کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیاروں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی پروگرام کی ضرورت
کیمیائی وحیاتیاتی ہتھیاروں کی ترقی اور ان کے استعمال پر بین الاقوامی کنونشن کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان دفاع اور تحفظ کا ایک ہنگامی نوعیت کا پروگرام وضع کرے تاکہ کسی بھی کیمیائی حملے کی صورت میں معصوم شہریوں کے تحفظ کو ممکنہ حد تک یقینی بنایا جاسکے۔
یہ وہ اختتامی جملے تھے جو سابق سفارت کار قاضی ہمایوں نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار میں صدارتی خطاب کے موقع پر کہے۔18اکتوبر 2012ء کو ہونے والے اس سیمینار کا موضوع تھا۔ ’’کیمیائی حیاتیاتی ہتھیار اور پاکستان۔ اس سیمینار میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر طغرل یامین بطور مقرر مدعو تھے۔
سیمینار میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی مختلف تعریفوں کے ساتھ بہت سے ایسے تکنیکی پہلو بھی گفتگو کا حصہ بنے جو بین الاقوامی تنفیذی اداروں کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں، اندرون ملک خطرے کے امکانات اور حفاظت کے طریقہ کار کا احاطہ کر رہے تھے۔ اس سیمینار میں سائنسدانوں ، سیکیورٹی ماہرین، دانشوروں، سرکاری افسروں، سفارت کاروں،ڈیفنس سٹڈیز اور نیوکلیئر سائنس کے طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ سیمینار میں میزبا ن کے فرائض آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر ریٹائرڈ ائیر کموڈور خالد اقبال نے ادا کیے جبکہ ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن بھی مقررین میں شامل تھے۔
قاضی ہمایوں کا کہنا تھا کہ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی کنونشن نے ان ہتھیاروں کے حوالہ سے کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ وہ کسی ایسے ملک کو ان ہتھیاروں کے بنانے سے نہیں روک سکتے جو یہ سب کچھ اعلان کیے بغیر کر رہا ہو۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی کنونشن کی وضع کردہ پالیسیوں پر عمل کرتا ہے لیکن ان ہتھیاروں کے استعمال کے خدشات کی موجودگی میں حفاظتی انتظامات اور طریقہ کار کو مربوط شکل دینا انتہائی ضروری ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی تنظیم OPCWیعنیOrganization for the Prohibition of Chemical Weapons صرف ان ذخائر اور سہولیات کی نگرانی کر سکتی ہے جو کسی ریاست کے اعلان کردہ ہوں جبکہ کیمیائی ہتھیاروں کے کسی بھی خفیہ ذخیرے کی نگرانی اس تنظیم کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی ان تنظیموں کی ان خامیوں اور تضادات کا سدباب ہونا بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹرطغرل یامین نے بتایا کہ جہاں تک ایٹمی، حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کے دفاعی نظام کے حوالہ سے تیاریوں کا تعلق ہے تو پاکستانی افواج کے تمام روایتی اور دفاعی یونٹوں کو اس جنگ سے بچاؤکی تمام سہولیات اور انتظامات فراہم کیے گئے ہیں اور انہیں اس کے لیے باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ تابکاری سے صفائی کی صلاحیتوں میں کسی حد تک کمی ہے جسے مزید ترقی دی جانی چاہیے۔ چونکہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے یہ ہتھیار بہت بڑی تعداد میں سول آبادی کی تباہی کا سبب بنتے ہیں اور زمین پر موجود زندگی اور ماحول پر طویل عرصہ کے لیے تباہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان ہتھیاروں کے خطرات سے سول آبادی کو محفوظ رکھنے کے عوامل پر کام کیا جائے۔
انہوں نے چند ایسے اقدامات بھی تجویز کیے جن پر عملدرآمد سے مقامی آبادیوں کو کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے خطرات سے بچاؤ کی صورت پیدا کی جاسکتی ہے ان تجاویز میں لوگوں کے اندر ان ہتھیاروں سے متعلق آگاہی پیدا کرنا اوران سے بچاؤ کے لیے ضروری ڈھانچے کی فراہمی شامل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ نیشنل ڈایزاسٹرمینیجمنٹ ایجنسی کو تمام سطحوں پر ہنگامی منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔
اس طرح کے خطرات و خدشات میں جن اداروں کو سب سے پہلے عملی اقدامات اٹھانا ہوتے ہیں ان میں مکمل آگاہی پیدا کرنے اور ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کی تربیت دی جانی بہت ضروری ہے۔ ان اداروں میں سول ڈیفنس ، پولیس، فائربریگیڈ اور طبی عملہ شامل ہے۔
مقرر نے لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ کیمیکل ویپنز کنونشن اور بیالوجیکل ویپنز کنونشن کا نقطہ نظر ہی یہ ہے کہ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں سمیت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو ختم کیا جائے لیکن ان ہتھیاروں کو بنانا اتنا آسان اور سستا ہے کہ بہت سے ملکوں نے چھوٹے پیمانے پر ان ہتھیاروں کی پیداوار شروع کر رکھی ہے۔
ڈاکٹر یامین نے کہا کہ کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے زمرے میں ہی آتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف فوری طور پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتے ہیں بلکہ ماحول اور زندگی شدید طور پر متاثر کرتے ہیں اور ان کے اثرات کئی نسلوں تک برقرار رہتے ہیں۔
انہوں نے تاریخ سے کئی مثالوں کا ذکر کیا جب ان ہتھیاروں کا بے رحمانہ استعمال کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی کنونشنوں کی پابندیوں کے باوجود ان ہتھیاروں کی پیداوار، حصول، ذخیرہ اندوزی اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی اور ان کے استعمال کے خلاف وضع کردہ مضبوط نظام کے باوجود ان کی موجودگی اور استعمال کے شدید خطرات موجود رہتے ہیں۔ جدید تاریخ میں جرمنی نے اتحادی فوجوں کے خلاف گیس چیمبرز کا استعمال کیا جبکہ امریکہ نے 1961ء میں لاؤس، کمبوڈیااور ویتنام میں 20ملین گیلن تباہ کن حیاتیاتی مواد استعمال کیا جو فصلوں کی تباہی کا باعث بنا۔ امریکہ کے ان حملوں کے اتنے خوفناک اور تباہ کن اثرات مرتب ہوئے کہ حال ہی میں امریکہ نے ویتنام میں ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے لیے 43ملین ڈالر کے اخراجات کیے ہیں۔
سیمینار میں پیش کی گئی ان معلومات سے ایک علمی مکالمہ اور تبادلہ خیال کی حیثیت سے مختلف پہلوؤں پرمفید اور سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ گفتگو میں یہ بات بھی نمایاں ہو کر سامنے آئی کہ امریکہ نے افغانستان میں جو بھاری بمباری کی ہے اس میں ریڈیو ایکٹو کیمیکلز کا استعمال ہوا ہے جس سے نہ صرف لوگوں کی اموات ہوئی ہیں بلکہ انہوں نے اس علاقے میں صحت، فصل اور پانی پر بھی بہت برے اثرات مرتب کیے ہیں جو نسل درنسل چلیں گے۔
شرکاء میں سے ایک صاحب نے بتایا کہ امریکہ اور نیٹو افواج نے بموں میں یورینیم کا استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے افغانستان اور اس کے ملحقہ علاقوں میں جلد کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ایک اور شریک گفتگو فرد نے توجہ دلائی کہ افغانستان سے آنے والی کھانے پینے کی اشیاء کو چیک کیا جانا چاہیے کہ ان پر ریڈیو ایکٹو اثرات تو مرتب نہیں ہوئے۔
اس طرف بھی توجہ مبذول کروائی گئی کہ پاکستان میں کام کرنے والی بڑی بڑی دوا ساز کمپنیاں بائیو ٹیکنالوجی اور جینیٹک انجینئرنگ کا نفع اندوز استعمال غیر قانونی سطح پر کرر ہی ہیں جس کی اگر حکومت نے نگرانی نہ کی تو اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ اس سے لوگوں کی صحت، مقامی فصلوں اور قابلِ کاشت زمینوں پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔
پروگرام میں شریک ایک صاحب نے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں میں جو قوانین متعین فرمائے ان میں کمانڈروں کو یہ ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ جنگی مہموں کے دوران پانی کے ذخیروں اور کنووں کو زہر آلودہ نہ کریں۔
جواب دیں