یہ ایمان کی بنیاد پر حملہ ہے، اس لیے مسلمانوں کا ردِّعمل عالمگیر ہے۔
ایک بین الاقوامی نیوز چینل پریس ٹی وی نے اپنی 14ستمبر 2012ء کی نشریات کے لیے ڈائریکٹر جنرل انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز جناب خالد رحمن کا انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو میں بیروت سے شائع ہونے والے اخبار ’’الاخبار‘‘ کے ایڈیٹر عمر نا شا بے بھی مہمان کے طور پر شریک گفتگو تھے۔ انٹرویو کا مقصد عالم اسلام میں ہونے والے اس شدید احتجاج پر گفتگو کرنا تھا جو امریکہ میں بنائی گئی توہین رسالت پر مبنی فلم کی مذمت میں کیا جا رہا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس سے پروگرام کے دوران کیے گئے سوالات اور ان کے جوابات کی مکمل کاپی ویڈیو لنک کے ساتھ درج ذیل ویب سائٹ پر موجود ہے جس کا اردو ترجمہ ہم یہاں اپنے قارءین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
[ http://www.presstv.ir/detail/2012/09/14/261564/antiislam-movie-an-insult-to-sharia/]
پریس ٹی وی: تھوڑی دیر قبل ہم قاہرہ سے براہ راست نشریات میں دیکھ رہے تھے کہ لوگ چار دن سے امریکی ایمبیسی کے باہر جمع ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ قاہرہ میں تعینات امریکی سفیر کو ملک بدر کیا جائے ۔ قاہرہ وہ جگہ ہے جہاں ابامہ چار سال قبل صدر منتخب ہونے کے فوری بعد آئے تھے اور مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے تقریر کی تھی۔ اس تقریر کے پیچھے یہ امید کار فرماتھی کہ امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات کا نیا باب شروع ہوگا۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس نئے باب کا آغاز پچھلے چار سالہ دور میں کسی بھی طرح ہوا ہے؟
خالد رحمن : میں آپ کا مشکور ہو ں کہ آپ نے مجھے اپنے پروگرام میں بلوایا۔ میں اپنی بات کا آغاز اس سوال کے ضمنی جواب سے کروں گا جو آپ نے لبنان میں میرے ساتھی سے کیا ہے۔ جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے لیے کوئی عام سے فرد نہیں ہیں۔ مسلمان انہیں اپنی شریعت میں سب سے معتبر اوراہم ترین ذریعہ کا درجہ دیتے ہیں چنانچہ ان کی کسی بھی قسم کی توہین درحقیقت شریعت اسلامیہ کی توہین ہے۔
توہین رسالت کا یہ حملہ در حقیقت مسلمانوں کے ایمان کی بنیادی اکائی پر حملہ ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ساری دنیا کے مسلمانوں میں اس کا شدید ردعمل دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ اس احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھیں تو آپ کو ان کے شرکاء میں نوجوان ، بوڑھے، تعلیم یافتہ، غیر تعلیم یافتہ ہر طرح کے افراد نظر آئیں گے۔ یہ احتجاج ہر مکتبۂ فکر کے مسلمان کر رہے ہیں۔ اب اس سوال کی طرف آتے ہیں جو آپ نے براہ راست مجھ سے کیا ہے۔ میری رائے میں یہ امریکہ کی ناکامی ہے کہ وہ مختلف مواقع پر اپنے طرز عمل میں بڑا اچھا نظر آتا ہے لیکن جہاں تک عملی صورت حال ہے وہ مسلسل ایسے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے جو مسلم دنیا اور مغرب بالخصوص امریکہ کے درمیان کشمکش کی بنیادی وجوہات کو ختم نہیں ہونے دیتے۔
آپ اس فلم کے تازہ ترین معاملے کو ہی لے لیجیے۔ یہ اس نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ تو نہیں ہے نہ ہی یہ کوئی پہلی فلم ہے جو امریکہ میں بنی ہے۔ اس ساری صورت حال کا بدقسمت پہلو یہ ہے کہ جہاں امریکہ نے اپنے سفیر کے قتل پر ردعمل کا اظہار کیا ہے، جو ایک طرح سے قابل فہم ہے، لیکن ایسا ہی ردعمل فلم بنانے والوں کے خلاف کیوں نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی ایسا حقیقی ردعمل سامنے آیا ہے جس سے اس جرم کے مکروہ پن کا اظہار ہی ہوجاتا۔ جبکہ امریکی حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اقوام متحدہ اور یونیسکو کی ان دستاویزات کو مقدم جانے جن میں ہر حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے نفرت انگیز جرم کا ارتکاب نہ ہونے دے جس سے کسی مخصوص ثقافت کو نشانہ بنایا گیا ہو۔
امریکی حکومت کی یہ قانونی ذمہ داری ہے لیکن وہ اسے ادا نہیں کر رہی ۔ اس معاملے میں تو بالخصوص یہ بات پریس میں آچکی ہے کہ فلم میں کام کرنے والے 80فی صد سے زائد اداکاروں اور اداکاراؤں کا بالکل واضح موقف یہ ہے کہ انہیں دھوکا دیا گیا ہے۔ انہیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس طرح کی فلم بننے جارہی ہے۔ اور جب ان لوگوں نے اپنا کام مکمل کرلیا تو اس فلم کا حلیہ بگاڑ دیا گیا اور اس میں تبدیلیاں کردی گئیں۔
اب بتایا جائے کہ یہاں امریکی قوانین کہاں گئے ؟ فلم میں حصہ لینے والے 80فی صد اداکار یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں فریب دیا گیا ہے لیکن کہیں کوئی قانونی اقدام نظر نہیں آتا۔
چنانچہ چار سال پہلے مصر میں جیسی بھی تقریر کی گئی تھی وہ وقت قصرِصدارت میں ابامہ کا ابتدائی دور تھا اور یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کے سامنے کچھ اچھے مقاصد و نظریات بھی ہوں گے لیکن جہاں تک پورے امریکی نظام کا تعلق ہے تو یہ آج بھی قابل بھروسہ نہیں ہے۔ بالخصوص ان معاملات میں جو مسلمانوں سے متعلق ہیں۔اس نظام کے کرتا دھرتاوہی کچھ مسلسل کر رہے ہیں جو اس سے پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے۔
پریس ٹی وی : کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت مسلم دنیا اس فلم اور امریکی پالیسیوں کے خلاف متحد ہو کر کھڑی ہے اور یہ صورت حال اسلامی فوبیاکے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھے گی؟کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس موقع پر مسلم دنیا میں بیداری آئے گی اور وہ اسلامی فوبیاکے موجودہ ماحول کی شدت کم کرنے کے لیے متفقہ کوشش کرے گی؟
خالد رحمن: آپ کے اس سوال کا جواب ہاں بھی ہے اور نہ بھی۔ ہاں اس طرح کہ آپ دیکھ رہے ہیں اس طرح کی کسی حرکت کے خلاف نفرت اور غصے کے اظہار کے لیے پورا عالم اسلام سراپا احتجاج ہے۔ جہاں تک مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد کا سوال ہے تو وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ اس معاملے میں ان کاردعمل یکساں ہے۔
لیکن جب مسلمان حکومتوں کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صورتِ حال کی مناسبت سے ان کاردعمل مطلوبہ شکل میں نہیں ہے۔ ہمارے پاس ردِّعمل کے اظہار کے بہت سے طریقے ہیں لیکن انہیں استعمال نہیں کیا جارہا۔ اقوام متحدہ میں ہی مسلمان ملکوں کی تعداد 50سے زیادہ ہے لیکن ہم اس طرح کے معاملات کو اقوام متحدہ میں مشترکہ جدوجہد کی شکل میں نہیں لا رہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسلم دنیا میں بھرپور توانائی ہے۔ لوگوں کا کی بہت بڑی تعداد مختلف طریقوں سے اپنے نقطۂ نظر کاتسلسل سے اظہار کرتی رہتی ہے لیکن جہاں تک مسلم حکومتوں کا تعلق ہے وہ درست سمت میں اقدامات نہیں اٹھاتیں اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنی اپنی حکومتوں پربھی توجہ مرکوز کریں۔ جب حالات میں تشدد کا عنصر شامل ہوجاتا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ حکومتیں لوگوں کی توقعات پوری نہیں کر رہی ہیں جس کے باعث احتجاج کی شکل تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔
بات ہاں کی ہو یا نہ کی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جذبات، توانائیوں اور طاقت و قوت کو مسلم دنیا کے اندر اور باہر لوگوں کی تعلیم و تربیت پر صرف کیا جائے اور عالمی سطح پر ایک متفقہ مؤقف اپنا کر عالمی قوانین تشکیل دینے کی جدوجہد کی جائے۔ پھر یہ قوانین جس شکل میں بھی بنیں ان پر عملدرآمد کی کوشش کی جائے۔ ان پر عملدرآمد کروانے کے لیے امریکہ بالخصوص اور مغربی ممالک پر بالعموم مختلف ذرائع سے دباؤ ڈالا جائے کیونکہ اس طرح کی تمام کاوشوں کے بار آور ہونے اور نہ ہونے کا عملی نتیجہ انہی ممالک نے یرغمال بنا رکھا ہے۔
نوعیت : انٹرویو
تاریخ: 14 ستمبر ۲۰۱۲ء
جواب دیں