افغانستان میں امن کا عمل، افغانوں کے ذریعے، افغانوں کی رہنمائی میں
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں ۳ ستمبر ۲۰۱۲ کو منعقد ہونے والے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان کے اردگرد موجود پڑوسی ممالک کے لیے افغانستان ایک ایسی جگہ ہے جس کی خاطر انہیں ایک بہتر اور ترقی یافتہ مستقبل کے لیے اپنے اختلافات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ امن کا یہ سفر افغانستان سے افغانوں کے ذریعے اور افغانوں کی رہنمائی میں شروع ہو۔ یہ سیمینارپاکستان کے سابق سفیر اور وزیر خارجہ تنویر احمد خان کی صدارت میں منعقد ہوا ۔معروف افغان دانشور، سابق مجاہد رہنما اور روس کی افغانستان سے بیدخلی کے بعد افغانستامیں بننے والی قومی حکومت میں دو مرتبہ وزیر رہنے والے ڈاکٹر غلام فاروق اعظم اس کے خصوصی مہمان مقررتھے۔بعد میں شرکاء نے باہمی تبادلۂ خیال بھی کیا۔
افغانستان کے مستقبل کا نقشہ کھینچتے ہوئے ڈاکٹر اعظم نے بتایا کہ سکینڈ ینویا اور مشرق بعید کے ممالک سے رابطے کے لیے سٹرکوں اور ریلوے لائنوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے تاکہ دنیا کو افغانستان سے اقتصادی طور پر جوڑا جاسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو وسطِ ایشیا سے تیل اور گیس کی اشد ضرورت ہے جوبہر صورت افغانستان اور پاکستان کے راستے سے ہو کر ہی آسکتی ہے۔ شمالی سلک روٹ کا تصور عالمی طاقتوں نے ہی پیش کیا تھا، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں افغانستان کی تزویراتی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس پس منظر میں بھارت اور پاکستان دونوں کو اپنے مفادات کو یقینی بنانے کے لیے افغانستان میں امن کا ساتھ دینا ہوگا اور اس سے بھی آگے بڑھ کر آپس کے جھگڑے ختم کر کے امن کی راہ اپنانا ہوگی۔ڈاکٹر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے ہمسایہ ممالک کو اس خطے میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کا حق حاصل ہے اور یہی حق افغانستان کو بھی حاصل ہے۔ان کا نقطۂ نظر تھا کہ امریکہ یہ جنگ نہیں جیت سکتا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلح حزبِ اختلاف یا افغانستان کا کوئی پڑوسی ملک اس جنگ کا فاتح بن کر ابھر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس کی شکست اور افغانستان سے انخلا کے بعد نہ تو مجاہد ین ہی فتح یاب ہو پائے اور نہ کوئی مستحکم اور اتفاق رائے پر مبنی حکومت تشکیل دی جاسکی۔ افغانستان کے ہمسایوں کو بھی کچھ حاصل نہ ہوا۔ انہوں نے انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ وہی صورتِ حال دوبارہ پیدا ہو سکتی ہے۔افغانستان سے شروع ہونے اور افغانیوں کی قیادت میں کسی امن کے عمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ وہ خود بھی افغانستان کے کچھ بااثرافراد کے ساتھ مل کرایک امن فارمولے پر کام کر رہے ہیں جس کے بارے میں امید ہے کہ تمام فریقین کے لیے قابل عمل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اکثریت کو یہ فارمولاقابل قبول ہوناچاہیے اور انہیں اس کی حمایت بھی کرنی چاہیے اور جنہیں اس سے اتفاق نہ ہو انہیں بھی یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس کے نتیجے میں تنہا ہو جائیں گے۔انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے افغان صدر حامد کرزئی اور افغانستان میں دیگر اہم رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں امن کے عمل کے لیے اپنی تجاویز پیش کی ہیں۔ ڈاکٹر اعظم کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد نے انہیں اپنی حمایت اور تعاون کا یقین دلایا ہے۔
سیمینارکے چیئرمین تنویر احمد خان نے کہا کہ پاکستان کا اصولی موقف بھی یہی ہے کہ افغانستان میں امن کا عمل خود افغانیوں کی قیادت میں شروع ہونا چاہیے۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس علاقے کے ممالک کو افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے اور اس بات کو یقینی بناناچاہیے کہ افغانستان ایک آزاد، خودمختار اور خوشحال ملک بن سکے۔ ان کے خیال میں دیگر طاقتوں کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی ایک علاقائی طاقتور ملک کی حیثیت حاصل ہونے کے باعث تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ پاکستان افغانستان کو ذیلی ریاست بنانا چاہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک آزاد، خود مختار اور خوشحال افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔
افغانستان میں امریکہ کے کردار کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ نے قومی تعمیر نو کے منصوبے بند کر دیے ہیں اور وہ افغان عوام کی بہبود کے منصوبوں سے لاپروائی برت رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کو شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے اور اس سلسلے کو ہوا دیتا رہتا ہے۔ تاہم افغان قوم کے مضبوط تاریخی پس منظر کے باعث ملک میں کوئی بھی نسلی گروہ افغانستان کی سرزمین کو لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ حزب اسلامی افغانستان کے نمائندے ڈاکٹر غیرت بہیر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپنی پارٹی کی طرف سے امن تجاویز کے لیے پیش کیے گئے 15نکات کا ذکر کیا۔ انہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں امن کے حوالہ سے اب گیند امریکہ کی کورٹ میں ہے کیونکہ اپوزیشن کی تمام قوتیں علاقے میں حقیقی امن لانے کی خواہشمند ہیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن امریکہ کی طرف سے بات چیت شروع کرنے سے پہلے لگائی گئی شرطوں کے بر خلاف نہ تو ہتھیار ڈالے گی اور نہ افغانستان کے موجودہ آئین کو تسلیم کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ افغان صدر حامد کرزئی سے کئی دفعہ ملاقات کر چکے ہیں اور وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ افغان حکومت سے مذاکرات کسی بھی طرح فائدہ مند نہیں ہیں کیونکہ وہ ایک بے اختیار حکومت ہے۔
بہیر نے بتایا کہ وہ افغانستان میں تعینات کئی اعلی ترین امریکی عہدیداروں سے مل چکے ہیں انہوں نے یہ بات بالکل واضح طور پر بتائی ہے کہ امریکہ مستقبل قریب میں افغانستان سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ انہوں نے امریکیوں کے الفاظ دہرائے ’’ہم افغانستان میں مستقل طور پر نہیں رہیں گے لیکن ہم یہاں بہت طویل عرصہ تک قیام کریں گے‘‘۔ اوریہ کہ ’’ہم 2014ء میں افغانستان سے نکل جائیں گے لیکن اپنے پیچھے غیر لڑاکافوج کی مناسب تعداد چھو ڑ جائیں گے‘‘۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ روسی فوج کے انخلا کے بعد امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ مجاہدین افغانستان پر حکومت کریں۔ اس نے خفیہ طور پر روس کے ساتھ مل کر نجیب اللہ کی صدرکے طور پر حمایت کی۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اوجڑی کیمپ کے حادثے اور جنرل ضیاء الحق کے پر اسرار قتل میں امریکی ہاتھ تھا۔
ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے بھی اس موقع پر خطاب کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ انسٹی ٹیوٹ تحقیق اور معنی خیز مذاکروں کے ذریعے افغانستان میں امن کے عمل کے لیے ہونے والی جدوجہد میں اپنا کردار نبھاتا رہے گا۔
جواب دیں