پاکستان اورسکینڈے نیویا ممالک میں تعلقات کا فروغ وقت کی ضرورت ہے
’’پاکستان ۔سیکنڈ ے نیویا:تصورات، صلاحتیں اور ممکنہ راستے‘‘ کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں ایک سیمینارمنعقد ہوا۔ یہ سیمینار آئی پی ایس اور پاکستان ناروے ایسوسی ایشن کے تعاون سے منعقدہوا ۔ شرکاء میں سویڈن کے سفیر لارس ہجلمر وائڈ، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن، پاکستان ناروے ایسوسی ایشن کے سابق صدر عامر افتخار وڑائچ، سماجی علوم کے نارویجن ماہر ایٹلے ہیٹ لینڈ، مائیگریشن گروپ کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صبیحہ سید، نارویجن چرچ ایڈ کے کنٹری منیجر پیٹر ایڈی، آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن ائرکموڈور خالد اقبال اور پاکستان ڈینش مواصلات کی کنسلٹنٹ حنا اختر شامل تھیں جبکہ اس سیمینار کے موڈریٹر آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر ریاض الحق تھے۔
سویڈن سفیر لارس ہجلمر نے پاکستان اور سویڈن کے درمیان پیچیدہ موضوعات پربات چیت اور باہمی اشتراک کے لیے نئی راہیں دریافت کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا۔ انہوں نے کہا کے دونوں ممالک کے درمیان بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، متبادل ذرائع توانائی اورماحول دوست ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اُن کے مطابق کسی بھی ملک کی اقتصادی خوشحالی میں پبلک پرائیویٹ شراکت داری اور بہترین اسلوب حکمرانی اہم عناصر ہیں۔ اُنہو ں نے ماضی کے اس عمومی تاثر کا ذکر کیا کہ سویڈن عالمی امور سے لاتعلق رہا ہے اور کہا کہ اب وہ دنیا میں امن و امان کا خواہاں ہے اوراس پہلو سے سرگرم ہے۔
ایٹلے ہیٹ لینڈ نے خواہش کا اظہار کیا کہ دوسرے ممالک کو بھی سیکنڈ ے نیوین ماڈل سے سیکھنا چاہیے جوکہ ممکنہ طور پر دنیا کا سب سے خوشحال اور کامیاب اقتصادی خطہ ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سکینڈے نیویا نے یہ کامیابی شفافیت ، جمہوریت اور مساوات کی بناء پر حاصل کی ہے۔
خالد رحمن نے شرکاء کی خدمت میں پاکستان اور سکینڈے نیویاکے تعلقات کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ یورپین ممالک میں سیکنڈ نیویا نسبتاً کم توجہ کا مرکز رہا ہے جبکہ ضرورت بالکل اس کے برعکس ہے۔ جبکہ عالمی ترقیاتی تعاون میں اہم کردار ادا کرنے والے ان ممالک کے پاکستان کے ساتھ تعلقات بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور ان ممالک کی کل درآمدات وبرآمدات قریباً 880ملین ڈالر کی ہیں لیکن اس سے زیادہ کی گنجائش بھی موجود ہے خصوصاً پاکستان سکینڈ ے نیویامیں برآمدات اور سکینڈ ے نیویا پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی بڑی صلاحیت رکھتا ہے۔
عامر افتخار وڑائچ نے زور دیا کہ سکینڈ ے نیوین سرمایہ کاری کو پاکستان میں لانے کے لیے اسلوب حکمرانی امن و امان کی صورتحال اور سکینڈ نیوین لوگوں کے پاکستان کے متعلق تصورات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر صبیحہ سید نے سکینڈ نیوین ممالک کی سرمایہ کاری کو پاکستان میں لانے کے لیے غیر ملکیوں کے پاکستان کے متعلق تصورات کو غیر متوازی قرار دیا اور سکیورٹی مسائل کے حل کی جانب توجہ مبذول کروائی۔
ائر کموڈور خالد اقبال نے سٹریٹجک حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکینڈے نیوین ممالک پاکستان کو امریکی مؤقف کے حوالے سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ سکینڈے نیویا جیسے ترقی یافتہ اور خوشحال اقتصادی خطے کو عالمی امور پر غیر جانبدار تحقیق اور تجزیے کی بنا ء پراپنامؤقف اختیار کرنا چاہیے۔
حنا اختر نے پاکستان اور سکینڈ نیوین ممالک کے درمیان اقتصادی رابطے بڑھانے اور نئے مواقع دریافت کرنے کے لیے میڈیا میں پاکستان کے مثبت تاثر کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
پیٹر ایڈی کا کہنا تھا کہ ناروے میں پاکستانیوں کی معقول تعداد موجود ہے جو کہ معاشرتی اور سیاسی زندگی میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ لیکن پاکستان کامنفی تاثر اس کی اقتصادی ترقی میں حائل ہے جس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
جبکہ ریاض الحق نے پاکستان اور سکینڈے نیویا کے باہمی تعلقات کے فروغ میں پیش آنے والے تمام مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہمیں ایسے تمام اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ اور دونوں خطے کے لوگوں کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہوں۔
جواب دیں