مسلم ممالک میں اقتصادی یک جہتی: امکانات اور چیلنج
OICممالک کے چوتھے تھنک ٹینک فورم کا اجلاس 28مارچ 2013ء کو اختتام پذیر ہوا۔ اس اجلاس میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے اپنا پالیسی مقالہ ’’مسلم دنیا کی پسماندگی اور غربت میں کمی کا ہدف: اسلامی مالیات کا کردار‘‘ پیش کرتے ہوئے کہاکہ مسلم دنیا میں غربت میں کمی کے لیے جن واضح اقدامات کی ضرورت ہے ان کا راستہ اسلامی اقتصادیات کو فروغ دینے میں ہے۔ اس کے لیے مسلمان معاشروں میں صدقہ و خیرات دینے کے غیر منظم انداز کو بڑے پیمانے پر منظم اداراتی شکل دینے کی ضرورت ہے۔
مصری کابینہ کے ’’معلومات اور فیصلوں میں مددکے مرکز‘‘ (IDSC)اور ’’اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے لیے ترکی ایشیائی مرکز‘‘ (TASAM)کی سرپرستی میں ہونے والے OICممالک کے چوتھے تھنک ٹینکس فورم کے اجلاس کا موضوع تھا ’’ممبر ممالک میں اقتصادی یک جہتی: امکانات اور چیلنج‘‘ ۔ اس فورم میں مسلم دنیا میں سے تین سو سے زائد اہلِ دانش نے حصہ لیا۔
اس فورم میں آئی پی ایس کے ڈائریکٹرجنرل نے پالیسی پر مبنی چند اہم تجاویز پیش کیں جنہوں نے OICکے اس فورم میں بحیثیت مجموعی اور انفرادی طور پر بھی مختلف ممالک کے نمائندوں میں بھرپور توجہ حاصل کی۔ OICکے ایجنڈے اور فریم ورک کے اندر اتفاق رائے پیدا کر کے اسلامی اقتصادیات کی نشوونما کے لیے ترقیاتی سوچ پر مبنی کئی تجاویز پیش کی گئیں۔
تجویز کیا گیا کہ اسلامک سینٹرل بنک قائم کرنے کے اقدامات پر غور کیا جائے۔ تحقیق کے میدان میں آگہی پیدا کرنے اور حوصلہ افزائی کے لیے ماحول بنایا جائے۔ صدقہ بنک جیسے خصوصی ادارےقائم کیے جائیں۔باوسائل مسلمانوں اور تارکین وطن کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ ان اداروں میں رقم جمع کروائیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت خیراتی کاموں اور غیر منظم خیراتی اداروں کو منظم اور مربوط کیا جائے اور نچلی سطح پر اقتصادی سرگرمیوں اور روزگار کے مواقع پیداکرنے کے لیے مائیکروکریڈٹ نظام کو اپنایا جائے۔
دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمان ملکوں کی آبادی کو درپیش اقتصادی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بے شمار وسائل کی حامل اور بے انتہا صلاحیت رکھنے کے باوجودآج مسلم دنیا کی تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ چند ایسے ممالک کو چھوڑ کر جوقدرتی وسائل سے مالا مال ہیں باقی تمام ممالک ترقیاتی امور میں انتہائی نچلی سطح پر ہیں جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی آبادی کا بڑا حصہ غربت کی چکی میں پس رہا ہے۔
کثیرآبادی والے مسلمان ملکوں کی بڑی تعدادغربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور بعض جگہ تو اس کا تناسب 60اور 70فی صد ہے۔ اگرچہ بعض ممالک کے اندر کسی حد تک بہتر صورت حال بھی نوٹ کی گئی ہے۔ پھر بھی ان ممالک میں لوگوں کے درمیان عدم توازن اور عدم مساوات موجود ہے۔
OICممالک کے بارے میں 2012ء کی سالانہ اکنامک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے یہ انکشاف کیاکہ دنیا کی کل آبادی کا 22.8فی صدحصہ ہونے کے باوجود OICکے 57ممبر ممالک دنیا کے کل GDPکا 10.9 فی صد پیدا کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ رپورٹ اس بات پر بھی روشنی ڈالتی ہے کہ OICکے ممبر ممالک میں GDPکی فی کس شرح مسلسل بڑھ رہی ہے اور 2011ء میں یہ 5.507ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ 2007ء میں یہ شرح 4.724ڈالر تھی۔تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ OICممبر ممالک اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے درمیان فی کس GDPکا فرق مزید بڑھ چکا ہے۔
OICکے پلیٹ فارم پراجتماعی سطح پر اور ممبر ممالک کے سامنے انفرادی سطح پر چند خصوصی نوعیت کی پالیسی تجاویز پیش کرتے ہوئے خالد رحمن نے تین قسم کے پالیسی فریم ورک کی ضرورت پر زور دیا۔
اس فریم ورک کے مطابق پہلی تجویز یہ دی گئی ہے کہ اسلامی اقتصادیات کے موجودہ رحجانات بالخصوص خیراتی بنیادوں پرتشکیل شدہ عوامل کو مزید بہتر بنایا جانا چاہیے۔
اس کے لیے وسیع پیمانے پر آگہی پیدا کرنے، حوصلہ افزائی اور تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مسلم ریاستوں کی حکومتوں کو مناسب ماحول کی فراہمی ممکن بنانے پر آمادہ کرنا شامل ہے۔ ایک پاکستانی تنظیم ’اخوت‘ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آگہی فراہم کرنے اور لوگوں میں نیکی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے مسلمان معاشروں میں مسجد سے بڑھ کر بہتر جگہ کوئی نہیں ہے۔ اس ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر مائیکرو فنانس منصوبوں کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو آسان بھی بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آگہی پیدا کرنے کے لیے تھنک ٹینکس کا کردار اہم ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ علم اور معلومات کا باہم اشتراک کیا جائے اور اس میدان میں بہترین عملی طریقے اختیار کیے جائیں۔ اس ضمن میں اسلامی معاشیات سے متعلق مرکزی نوعیت کا ڈیٹا بنک منظم کیا جانا چاہیے۔
دوسری ضرورت اس بات کی ہے کہ OICکے ممبر ممالک اور مسلم معاشروں کے اندر صدقہ دینے پر آمادہ کرنے اور اسے مناسب طریقے سے لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑے پائیدار اداروں کی تشکیل کی جائے۔ قدرتی آفات جیسے عوامل میں اپنی مدد آپ کے تحت ہنگامی خیراتی کام کرنے والوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے تاہم مستقل اور وسیع پیمانے پر کی جانے والی رفاہی سرگرمیاں ہی زیادہ پر تاثیرہوسکتی ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ خصوصی نوعیت کے ادارے موجود ہوں جنہیں بااصول طریقوں پر منظم انداز میں چلایاجا رہا ہو۔
منصوبہ جاتی فریم ورک کی تیسری ضرورت یہ ہے کہ اسلامی معاشیات اور خیرات کی بنیادوں پر تشکیل کیے گئے اداروں کے لیے مناسب ہدایات وضع کی جائیں اور ان کے مقاصد واضح ہوں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ انہیں کن عوامل پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا ہے۔
انہوں نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ایک تصوراتی فریم ورک کی موجودگی میں ضرورت اس بات کی ہے کہ آگے بڑھا جائے، کلیدی نوعیت کے اقدامات اٹھائے جائیں اور انہیں اداراتی اور عملی سطح تک لایا جائے۔
یاد رہے کہ گزشتہ فورمزکے تسلسل میں اس چوتھے فورم کا مقصد OICممبر ممالک کے تھنک ٹینکس کو ایک جگہ جمع کرنا تھا تاکہ مستقبل کے سیاسی، سماجی و ثقافتی اور اقتصادی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے تخلیقی مکالموں کو منظم کیا جاسکے نیز اجتماعی علم اور ترقیاتی کوششوں کا جائزہ لیا جاسکے۔
نوعیت: مکالمہ
تاریخ: ۲۸ مارچ ۲۰۱۳ء
جواب دیں