پالیسیوں کاعدمِ تسلسل اور فیصلے کرنے کا غیر جمہوری انداز ہماری معاشی مشکلات کا بڑا سبب ہے۔ فصیح الدین
پلاننگ کمیشن کے سابق چیف اکانومسٹ فصیح الدین نے کہا ہے کہ مختلف ادوارِ حکومت میں پالیسیوں کا عدم تسلسل اور فیصلہ سازی میں جمہوری روایات سے انحراف پاکستان کی معاشی پریشانیوں کی بنیادی وجوہات میں سےہے۔
وہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ’’اسٹاف ڈویلپمنٹ پروگرام‘‘ میں ادارہ کی ریسرچ اور انتظامی ٹیم سےخطاب کر رہے تھے۔ یہ پروگرام ۱۱ مئی ۲۰۱۲ء کو منعقد ہوا۔ انہوں نے حکومتی ایوانوں میں ایک لمبے عرصے تک مختلف حیثیتوں سے خدمات انجام دینےاور مختلف مقتدر شخصیات کو قریب سےدیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے سے حاصل ہونےوالے تجربات بیان کیے۔
جناب فصیح الدین پلاننگ کمیشن پاکستان کے چیف اکانومسٹ کے علاوہ وزیرِ خزانہ کے مشیر اور وزارتِ خزانہ کے اکنامک ایڈوائزر بھی رہے۔ وہ متعدد کتابوں، تحقیقی مطالعوں اور مضامین کے مصنف ہیں اور بہت سی بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کر چکے ہیں۔ آج کل وہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں ڈبلیو ٹی او ماہرین گروپ کے چیئر مین ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی ملک کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ ہمارے حصے میں جو معاشی ڈھانچہ آیاتھا وہ انڈیا کے مقابلے میں بہت کمزور تھا، اس لیے ہمیں شروع ہی سے غیر ملکی امداد پر انحصار کرنا پڑا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’’ معاشی پالیسیوں میں عدم تسلسل‘‘ وہ سب سے اہم وجہ ہے جس کی بناء پر ہم اب بھی پاکستان کے حقیقی معاشی امکانات کا پوری طرح ادراک نہیں کر پاتے۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ابتدائی برسوں میں تو طویل المیعاد معاشی منصوبہ بندی پر عمل درآمد ہوتا رہا تاہم مشرقی پاکستان کی علا حدگی کے بعد ’’سو شلسٹ‘‘ اصولوں کی بنیاد پر معاشی تجربات کو آگے بڑھایا گیا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قومیانے کا عمل ہُوا۔ اس کے بعد ’’اسلا مائزیشن‘‘ کے نام پر اس کے برعکس عمل شروع ہُوا، یہ بھی زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا۔ ۱۹۸۸ء کے بعد بار بار بدلتی سیاسی حکومتوں کے دور میں یہ ممکن نہ تھا کہ طویل المیعاد معاشی سوچ کے ساتھ منصوبے بنائے جاتے۔ چنانچہ اس دور میں بھی کسی کامیاب معاشی پالیسی میں تسلسل قائم نہ رہ سکا۔
انہوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ قیامِ پاکستان کے ابتدائی دور میں فیصلہ سازی کا عمل زیادہ جمہوری تھا جس میں کابینہ تمام اہم اُمور پر خوب غور و خوض کے بعد اتفاق رائے سے فیصلے کرتی تھی، وزیرِاعظم محض اپنی مرضی سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کا مجاز نہ تھا۔ تاہم ایوب خان کے اقتدار میں آنے کے بعد صورتِ حال بدل گئی اور فیصلوں کا اختیار ایک شخصیت میں مرتکز ہوگیا۔ اگرچہ دستاویزات میں فیصلہ کرنے کا عمل اب بھی بہت واضح طور پر وہی تحریر تھا، تاہم اُس وقت کے بیوروکریٹس کو یہ بہت آسان لگتا تھا کہ کسی مسئلہ پر کابینہ کو قائل کرنے کے لمبے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے وہ براہِ راست صدر سے رابطہ کریں اور انہیں آسانی سے اپنا ہم خیال بنالیں۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے قومی معاملات چلانے کی یہ صورتِ حال آج تک چلی آرہی ہے۔
پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر بیرونی قوتوں کے دباؤ پر تبصرہ کرتے ہوئے فصیح الدین نے کہا کہ ابتدائی دور میں غیر ملکی معاشی امداد ’’پراجیکٹ کی بنیاد‘‘ پر ملتی تھی، تاہم ۱۹۸۰ء کے عشرے میں جب سے پاکستان آئی ایم ایف کےا سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام (SAP)میں گیا ہے، یہ امداد ’’پالیسی کی بنیاد‘‘ پر ملتی ہے۔
سنگاپور کے بانی مسٹر لی کوان یو سے اپنی ملاقات کی یاد تازہ کرتے ہوئے انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ مسٹرلی کو ان نے پاکستانی سرکاری وفد سے پوچھا کہ پاکستان کا عام آدمی حکومت سے کیا توقعات رکھتا ہے؟ وفد کے ارکان اس سوال کا کوئی قابلِ اطمینان جواب نہ دے سکے۔ انہوں نے حکومت اور عام آدمی کے درمیان کمیونیکیشن گیپ کو کم کرنے کی ضرورت پر بہت زور دیا اور بتایا کہ عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد کا مضبوط رشتہ قائم کیے بغیر کوئی بھی قومی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو کوئی بھی پالیسی وضع کرنے سے پہلے عام آدمی کی مشکلات اور مسائل کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔
جناب فصیح الدین نے اٹھارہویں دستوری ترمیم کے بعد اس کے تقاضے کے طور پر قومی اقتصادی کونسل اور مشترکہ مفادات کی کونسل کو زیادہ بااختیار اور فعال بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
نوعیت: سیمینار رپورٹ
تاریخ: ۱۱ مئی ۲۰۱۲ء
جواب دیں