سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے پاکستان میں قانونی خلا
معلومات اور مواصلات کے میدان میں ہونے والی تیز رفتارتبدیلیوں نے جہاں بے انتہا مواقع فراہم کر دیے ہیں وہیں پر سائبر یعنی کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی دنیا میں مفسدانہ سرگرمیوں اور جرائم کی شکل میں نئے نئے خدشات اور خطرات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ اگرچہ سائبر کی دنیا میں جاری ان تمام سرگرمیوں پر نظررکھنے اور انہیں متوازن چلانے کے لیے ایک جامع پالیسی اور مؤثر قانونی طریقہ کار کی ضرورت ہے تاہم بدقسمتی سے پاکستان میں معلومات اور مواصلات کے اس نظام میں بڑھتے ہوئے صارفین ایک قانونی خلا میں کام کر رہے ہیں کیونکہ سائبر جرائم کی روک تھام اور انہیں کنٹرول کرنے کے لیے 2009ء میں جاری کردہ سائبر جرائم آرڈی ننس کی مدت ختم ہوچکی ہے۔
اس پس منظر کے ساتھ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ہونے والے سیمینارمیں مقررین نے ایک مؤثر قانونی طریقہ کار ترتیب دینے پر زور دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سائبر جرائم اور اس کے دیگر تمام پہلوؤں سے متعلق ایک عمومی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی گئی ۔ اس اہم پہلو پر بھی توجہ دلائی گئی کہ حکومتی اداروں پر زور دیا جائے کہ وہ سائبر جرائم کے خطرات سے نپٹنے کے لیے اپنے وسائل بروئے کار لائیں جو کہ نہ صرف افراد اور اداروں کی سلامتی کے لیے بے انتہا ضروری ہے بلکہ اس سے پورے ملک اور ریاست کی سلامتی بھی منسلک ہے کیونکہ سپریم کورٹ، ایوان صدر اورکئی دیگر ریاستی اداروں کی ویب سائٹوں تک نا واجب رسائی حاصل کرنے (hacking)کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
اجلاس کی صدارت آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے ممبر اور سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ کموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال نے کی۔ اس میں اظہار خیال کرنے والوں میں نیا ٹیل (Nayatel)کے چیف ایگزیکٹوآفیسر اور پاکستان میں انٹرنیٹ کی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کی ایسوسی ایشن (ISPAK)کے کنوینر وہاج السراج، ایف آئی اے میں سائبر جرائم ونگ کے پراسیکیوٹر طارق بلال ایڈووکیٹ، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن اور نادیہ خادم ایڈووکیٹ شامل تھے۔ دیگر شرکاء میں معلومات اور مواصلات کی ٹیکنالوجی (ICT)کے ماہرین ،اس پیشہ سے متعلق افراد، تعلیمی اداروں کے اساتذہ، حکومتی ایجنسیوں کے نمائندوں، سیکورٹی تجزیہ نگاروں اور سول سوسائٹی کے ارکان بھی موجود تھے۔
اس سیمینارمیں بنیادی زور اس بات پر دیا گیا کہ موجودہ صورت حال سے متعلق آگاہی پیدا کی جانی چاہیے اس کے لیے ضروری ہے کہ سائبر جرائم کی شدت کو سامنے لایا جائے اور اس سے متعلق کسی قانون کی غیر موجودگی کے نتائج بیان کیے جائیں تاکہ اس سے متعلق تمام متعلقہ طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے اس مسئلے پر مذاکرات کا آغاز کیا جا سکے۔ یہ وہ صورت حال ہے جس میں قانون سازی کے لیے تجاویز اکٹھی کی جاسکتی ہیں اور پھر اس سے متعلق قوانین کو پاکستان میں لاگو کیا جاسکتا ہے۔
طارق بلال نے بتایا کہ ملک میں سائبر جرائم سے نپٹنے کے لیے کوئی بھی ایسا قانونی ڈھانچہ موجود نہیں ہے جس میں کوئی معیاری قانونی طریقہ کار موجود ہو۔ انہوں نے سماجی ذرائع ابلاغ کے نیٹ ورک اور مواصلات کے دیگر ڈیجیٹل ذرائع میں ہونے والے ایسے کئی مقدمات کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے قانونی جنگ لڑی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ سائبر جرائم سے متعلق آگاہی میں کمی کے باعث نہ صرف غیر تربیت یافتہ افراد بلکہ اہم عہدوں پر تعینات اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی ان جرائم کا شکا رہو ئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی توجہ دلائی کہ اس ضمن میں حکومتوں نے بہت بڑی رقم مختص بھی کی لیکن اسے اس طرح کے جرائم سے نپٹنے کے لیے کسی مؤثر انداز میں خرچ نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سائبر کی دنیا میں کیے جانے والے جرائم پر نظر رکھنے والی ایجنسی کے پاس ماہرین اور افرادی قوت کی کمی ہے چنانچہ وہ سائبر جرائم کرنے والے مجرموں کے مقابلے میں مہارت کا ثبوت نہیں دے سکتے۔
انہوں نے یہ ہوش ربا انکشاف بھی کیا کہ سائبر جرائم جیسے اہم مسئلے سے نپٹنے کے لیے ہمارے ہاں اعلیٰ سطح پر بے توجہی اور لاپروائی کی حالت یہ ہے کہ پاکستان اس سے متعلق بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے معاہدات کا حصہ ہی نہیں ہے۔ حالت یہ ہے کہ اس موضوع پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے ہمارے پاس کوئی سرکاری نمائندہ ہی موجود نہیں ہے یہ سب کچھ اُس وقت ہورہا ہے جب پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
وہاج السراج نے سائبر جرائم سے متعلق ایک ایسے قانون کے حق میں دلائل دیے جو بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھے اور اس سے اختیارات استعمال کرنے والوں کے ہاتھ ایسا اختیار نہ آجائے کہ وہ اس آزادی کو پامال کرنا شروع کردیں جو لوگوں کو انسانی حقوق کی فراہمی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ سائبر جرائم کو کنٹرول کرنے اور ان سے محفوظ رکھنے والے آرڈی ننس کے نقائص پہ روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جرائم اور آزادی رائے میں حد فاصل قائم رہنی چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اہم قومی نیٹ ورکس کی مؤثر انداز میں حفاظت کا انتظام کیا جانا چاہیے اور انہیں محفوظ رکھنے کے لیے سیکورٹی کے اعلیٰ اقدامات کی ضرورت کا ادراک کرنا چاہیے۔
گفتگو کے دوران یہ موضوع بار بار بحث کا حصہ رہا کہ جہاں آگاہی کی کمی ہرسطح پر موجود ہے اس کی شدت کا احساس قانون سازی کرنے والوں میں زیادہ نظر آتاہے جو کہ 2009ء کے آرڈی ننس کی مدت ختم ہونے پر اس قانونی خلا کے پیدا ہونے کے بنیادی طور پر ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے پچھلے تین سالوں میں قومی مشاورت کے لیے ایک ڈرافٹ تک تیار نہیں کیا ہے۔
کموڈور (ریٹائرڈ) خالد اقبال نے اپنے صدارتی خطاب میں اجلاس کا اختتام کرتے ہوئے 2009ء کے سائبر آرڈی ننس میں سائبر جرائم کے کنٹرول اور ان سے محفوظ رہنے کی شقوں میں تضاد اور اس کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کی اور اس بات پر زور دیا کہ اس سے زیادہ مؤثر اور جامع قانون تشکیل دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے اس طرف توجہ دلائی کہ جب بھارت کی حکومت نے بلیک بیری کمپنی کے ساتھ سرمایہ کاری کے امور پر گفت و شنید کی تو انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ معاہدے میں یہ شق موجود ہونی چاہیے کہ جب بھی ملکی سلامتی کے تحت ضرورت محسوس کی جائے گی تو سرمایہ کار کمپنی حکومت کی درخواست پر فون استعمال کرنے والے افراد کا ڈیٹا فراہم کرے گی۔ ایسا ہی حکومت پاکستان کو کرنا چاہیے تھا لیکن قومی سلامتی کے اس اہم پہلو پر توجہ نہیں دی گئی۔
نوعیت : رو داد سیمینار
تاریخ: ۲۹ اگست ۲۰۱۲ء
جواب دیں