ناکام رہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مغرب کو خطرہ کس چیز سے ہے اور کیا وجہ ہے کہ مغربی طاقتیں فوجی اور نیم فوجی آمروں اور بادشاہوں کی پشت پناہی کرنے اور جمہوری ذریعے سے منتخب ہو کر آنے والے اسلام پسند افراد کو روکنے میں اپنی تمام قوت لگاتی ہیں۔

بات بہت آسان اور سادہ سی ہے۔ قرآن کریم نے کفر کو ملت واحدہ قرار دیتے ہوئے یہ اصول ہمارے سامنے رکھ دیا ہے کہ جب بھی معرکۂ حق و باطل ہو گا کفر اور شرک کی قوتیں اپنی پوری کوشش صرف کریں گی کہ اس نور ہدایت کو جس کا منبع قرآن و سنت ہیں اپنی پھونکوں سے بجھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ کفر و شرک کے اتحاد کو ناکام بنانے کا راستہ بھی قرآن کریم نے واضح کر دیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ پر مکمل ایمان، استقامت، صبر، یک جہتی، خلوص اور دینی حکمت عملی کے ذریعہ حق کو قائم کرنے کی مسلسل جدوجہد۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے معاملہ میں وہاں کی تحریک اسلامی نے معاملات میں سادہ لوحی (Naivety) کا ثبوت دیا جو ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔ مثلاً حسنی مبارک کے زمانے کے اعلیٰ فوجی افسران کے بارے میں یہ خوش فہمی کہ وہ عوام کے براہِ راست منتخب صدر کا احترام کرتے ہوئے وزارتِ داخلہ جیسے حساس شعبہ کو صدر کی مرضی کے مطابق چلائیں گے اور صدر کی بات کو سچے دل سے مان کر اطاعت امیر کا نمونہ پیش کریں گے۔

ثانیاً عیسائی اقلیت کے بارے میں یہ خیال کہ وہ بھی نفاذ شریعت کے لیے دستوری ترامیم کا استقبال کریں گے کیونکہ اسلام اہل کتاب کو وہ تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے جو بہت سے لادینی ممالک میں بھی انہیں حاصل نہیں ہیں۔

ثالثاً یہ تصور کہ ملک کے لادینی عناصر جو گذشتہ ۷۰ سال سے اخوان المسلمون کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور خصوصاً سیکولر میڈیا جو اخوان کو بنیاد پرست، شدت پسند، مذہبی جنونی وغیرہ جیسے القاب سے یاد کرتا تھا، وہ جمہوری اقدار کا احترام کرتے ہوئے تحریک اسلامی کے برسراقتدار آنے کو گوارا کر لے گا۔

رابعاً یہ سادہ لوحی کہ اخوان المسلمون کے کھلم کھلا فلسطین کے مسئلہ پر موقف کو جاننے کے باوجود مغربی سامراج یہ گوارا کر لے گا کہ وہ مصری خفیہ ادارے جو فوج کے مکمل تعاون سے اسرائیلی مخابرات کے ساتھ ۳۰سال سے تعاون کر رہے تھے اچانک صدر کے منتخب ہو جانے کی بنا پر وفاداری تبدیل کر دیں اور اپنے بیرونی خدائوں اور اپنی طویل وابستگیوں کو چھوڑ کر امتِ مسلمہ کے مفاد کی خاطر اسرائیل مخالف رویہ کو قبول کر لیں گے۔

خامساً یہ سادہ لوحی کہ بعض دینی حضرات جو اخوان المسلمون کی اسلام کی حرکی تعبیر سے اختلاف رکھتے تھے اور جو مسلک کی بنا پر بعض مسلم ممالک سے ذہنی وابستگی رکھتے تھے۔ مصر میں اس تبدیلی کو پسند کریں گے اور اپنے مسلکی تعصب سے بلند ہو کر ملک میں اسلام کے احیاء کے لیے کم از کم اخوان کی مخالفت نہیں کریں گے۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ بھی ایک خوش فہمی تھی۔

ان تمام خوش فہمیوں کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ خصوصاً مصر کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی اصلاحات کو متعارف کرانے میں جلدی کرنا بھی حکمت و فراست کا تقاضا نہیں تھا۔ ان تمام اسباب نے ایک سال کے اندر اندر اخوان المسلمون کو دوبارہ اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں سے اس نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کئی سال قبل کیا تھا۔

اس کے مقابلہ میں تیونس میں النہضہ کی قیادت نے جس دانشمندی، سیاسی فراست اور طویل المیعاد حکمت عملی کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف تیونس بلکہ دیگر مسلم ممالک کی تحریکات اسلامی کے لیے سوچنے کے زاویے اور سیاسی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے اہم نکات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

اسلامی تحریکات کے خلاف جو غلط فہمیاںایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت پھیلائی جاتی رہی ہیں ان میں خواتین کے حوالہ سے حقوق کی پامالی اور ان کو کم تر معاشرتی مقام دیا جانا، مذہبی شدت پسندی، قدامت پرستی، مغرب دشمنی، جمہوریت دشمنی اور بے لچک طرزِ عمل کو نمایاں مقام حاصل ہے۔

تیونس میں فرانسیسی ثقافت کے اثرات اور مغربیت کے زیر اثر ان غلط فہمیوں کو ابلاغ عامہ اور دیگر سرکاری ذریعے سے عام کیا جاتا رہا ان الزامات کو رد کرنے کے لیے النہضہ نے جو حکمت عملی مرتب کی اس کے نمایاں پہلو دیگر تحریکات اسلامی کے غور کرنے کے لیے مواد فراہم کرتے ہیں۔

لیکن اہم چیز یہ کہ راشد غنوشی نے گذشتہ بیس سال کے عرصہ میں، جس میں بڑا حصہ برطانیہ میں جلاوطنی میں گزرا، اپنی تقریر اور تحریر میں ایک ہی بات کو مختلف انداز سے بیان کرتے رہے کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور اگر انہیں موقع ملا تو صحیح جمہوری روح کو تیونس میں رائج کریں گے، مزید یہ کہ اسلام اور مغربی جمہوریت میں بہت سے مشترک پہلو پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک ایسا نظام قائم کیا جا سکتا ہے جہاں حقوق انسانی کا احترام، خواتین کے لیے باعزت ماحول اور معاشی استحصال کا خاتمہ کیا جائے۔

دوسری اہم بات یہ کہ راشد غنوشی نے ذاتی سطح پر سیکولر لابی کے قائدین کے ساتھ ذاتی تعلقات اور باقاعدگی سے ملاقاتوں کا سلسلہ قائم کیا تاکہ ان کے نظریاتی مخالفین بھی کم از کم ان سے ذاتی تعلق کی بنا پر دشمنی کا رویہ اختیار نہ کریں اور اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کریں۔ یہ ایک بہت اہم پہلو ہے جسے عموماً تحریکات اسلامی نظر انداز کر جاتی ہیں۔ نتیجتاً آپس میں تبادلۂ خیال نہ ہونے سے اور ایک دوسرے کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے سبب فاصلے، اجنبیت کی دیواریں اور بعض اوقات بے بنیاد تصورات تحریکی قیادت اور دیگر جماعتوں، اہل فکر کے حلقوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔

تیونس میں بن علی اور بورقیبہ نے دینی تعلیم کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ اس کے باوجود النہضہ نے مساجد اور تعلیم گاہوں کو اپنی سرگرمی کا مرکز بنایا اور عوام تک اپنے پیغام کو لے جانے کے لیے عوامی مسائل کے حوالے سے اپنے مجوزہ حل کو مساجد اور مدارس میں عام کیا۔ ان کی مطلوبہ اصلاحات میں اسلامی تعلیمات کا احیاء سرفہرست تھا۔ راشد غنوشی کی بیٹی نے حجاب کے ساتھ سیاسی تقریبات میں شرکت کی اور برقی ابلاغ عامہ پر النہضہ کے موقف کو مسلسل پیش کیا۔

تیونس کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ رابطے اور تبادلۂ خیالات کے نتیجے میں ان جماعتوں نے انتخابات کے بارے میں ایک مشترکہ پالیسی اختیار کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ دستور بن جانے کے آٹھ ماہ کے اندر تازہ انتخابات منعقد ہو جائیں۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اگر ان انتخابات میں النہضہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے میں ناکام رہے تو النہضہ پُرامن طور پر حکومت سے مستعفی ہو جائے گی۔ کابینہ کے تقرر میں بھی النہضہ نے غیرمعمولی لچک کا مظاہرہ کیا اور اس پر اصرار نہیں کیا کہ انہیں چند خاص وزارتیں دی جائیں۔

اس کے مقابلہ میں لیبیا میں قذافی نے اور عراق میں صدام نے فوجی آمریت یا سلطانی طرزِفکر کا مظاہرہ کیا جس کے نتائج جلد یا بدیر سامنے آ کر رہے۔ یہی شکل حسنی مبارک نے اختیار کی اور اپنے اور اپنے بیٹے کے لیے راہ ہموار کرنے کے ساتھ مالی بدعنوانیوں اور فوج کو غیر معمولی مراعات دے کر اپنے دور حکومت میں توسیع کی ہر ممکن کوشش کی۔ مصر کی فوج ملک کی معیشت کے ایک بڑے حصہ میں براہِ راست ملوث رہی۔ چنانچہ صدر مرسی کو ہٹانے کی حکمت عملی میں یہ بات بھی شامل تھی کہ فوج جو ملک میں پٹرول کی فراہمی کے لیے ذمہ دار ہے، اس نے مصنوعی طور پر پٹرول کی فراہمی کو بند کرکے ملک میں معاشی چیخ وپکار کو عروج پر پہنچا دیا۔ جس کے نتیجے میں عوام نے دوبارہ فوج کو اپنا نجات دہندہ سمجھنا شروع کر دیا۔ جبکہ اسلامی جماعتوں میں عدم اتحاد اور ایک شدت پسند مذہبی جماعت کے اخوان کے مخالفین سے مل جانے کے نتیجے میں فوج صدر مرسی کو ہٹانے میں کامیاب ہو سکی۔

اس طائرانہ جائزہ سے جو سبق اسلامی احیائی تحریکات کو ملتے ہیں اس میں اولین پہلو تحریک میں فکری اور عملی یک جہتی کو اپنی ترجیحات میں اولیت دینے کا ہے جب تک تحریک کا ہر کارکن فکری اور عملی حیثیت سے دعوت کا نمائندہ اور پیغامبر نہیں بن جائے گا، سیاسی جدوجہد نقطۂ عروج پر لے جا کر بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے گی۔ دوسرا اہم پہلو تحریک کا اپنے خول سے نکل کر عوام اور دیگر جماعتوں کے ساتھ ربط اور ذاتی طور پر دوستانہ تعلقات کا پیدا کرنا ہے تاکہ دیگر جماعتوں کے ساتھ مخصوص مواقع پر سیاسی حمایت اور افہام و تفہیم کی راہیں پیدا ہو سکیں۔ تیسرے عوام کے مسائل جن کا تعلق ان کی معیشت اور معاشرت سے ہے، انہیں اپنے انقلابی منشور میں نہ صرف بنیادی اہمیت دینا بلکہ ان کے حل کے لیے عوام کو متاثر کرنے والے نعروں (Slogans) کا استعمال۔ بلا شبہ تحریکات اسلامی نظریاتی جماعتیں ہیں لیکن عوام ان کے نظریہ سے نہیں اپنے مسائل کے حل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نظریہ کی بنیاد پر ان کے مسائل کا حل دیگر جماعتوں کے مجوزہ حل سے مختلف ہو۔ چوتھا پہلو تحریک کا خواتین کے حقوق اور ان کے مسائل پر ایک واضح تعمیری موقف اختیار کرنا ہے۔ خصوصاً عالمی میڈیا اور مغربی دانشور تحریکات اسلامی کو عورت دشمنی اور خواتین کو گھر کی چار دیواری میں محدود کرنے والی جماعت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام خواتین کو ان کی عزت و احترام کے ساتھ معاشرہ میں سرگرم رہنے کا حق دیتا ہے۔ تعلیم اور ایسے ہنر جو انہیں گھر بیٹھے مالی فائدہ پہنچا سکیں، تحریک کی ترجیحات میں شامل ہونے چاہییں۔

تحریک کو سیاسی نمائندگی کے لیے نوجوانوں کو آگے بڑھانا ہو گا عموماً تحریکات اسلامی کو سنجیدہ اور معمر حضرات کی جماعتیں سمجھا جاتا ہے جبکہ مسلم دنیا میں اس وقت آبادی کا تقریباً ۶۷% حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے ان کی نمائندگی نوجوانوں ہی کو کرنی چاہیے۔ ان نوجوانوں کی سیاسی اور دینی تربیت اور انہیں مسائل سے آگاہ کرانے اور مسائل کے حل کے لیے دستوری ذرائع استعمال کرنے کی تربیت کو تحریک اسلامی کی دعوتی حکمت عملی کا حصہ بنائے بغیر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔

تحریکی قیادت کو اپنے معیار زندگی کو اقتدار میں آنے کے باوجود عوام کے معیار پر رکھنا ہو گا تاکہ لوگ عام سیاست دانوں اور تحریکی رہنمائوں کے کردار کے فرق کو محسوس کر سکیں۔

یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ تحریکی حکمت عملی کو ناکام بنانے کے لیے وہ بیرونی طاقتیں جو تحریک اسلامی کو بنیاد پرست سمجھتی ہیں کبھی کھلے دل سے تحریکات اسلامی کی پیش قدمی کا استقبال نہیں کریں گی۔ اور اپنے تمام اثرات کو تحریکات اسلامی میں انتشار پھیلانے اور ان کی کردار کشی کے لیے استعمال کریں گی۔

ان پر جارحانہ تنقید کی جگہ تحریکات اسلامی کو اپنے مثبت پہلوؤں اور اپنی جمہوری اقدار سے وابستگی کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا ہو گا۔ مغربی سامراجی طاقتوں کی حکمت عملی ڈھکی چھپی نہیں ہے ان کا دو نکاتی فارمولا ایک جانب Progressive engagement کے تحت وسیع البنیاد سیاسی اصلاحات کے نعرے کے ذریعہ تنہا اسلامی تحریکات کو کامیاب نہ ہونے دینا اور انہیں دوسروں کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور کرنا اور دوسری جانب ترقی پذیر ممالک کو اُس حد سے آگے نہ بڑھنے دینا جو مغرب کو قابل قبول ہو یعنی (Right Sizing)، مزید یہ کہ دوسرے نام نہاد مذہبی عناصر کے درمیان ٹکرائو پیدا کرکے مذہبی عصبیت اور منافرت کے ذریعہ مسلم ممالک میں عدم استحکام کو یقینی بنانا شامل ہے۔ چنانچہ شیعہ سنی ٹکرائو ہو یا بعض صورتوں میں قبائلی اور نسلی تفریق اور ٹکرائو، ایسی تمام تحریکات کو ہر دو جانب ایک دوسرے کے خلاف ابھارنا اس حکمت عملی کا بنیادی ستون ہے۔

مسلم دنیا کو بعض سخت فیصلے خود کرنے ہوں گے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے سوچنا ہو گا کہ کیا موجودہ ممالک کا مزید تقسیم ہو کر ایسے صوبوں میں تبدیل ہو جانا اس کے مفاد میں ہے جنہیں جب مغرب چاہے معمولی کوشش سے ناکارہ بنا دے یا اختلافات کے باوجود ملکی سا  لمیت میں اتحاد باقی رکھنے میں اس کی بہتری ہے۔ جو کیفیت عراق اور شام کی اس وقت پائی جاتی ہے، یہ وہی ہے جو اب سے ڈیڑھ سو سال قبل سلطنت عثمانیہ کے نقشہ کو تبدیل کرکے مغربی سامراج نے پیدا کی تھی۔ اب اس تقسیم در تقسیم کے عمل سے اس کا واضح مقصد امت مسلمہ کو مزید کمزور کرنا ہے اور ساتھ ہی اسلامی ریاست کے تصور کو دنیا اور خود مسلمانوں کے سامنے اتنا مسخ کرکے پیش کرنا ہے کہ خود مسلمان ایسی ریاست سے پناہ مانگیں اور مغربی لادینی ریاست اور لادینی جمہوریت کو اپنے لیے زیادہ مفید خیال کرنے لگیں۔ اس غرض کے لیے تعلیم، عالمگیریت کے تمام حربے جن میں عالمی میڈیا اور تھنک ٹینکس کے ذریعہ مسلمان دانش وروں اور نوجوانوں کو مغرب کی پیروی اور اسے اپنے لیے نجات دہندہ باور کرانے کی حکمت عملی شامل ہے۔

مغرب کی اس یلغار کا جواب مثبت فکری اور تحقیقی کام اور عملاً ایسے معاشرہ اور ریاست کا قیام ہے جس میں اسلامی عدل، اخوت، رواداری، برداشت و تحمل، صبرواستقامت اور خیرخواہی کے جذبات عملی شکل اختیار کر جائیں۔ ایسا معاشرہ ہی اسلامی ریاست کے قیام اور اعلیٰ کارکردگی کے لیے وہ افراد کار فراہم کرے گا جو عدل اجتماعی اور حقوق انسانی کو قرآن و سنت کی بنیاد پر اسلامی ریاست اور معاشرہ میں رائج و نافذ کر سکیں۔

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد
(ماخذ: مجلہ ـ مغرب اور اسلام، شمارہ  ۴۱،  انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد، ۲۰۱۴ء)

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے