پاکستان: بحری چیلنج اور مواقع
ماہرین کا کہنا ہے کہ قدرت نے پاکستان کو بحری وسائل کے لحاظ سے بے حدوحساب خزانے عطا کیے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ آگہی کی کمی، ترجیحات کا درست نہ ہونا اور نتیجے کے طور پر مناسب حکمتِ عملی کا نہ ہونا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں کیا گیا ہے۔ اس سیمینار کا عنوان تھا: پاکستان – بحری چیلنج اور مواقع!
اس سیمینار کی صدارت نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی آف کنٹمپوریری اسٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر پرویزاقبال چیمہ کررہے تھے۔ مقررین میں شامل تھے سابق ڈپٹی چیف آف نیول اسٹاف (آپریشنز) وائس ایڈمرل (ریٹائرڈ)افتخار احمد را ؤ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں صدر شعبہ بین الاقوامی تعلقات ڈاکٹر محمد خان۔ آئی پی ایس کے سینئر ایسوسی ایٹ کمانڈر(ریٹائرڈ) اظہر احمد نے اس پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سیمینار کا مقصد باخبر اور علمی سطح پر تبادلۂ خیال کے ذریعے پاکستان کے بحری وسائل و مسائل سے آگہی اور اس کا شعور عام کرنا اور پالیسی ساز مقتدر حلقوں کو پالیسی کی تشکیل میں مدد اور راہنمائی فراہم کرنا تھا۔
وائس ایڈمرل (ریٹائرڈ) افتخار احمد راو ٔ نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ پاکستان کو اپنی2002ء کی میری ٹائم پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے اور نئے حالات، رجحانات اور ترقیات کی روشنی میں اسے مزید بہتر اور تازہ بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سمندری رقبہ 295،000مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ اسے ملک کے سب سے بڑے اور سب سے مال دار”صوبے“ کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے تاکہ ملک اس کے مستور لیکن ممکنہ طور پر حقیقی قیمتی وسائل سے فیض یاب ہو سکے۔ انہوں نے سمندری امکانات اور مواقع کی اہمیت واضح کرتے ہوئے بتایا کہ تجارت، معدنیات اور دفاعی تزویراتی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر کی بین الاقوامی تجارت کا 97فی صد اور پاکستان کی دنیا سے تجارت کا 95فی صد حصہ سمندر کے ذریعے سے ہوتا ہے۔
پاکستان ایک ایسے اہم مقام پر واقع ہے جہاں سے دنیا بھر کو تیل کی سپلائی کا 72فی صد حصہ گزرتا ہے۔ ضروری ہے کہ گوادربندرگاہ کو جدید ٹیکنالوجی اور ڈھانچہ سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ نہ صرف چین کی طرف معاشی راہداری کا دروازہ بنے بلکہ بحری خدمات فراہم کرنے کا مرکز بنے۔ گوادر اپنے محل وقوع کے اعتبار سے ایسے مثالی مقام پر ہے جہاں سے تیل بھرنے کے لیے گلف کی طرف جاتے خالی جہازوں کو مرمت اور دیکھ بھال کی ضروری خدمات فراہم کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے تجویز کیا کہ اندرونِ ملک ٹرانسپورٹ سسٹم اور سمندری ٹرانسپورٹ سسٹم میں ارتباط کا ایسا نظام قائم کیا جائے جس سے گوادر بندرگاہ کا راہداری کا کرداربھی مثالی بنے اور ملک بھی اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکے۔
وائس ایڈمرل افتخار راؤ نے ماضی قریب کے تاریخی حوالوں سے بتایا کہ جن ممالک کو گہرے سمندر کا ساحل میسر ہے اور جہاں کم معاوضے پر بڑی تعداد میں محنت کش دستیاب ہیں وہ جب جہاز بنانے کی صنعت میں داخل ہوئے تو اس صنعت نے ان کی دیگر صنعتوں اور اس طرح پوری معیشت کو زبردست ترقی سے ہم کنار کیا۔ پاکستان میں بحری جہاز بنانے کی صنعت میں بھرپور طور پر آگے بڑھنے کی مکمل صلاحیت موجود ہے ہمیں اس سمت میں ضرور عملی قدم بڑھانا چاہیے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ وزیراعظم کی سربراہی میں قائم ایک پالیسی بورڈ سال 2007ء میں اس حکمتِ عملی کی منظوری دے چکا ہے تاہم حقیقی پیش قدمی ابھی تک نظر نہیں آئی۔
انہوں نے ایسی بامعنی سفارتی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا جو بحر ہند میں بھارت کی بالادستی کی سوچ اور عملی منصوبوں کا ردّ کر سکے کیونکہ بھارت اسے بحرِہند (Indian Ocean) نہیں بلکہ ”بحرِہندوستان“ (India’s Ocean)یعنی بھارت کا اپنا سمندر سمجھتا ہے۔
انہوں نے تاریخی یادداشتوں کو تازہ کرتے ہوئے کہا کہ جزائر نکوبار اور انڈمان اسٹریٹیجک اہمیت کے وہ جزیرے ہیں جہاں پر تقسیم ہند کے وقت 80فی صد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی لیکن مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل کرنے کا اصول ان علاقوں پر لاگو نہیں کیا گیا کیونکہ مسلم انڈیا کی قیادت نے غالباً اس کامطالبہ ہی نہیں کیا۔ آج انڈیا ان جزیروں کو چین کی بحری نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کے لیے، گویا اس کی گردن دبانے کےلیے، استعمال کرتا ہے اور اس نے اپنی تین ستارہ قیادت کے زیرِ کمان یہاں بحریہ کا مرکز قائم کر رکھاہے۔
وسیع تر ایٹمی اسٹریٹیجک تناظر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنی بحریہ کے ذریعے جوابی ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکے۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں صدر شعبہ بین الاقوامی تعلقات ڈاکٹر محمد خان نے کہا کہ پاکستان ہر پیمانے کے لحاظ سے ایک بحریائی قوم (میری ٹائم نیشن) ہے۔
پاکستان کے سمندر کو درپیش چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت امریکہ منصوبہ یہ ہے کہ بحرِہند پر بھارت کی بالادستی اور کنٹرول قائم ہو جائے۔ ظاہر ہے اس سے پاکستان کے معاشی اور اسٹریٹیجک مفادات کو شدید نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ البتہ یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل عرصے سے موجود سرکریک کا مسئلہ اب کوئی تنازع نہیں رہا ہے اور تکنیکی سطح پر تقریباً ہر چیز واضح طور پر طے ہو چکی ہے۔ اب صرف ایک سیاسی فیصلہ کی ضرورت ہے کہ اسے دونوں ملکوں کے درمیان ”معاہدہ“ کی شکل دے دی جائے۔
اس سیمینار میں بحری ماہرین، دفاعی تجزیہ کار،مسلح افواج کے افسران، متعلقہ وزارتوں اور سرکاری شعبوں کے نمائندے، بحری صنعتوں اور تجارتی کمپنیوں کے ذمہ داران، غیر ملکی سفارتی اہل کار اور موضوع سے دلچسپی رکھنے والے اہلِ علم و دانش اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
نوعیت: روداد سیمینار
موضوع: پاکستان: سمندری چیلنج اور مواقع
تاریخ: 5 ستمبر 2013ء
جواب دیں