امریکی فوج کی سابق کرنل اور سفارت کار میری این رائٹ کے ساتھ ایک نشست
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں 2اکتوبر 2012ء کو امریکی فوج کی سابق کرنل اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی افسر میری این رائٹ اور انسانی حقوق اور امن کے لیے کام کرنے والے گروپ کو ڈپنک (Codepink)کی شریک بانی ممبر میڈی بنجمن کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔
اس سیمینار کی صدارت سابق سیکرٹری برائے خارجہ امور اکرم ذکی نے کی جبکہ خارجہ اور دفاعی امور پر دسترس رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ ان کے علاوہ دیگر شرکاء میں دانشور، سول سوسائٹی کے سرگرم افراد اور صحافی بھی شامل تھے۔
تمام مقررین اور شرکاء کی مشترکہ رائے یہ تھی کہ پاکستان میں امریکہ کے ڈرون حملے عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور اس بات کا ثبوت بھی ہیں کہ امریکہ اور پاکستان میں پالیسی سازی کی سطح پر سیکیورٹی سے متعلقہ لوگ ضمیر سے عاری افراد ہیں۔
امریکہ کے ایک آئینی ماہر کا حوالہ دیتے ہوئے این رائٹ نے ڈرون کو امریکی صدر کا قتل و غارت گری کا ذاتی ہتھیار قرار دیا کیونکہ پوری دنیا میں کسی بھی جگہ ہونے والے ڈرون حملے امریکی صدر کی طرف سے ہر ہفتے ملنے والی اجازت کے نتیجے میں ہوتے ہیں چنانچہ وہ ہر طرح سے اس کے براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’’یہ فیصلہ کرنا کسی کا اختیار کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کسی عدالتی نظام تک رسائی دیے بغیر جسے چاہے قتل کردے۔ یہ ہر لحاظ سے غیر قانونی ہے اور کسی بھی لحاظ سے قتل سے کم نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں کے ذریعے امریکہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے بلکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد وضع کردہ تمام اصولوں کی دھجیاں اڑارہا ہے۔ انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ ہمارے لیے یہ انتہائی شرمندگی کی بات ہے کہ امریکہ میں سب سے اعلیٰ منصب پر بیٹھے ہوئے ہمارے صدر نے قتل و غارت گری کے چیف کا کردار چن لیا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ڈرون حملوں اور دہشت گردی کے خلاف جاری نام نہاد جنگ کی مخالفت اور امن کی خاطر کا م کرنے والے سرگرم کارکنوں کو منظم ہو کر کام کرنا چاہیے۔ رائٹ کا کہنا تھا کہ امریکی فوج میں ابھی ایسے افراد موجود ہیں جو امریکہ کے فوجی منصوبوں سے شدید نفرت کرتے ہیں چنانچہ ایک عوامی مہم ایسے لوگوں میں جرات اظہار پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔طرف سے طاقت کے کسی بھی غیرقانونی استعمال کو ہر ممکن کوشش کر کے روکے گا۔ امریکہ اور پوری دنیا کے لوگوں کو یہ خبر ہونی چاہے کہ امریکہ اور نیٹو کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات بے رحمی پر مبنی، غیر منصفانہ اور کسی بھی لحاظ سے تعمیری نہیں ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے کے سامنے بھوک ہڑتال کا سوچ رہے ہیں تاکہ امریکی مظالم کو آشکار ا کیا جاسکے۔
سیمینار کے شرکاء نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ فاٹا میں ہونے والے انسانی زندگیوں کے نقصان اور سول آزاویوں کی بابت پاکستان اور امریکہ کی سیاسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ضمیر سوچکا ہے چنانچہ لوگوں کو خود سے ایسے اقدامات کے لیے اٹھ کھڑے ہونا ہوگا جن کے باعث ہر قانونی ذریعہ سے ذمہ دار افراد کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ سمجھداری کا ثبوت دیں۔
سیمینار میں یہ بات بھی اجا گر کی گئی کہ جس طرح امریکہ کے اندر امن کی تحریکیں اپنی آواز بلند کیے ہوئے ہیں اور دلیرانہ اقدامات اٹھاتی رہتی ہیں اسی طرح پاکستان کے لوگوں کو بھی آواز اٹھانا ہوگی۔ قبائلی علاقہ کے لوگوں کو فوجوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جو ان پر بمباری کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں جانتیں۔ قبائلی علاقے کے لوگوں کی آواز کوئی نہیں سنتا۔ انہیں خود شائد نہ کبھی خبر ہوئی ہے اور نہ ہوگی کہ ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان کے نام پر کیا کچھ ہو رہا ہے۔
آئی پی ایس کے ریسرچ ایسوسی ایٹ اور سابق سیکرٹری برائے خارجہ امور اکرم ذکی نے سیمینار کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ انسانی تہذیب وتمدن کا نچوڑ یہ ہے کہ اس نے وحشی سے وحشی قوت کو بھی اپنا مطیع بنایاہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جارحانہ پالیسی کا نقطۂ نگاہ صرف یہ ہے کہ اپنے فوجیوں کی جان کا خطرہ مول لیے بغیر دوسروں کومارڈالا جائے اور یہی کچھ ڈرون حملوں سے مترشح ہے۔
اکرم ذکی کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ امریکہ میں میڈیا کی آزادی اسی طرح کا فریب ہے جس طرح تیسری دنیا کے لے جمہوریت کا امریکی دعویٰ ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کا نظریہ میڈیا کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس بات کی آزادانہ رپورٹنگ کر سکے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ نے کیا کیا مظالم ڈھائے ہیں اور ڈرون حملوں کے ذریعے کس طرح ہزاروں افراد کو بے گناہ مارا گیا ہے اور انہیں ہمیشہ کے لیے اپاہج کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں بش کا دور بین الاقوامی لاقانونیت کا دور تھا۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جب پاکستان میں ڈرون حملوں کا آغاز کیا گیا تو یہ سب کچھ اُس وقت کی پاکستانی حکومت کی ملی بھگت سے ہوا۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ موجود جمہوری حکومت بھی انہیں لائنوں پر چل رہی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی اپی ایس نے بھی اس موقع پر خطاب کیا اور امریکہ سے آئے وفد کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے طاقت کے بےرحم استعمال کے خلاف اقدامات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ آئی پی ایس ان کے مقاصد کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کے لیے درکار ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کو تیار ہے۔
جواب دیں