معاشی ترقی کے لیے ہمیں سود کی معیشت سے نکلنا ہوگا۔ پروفیسر خورشید احمد

معاشی ترقی کے لیے ہمیں سود کی معیشت سے نکلنا ہوگا۔ پروفیسر خورشید احمد

اسلام آباد: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئر مین پروفیسر خورشید احمد نے کہا ہے کہ معیشت کو سود سے پاک کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کا ۱۹۹۹ ء کا فیصلہ پاکستان کے لیے انتہائی اہم ‘علمی سطح پر انتہائی معیاری اور دلیل و برہان کی دنیا میں سود کی حرمت پر اعتراضات کرنے والوں کے لیے مؤثرجواب ہے۔ تاہم یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اسے قانونی موشگافیوں کے ذریعے عملاً غیر مؤثر بنا دیا گیا ہے۔ وہ آئی پی ایس میں منعقدہ ایک سیمینار میں صدارتی تقریر کر رہے تھے۔ سیمینار کا عنوان تھا ’’اسلامی بنک کاری اور معیشت : سود پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس کے بعد‘‘۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ اسلامی بنک کاری اور دیگر اسلامی مالیاتی ادارے مکمل اسلامی معیشت کے ماحول ہی میں صحیح طور پر اپنا رول ادا کر سکتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے قومی سطح پر سیاسی عزم کا فقدان ہمارا اصل مرض ہے اور اس کے پیچھے مغرب کی ذہنی غلامی کی نفسیات اپنا کام کر رہی ہے ۔ وہ ذہن جوسرمایہ دارانہ نظام نے بنایا ہے، ہم اس کے اسیر بنتے جا رہے ہیں۔ خصوصاً ہمارے بالادست طبقے اس بیماری میں بری طرح مبتلا ہیں۔ اسلامی بنکاری کے موجودہ تجربات پر نظر ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسلامی بنکوں کی کارکردگی دیگر روایتی بنکوں سے بہتر ہے لیکن یہ حالات کے اثرسے منفی طور پر متاثر ہو رہی ہے۔یہ درست ہے کہ اسلامی بنک کاری کی بھرپور ترقی مکمل اسلامی معیشت کے ماحول ہی میں ممکن ہے تا ہم اسلامی بنکوں کو اسلامی مالیات کے ان چند ماڈلز تک محدود نہیں ہو جانا چاہیے، جو اگرچہ جائز ہیں لیکن زیادہ مثالی نہیں ہیں۔ بلکہ بنکوں کو ایسے ماڈلز کی طرف آنا چاہیے جس میں معاشرے کی بہبود اور ترقی بھی مدنظر ہو۔ اسلامی بنکوں کو کارکردگی اور شفافیت دونوں کو لے کر بڑھنا چاہیے۔

PR310113-1

سرمایہ دارانہ معیشت اور اسلامی معیشت میں یہ فرق نمایاں نظر آنا چاہیے کہ اسلامی معیشت میں جائز اور ناجائز کا خیال رکھا جاتا ہے اور انسانی فلاح کومعاشی سرگرمی میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ معاشرے کی اصلاح کا کام کرنے کے لیے جہاں بعض امور میں ’’اوپر سے نیچے کی طرف‘‘ کی حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے وہاں بعض دیگر پہلوؤں سے ’’نیچے سے اوپر کی طرف‘‘کی حکمت عملی اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ آج اس بات کی زیادہ ضرورت ہے کہ نجی طور پر نچلی سطح سے بھی اسلامی معیشت کے لیے قدم اٹھائے جائیں۔ ہمارے ملک میں چھوٹی سطح پر بلا سود قرض دینے کا ادارہ ’’اخوت‘‘ اب عالمی سطح پر ایک عمدہ مثال بن گیا ہے۔ نچلی سطح پر معاشرے کو اٹھانے کے لیے اس نوعیت کے کام دیگر حوالوں سے بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے لیکن سب سے زیادہ غریب پر ور بھی ہے ۔پاکستان میں غریبوں، بیواؤں اور یتیموں کی مدد، دینی تعلیم کے اداروں اور مساجد کی تعمیر و ترقی اور عمومی سماجی بہبود کے دیگر بہت سے کاموں کے لیے خیرات اور صدقات میں خرچ کرنے کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔ سخاوت اورنیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کا پہلو پرائیویٹ سیکٹر میں بہت نمایاں ہے۔

 

PR310113-6 PR310113-7 PR310113-4

قومی تعمیر نو کے کام میں یہ ہمارا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ جسے مزید بڑھایا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا جب تک ہمارے بالا دست طبقات اس بات پر یکسو نہ ہوں کہ ہمیں سود کی معیشت سے نکلنا ہے، معیشت کو ترقی کی ر اہ پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ معیشت سے سود کو ختم کرنے کا اصل مقصد معیشت کو ایک متبادل بنیاد پر منظم اور مرتب کرنا ہونا چاہیے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا مطمح نظر سرمایہ کے ذریعے مزید سرمایہ پیدا کرنا ہوتا ہے جب کہ اصل مقصود یہ ہونا چاہیے کہ سرمایہ کے ذریعے اشیاء اور خدمات میں اضافہ ہو جس سے مجموعی طور پر معاشرے کو فائدہ ہو۔

 

PR310113-8 PR310113-10 PR310113-5

سود کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے نے کم از کم علمی سطح پر ان غیر ضروری بحثوں کو ختم کردیا ہے جو تقریباً ایک سو سال سے ہمارے ہاں جاری تھیں کہ کیا بنک کا سود وہی سود ہے جو آنحضور ﷺ کے زمانے میں بھی تھا یا یہ کوئی مختلف شے ہے اور یہ کہ کیا ضروریات کے لیے قرض پر ہی سود ناجائز ہے یا پیداواری منصوبوں کے لیے قرض پر بھی سود حرام ہے وغیرہ۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد طاہر منصوری نے کہا کہ آئی پی ایس میں قائم اسلامی بنک کاری اور معیشت کے مطالعہ کا گروپ اپنی علمی سرگرمیاں جاری رکھے گا اور معاشرے میں اس پہلو سے شعور و آگہی پیدا کرنے اور اسے وسعت دینے کے لیے نئے منصوبوں پر غور کر رہا ہے۔ سیمینار سے سینئرآئی پی ایس ایسوسی ایٹ محترمہ امینہ سہیل، اسلامی یونیورسٹی میں شریعہ کی استاد محترمہ غزالہ غالب خان اور الہدایہ سنٹر فار اسلامک فنانس کے جناب صارم غازی نے بھی خطاب کیا۔

نوعیت:   روداد سیمینار

تاریخ:   ۳۱ جنوری ۲۰۱۳

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے