بھارت کے لیے بڑا کردار۔اوباما کی نئی پالیسی

بھارت کے لیے بڑا کردار۔اوباما کی نئی پالیسی

 سابق امریکی سفیر جیمزلاروکو نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹیڈیز میں منعقد ہ ایک سیمینار میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات یقینی نظر آتی ہے کہ صدر اوباما امریکی عوام کی تازہ حمایت کے بعد اپنی دوسری مرتبہ کی حکومت میں ازسرنو ترتیب شدہ کابینہ کے ساتھ ایک دلیرانہ پالیسی اختیار کریں گے کیونکہ اب تیسری دفعہ حکومت میں نہ آسکنے کے باعث ان پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہو گا۔ اس بات کی توقع ہے کہ امریکہ بحرہند کے علاقے میں اپنے تزویراتی مفادات کے تحفظ پر توجہ مبذول کرے گا۔ اس ضمن میں امریکہ کا مفاد یہی ہے کہ وہ بھارت کی مکمل پشت پناہی کرے تاکہ وہ اس خطے میں ایک بڑا کردار ادا کر سکے۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی واشنگٹن میں قائم تزویراتی مطالعہ کے مرکز ’’نیر ایسٹ اینڈ ساؤتھ ایشیا‘‘ (NESA) کے ڈائریکٹر جیمز لاروکونے ’’امریکہ کے اہم تزویراتی مفادات‘‘ کے عنوان سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ صدر اوباما کو اب کسی بھی طرح کے سیاسی دباؤ کا سامنا نہیں ہو گا کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں دوبارہ منتخب ہوہی نہیں سکتے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ صدارتی دفتر میں ایک نئی ٹیم کے باعث دنیا ایک مختلف نوعیت کی امریکی انتظامیہ دیکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ اپنے دوسرے دورِ حکومت میں صدر اوباما کا سارا زور اس بات پر ہو گا کہ وہ امریکی عوام کے لیے انمٹ نقوش چھوڑ جائیں۔
لارو کو نے ان امور کی طرف توجہ دلائی جو ان کے نزدیک مستقبل قریب میں امریکہ کی ترجیحات ہو ں گے۔ ان میں توانائی کا یقینی حصول، خلیج میں مزید ارتکاز ،آزادانہ سمندری نقل و حرکت کا تحفظ، جوہر ی ہتھیاروں کاعدم پھیلاؤ،ایران اور شمالی کوریا پر مضبوط موقف حاصل کر نے کی کوشش اور پُر تشدد انتہا پسندی کا مقابلہ (خصوصاًافغانستان، پاکستان اور شمالی افریقہ میں) جیسے پہلو خصوصی توجہ کا مرکز رہیں گے۔
انہوں نے کہا بحرہند دنیا کے لیے توانائی کا راستہ ہونے کے سبب انتہائی اہمیت اختیار کر چکا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی یہ اہمیت مزید بڑھتی چلی جائے گی چناچہ امریکہ یہ چاہے گا کہ بھارت بحرہند کے ساتھ ساتھ اس سارے علاقے میں ایک کردار ادا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت بحر ہند میں آنے والے سونامی کے موقع پر بھی امدادی کار روائیوں میں اہم کردار ادا کر چکا ہے۔

 

DSC 0732

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی ساری توجہ بحرہند کے سارے علاقے اور بحراحمر سے جنوبی چین تک کے سمندری علاقے پر مرکوز ہوگی۔ انہوں نے تجویز دی کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کو اپنے علاقائی مفادات پر نظر رکھتے ہوئے باہمی تعلقات کو فروغ دینا چاہیے خصوصاََ تجارت اور معیشت کے میدان میں۔
خطے میں مقاصد پورے ہوجانے کے بعد ہر دفعہ پاکستان کو نظر انداز کر دینے کی امریکی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق امریکی سفارت کار نے تسلیم کیا کہ ان کے ملک کا اس معاملے میں ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گو ہم نے ہر دفعہ مقصد پورا ہونے پر اپنی راہ لے لی لیکن ہمارے تزویراتی مفادات نے ہمیں پھر سے پاکستان کا رخ کرنے پر مجبور کردیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ طویل عرصہ پر محیط ایسے تعلقات چاہتا ہے جو باہمی عزت و احترام اور تعاون کی بنیاد پر قائم ہوں کیونکہ ان کا ملک اب مزید اتحادی تلاش کرنے کی بجائے شراکت داری قائم کرنے کے منصوبوں پر کام کررہا ہے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے 9/11کے بعد کے حالات میں جو قیمت ادا کی ہے امریکہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد کو مزید آگے بڑھایا جائے۔
ڈرون حملوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپیشل فورسز ، ڈرون ٹیکنالوجی اور سائبر سپیس اقدامات امریکہ کی فوجی حکمت عملی کے تین انتہائی اہم طریقے ہیں جو اس کی تمام کار روائیوں میں اہم ترین اور مستقل نوعیت کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے اس پر اصرار کیا کہ ڈرون اور سائبر سپیس ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالہ سے بین الاقوامی قوانین کا کوئی ڈھانچہ تیار کیا جانا چاہیے ۔ اس ضمن میں کسی کنونشن یا بین الاقوامی معاہدے کے لیے کی گئی کوششوں کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔
سیمینار میں اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے وزارتِ خارجہ کے سابق سیکرٹری جنرل اور آئی پی ایس اکیڈمک کونسل کے رکن اکرم ذکی نے کہا کہ ڈرون حملوں کی پالیسی کی وجہ سے معصوم شہری زخمی ہو رہے ہیں اور ان کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔ اس سارے فعل کے پیچھے صدر اوباما اور امریکی انتظامیہ جو کچھ پیغام دینا چاہتی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں صرف امریکی فوجیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات سے غرض ہے اور اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ پاکستانیوں کی زندگیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اکرم ذکی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ باراک اوباما کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ پوری دنیا میں کسی امتیاز کے بغیر انصاف اور انسانی اقدار کے زریں اصولوں پر عملدرآمد کر کے اپنے اقتدار کے انمٹ نقوش چھوڑ جائیں۔

 

DSC 0715

ڈرون حملوں اور سائبر جرائم کے بدنما استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے اکرم ذکی نے یہ بات یاد دلائی کہ انسانی زندگی کو حاصل حقوق، ریاستوں کوحاصل خود مختاری، علاقائی حدود میں بے محابا دخل اندازی سے بچاؤ اور قانون کی بالادستی جیسے عوامل بین الاقوامی قانون کی اصل بنیادیں ہیں جنہیں مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔

 

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ بعض قوانین کی عدم موجودگی کا راگ الاپ کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی اختیار نہیں کر سکتا جبکہ اس نے گو انتانامو بے، ابو غریب، بگرام اور دنیا بھر میں بین الاقوامی قوانین کی بار بار دھجیاں اڑائی ہیں۔
سابق سینئر سفارت کار نے بش کے دور حکومت کو ایک ’’بین الاقوامی غیر قانونیت‘‘ کا دورقرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ باراک اوباما بھی انہی خطوط پر کام کر رہے ہیں جبکہ یہ موقع تھا کہ وہ کچھ مختلف کر کے دکھاتے۔
علاقائی ہم آہنگی اور بحر ہند میں بھارت کے کردار کے حوالہ سے انہوں نے یاددہانی کروائی کہ علاقے میں بھارت کا کسی بھی قسم کا کردار ہمسایہ ممالک کے مفادات کے لیے ضرر رساں ہی ثابت ہوا ہے چنانچہ وہ اس علاقے میں کسی بڑے کردار کے اداکرنے کا مکلف ہی نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھییاد دلایا کہ اپنی پہلی صدارتی مہم میں اوباما نے کشمیر کو جنوبی ایشیا میں امن کی کنجی قرار دیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر کے لیے ایک خصوصی ایلچی بھیجیں گے لیکن جب وہ وائٹ ہاؤس پہنچ گئے تو انہوں نے اس بات کو زیادہ ترجیح دی کہ کشمیر کو ایجنڈے سے ہی نکال دیا جائے۔

DSC 0729 DSC 0755

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کو علاقے میں کوئی بڑا کردار دینے کا امریکی اصرار ناانصافی پر مبنی ہے۔
اکرم ذکی کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اور امریکہ اپنے تعلقات کو نئے سر ے سے ترتیب دیں جو باہمی عزت و احترام، مساوی برتاؤاور سب سے اہم یہ کہ ایک دوسرے سے کم توقعات پر مبنی ہوں۔

 نوعیت: رو داد سیمینار
تاریخ: ۱۸ دسمبر ۲۰۱۲ء

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے