2014-15کابجٹ بناتے وقت طویل مدتی مقاصد سامنے رکھناہوں گے
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں 14مئی 2014ء کو ’’پاکستانی معیشت کی صورت حال اور وفاقی بجٹ 15-2014‘‘ کے موضوع پر ہونے والے سیمینار میں ماہرین اقتصادیات نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بجٹ بناتے وقت قومی معیشت کی تعمیر نو کا طویل مدتی منصوبہ سامنے رکھا جائے۔ اس کے مقاصد اور ہدف اس وقت حاصل کیے جاسکتے ہیں جب اس احساس کے ساتھ بجٹ پیش کیا جائے کہ صرف ایک بجٹ سے قومی معیشت کی ازسر نو تشکیل ممکن نہیں ہوسکتی۔
سابق وفاقی سیکرٹری مسعود داہر نے صدارت کرتے ہوئے پاکستانی معیشت کے زوال کا جائزہ پیش کیا اور اس کی زبوں حالی کے اسباب بیان کرتے ہوئے مستقبل میں معیشت کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں۔
سیمینار کے مقرر ثاقب شیرانی نے ہنگامی بنیادوں پر معیشت کی ازسر نو اصلاحات پر زور دیا۔ انہوں نے اس ضمن میں ٹیکس کے نظام کو خصوصی توجہ کا مرکز گرانا۔ وزارت خزانہ کے سابق مشیر نے اپنی تقریر کو میکرو اکنامک اور مالیاتی نظام پر مرکوز کرتے ہوئے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا کہ پاکستان کی معیشت ٹیکس کے غیر فعال نظام کی وجہ سے اپنی صلاحیت سے بہت کم نتائج دے رہی ہے جس کے باعث ملک میں ٹیکس کی آمدنی جمود کا شکار ہو چکی ہے اور فیڈرل بیورو آف ریوینیو کل جی ڈی پی کا بہت کم ٹیکس حاصل کرپاتا ہے۔
انہوں نے پاکستان میں ٹیکس دینے کی موجودہ شرح پر شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 2012ء میں پاکستان کے تین بڑے شہروں میں ٹیکس دینے کے قابل 3.2ملین افراد ٹیکس نظام میں رجسٹر ہی نہیں تھے جبکہ تقریباً 61فی صد ارکان پارلیمنٹ نے اپنے ٹیکس ریٹرنز میں جو آمدنی ظاہر کی اس پر ٹیکس لاگو ہی نہیں ہوتا۔انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ایک بجٹ تما م مسائل کو حل نہیں کرسکتا۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ آنے والا بجٹ ایک تین سالہ بڑے منصوبے کا حصہ ہونا چاہیے جس میں اس بات پر زور دیا جائے کہ ٹیکس کی کم شرح کے ساتھ ٹیکس وصول کرنے والوں کی تعداد کو بڑھانا ہے ۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی اشیاء کے استعمال کی بجائے سرمایہ کاری کی بنیاد پر دی جانی چاہیے۔
پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ پاکستان میں حقیقی بحران معیشت یا توانائی کے باعث نہیں ہے بلکہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں قوم کی تقدیر ہے ان کے ارادے اور نیت میں فتور اس کا سبب ہے۔ انہوں نے اس رائے کی تائید کی کہ پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ خیرات دینے والے ممالک میں سے ایک ہے اس کے باوجود ملک میں ٹیکسوں کی ادائیگی ایک بالکل متضاد تصویر پیش کرتی ہے۔
آئی پی ایس کی سینئر ایسوسی ایٹ امینہ سہیل نے ٹیکسوں کی اتنی کم ادائیگی کا سبب ایک کمزور ادارہ جاتی فریم ورک قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سبسڈی کا طریقہ کار بھی بہت مؤثر نہیں ہے کیونکہ اس کے سبب امیر لوگ بھی کم آمدنی والے لوگوں کی سبسڈی میں دئیے گئے تناسب سے برابر کے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
آئی پی ایس کے ایک اور سینئر ایسوسی ایٹ عتیق الظفر نے اسلامی معیشت پر اپنی نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے اسے ایک پائیدار متبادل ماڈل کے طور پر پیش کیا ان کا کہنا تھا کہ اس میں ان تمام مسائل سے نپٹنے کی تمام تر صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے سود کی ممانعت کی حمایت کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ اگر پاکستان میں زکوۃ اور عشر کے نظام کو مناسب طریقے سے وضع کرکے اس پر عملدرآمد کیاجاتا تو یہ وہ فریم ورک ثابت ہوتا جو ہمارے ملک کی معیشت کے لیے ضروری ہے۔
راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے سابق سینئر نائب صدر راجہ عامر اقبال نے حکومت کے ٹیکس وصولی کے نظام کے مقاصد اور طریقہ کار پرسوال اٹھا دیاجس کے تحت نئے ٹیکس گزاروں کو ٹیکس کے نظام میں لانے کی بجائے پہلے سے موجود ٹیکس ادا کرنے والوں پرنئے ٹیکس لگا کر مزید بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ انہوں نے حکومت کوتوجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اسے توانائی اور دہشت گردی کے میدان میں مضبوط اور پائیدار اقدامات اٹھانے چاہئیںکیونکہ ان مسائل کوحل کیے بغیر ملک معاشی ترقی حاصل نہیں کرسکتا۔ آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالدرحمن اور سابق ایڈیشنل سیکرٹری اور نیشنل ٹیرف کمیشن کے سابق ممبر ریاض الحق نے بھی اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
جواب دیں