فاٹا کی صورت حال-مضمرات اور آئندہ کا لائحہ عمل
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ۱۰مئی ۲۰۱۲ءکو ایک سیمینار منعقد ہوا جس کا عنوان تھا ’’فاٹا کی صورت حال- مضمرات اور آئندہ کا لائحہ عمل‘‘ ۔ اس سیمینار سے سابق سفیر جناب ایاز وزیر،بریگیڈیر (ریٹائرڈ) سید نذیر، ایرکموڈور (ریٹائرڈ)خالد اقبال، بیرسٹر ظفر اللہ خان اور آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمٰن نے خطاب کیا۔
سیاسی، سیکیورٹی اور آئینی و قانونی پہلوؤں سے حالات کا جائزہ سامنے آنے کے بعد سیمینار کے مقررین کا اتفاق تھا کہ پاکستانی قبائلی علاقے کے عوام کو کسی طرح بھی اُس صورتِ حال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا جو ملک، خطے اور دنیا میں رونما ہوئی۔ اصل بات یہ ہے کہ قبائلی علاقے کے عوام تو اُن قومی اور بین الاقوامی پالیسیوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو کسی تدبر اور غور و فکر کے بغیر اپنائی گئیں اور انتہائی غلط اور بھونڈے طریقے سے نافذ کر دی گئیں۔
گفتگو کی سمت کا تعین کرتے ہوئے آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمٰن نے وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام پاکستان کے قبائلی علاقے کی صورتِ حال اور اس کے پس منظر سے شرکاء کو آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سات ایجنسیوں اور چھ فرنیٹر ریجنز پر مشتمل یہ علاقہ تقریباً چالیس لاکھ آبادی رکھتاہے۔ اور سرکاری اعدادو شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاٹا کا یہ علاقہ بنیادی انسانی ضروریات اور بنیادی ڈھانچہ کی فراہمی سے ہمیشہ ہی محروم رکھا گیا ہے۔ سماجی تحفظ کے پہلو سے یہ علاقہ دنیا کے بعض پس ماندہ علاقوں سے بھی کم تر درجہ پر ہے اور گزشتہ حکومتوں نے اس علاقے کے لیے اگر کچھ ترقیاتی کام کیے بھی تھے تو حالیہ فساد اور تباہی میں وہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے اور یہ بالکل کھنڈر بن چکا ہے۔ دستیاب سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ۲۱۸۰ افرادکے لیے ہسپتال کا ایک بستر اور ۷۶۷۰افراد کے لیےایک ڈاکٹر موجود ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ حقیقی صورتِ حال اس سے بھی زیادہ خراب ہو۔
مسئلہ کے سیاسی پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر جناب ایاز وزیر نے کہا کہ ۱۹۴۸ءمیں اس علاقے کے دورے کے موقع پر قائداعظم نے یہاں کے عوام سے تین وعدے کیے تھے یعنی: علاقے سے تمام فوجی دستے نکال لیے جائیں گے، یہاں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کیے بغیر ایسے اقدامات کیے جائیں گے جس سے یہاں کے عوام کو بہتر خدمات اور مواقع حاصل ہوسکیں اور یہ کہ اگر موجودہ کیفیت (Status quo)کو کبھی تبدیل کرنے کی ضرورت پڑی تو یہ تبدیلی یہاں کے عوام کے مشورہ ہی سے لائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ بعد کے فوجی حکمرانوں نے یہ تینوں وعدے پامال کردیے۔
فیڈریشن اور علاقے کے باہمی معاملات اور موجودہ انتظامات پر تنقید کرتے ہوئے جناب ایاز وزیر نے کہاکہ وہاں کے اُمور میں خطے کے عوام کا کوئی حصہ نہیں ہے حتٰی کہ وہاں کے سیاسی نمائندوں کا بھی معاملات چلانے میں کوئی کردار نہیں ہے۔
سیکیورٹی کے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے بریگیڈیر (ریٹائرڈ) سید نذیر نے کہا جغرافیائی لحاظ سے اِس بند علاقے میں غیر ملکیوں کے آنے اور وہاں ٹھکانے بنانے کا الزام لگایاجاتا ہے، جس کے لیے مقامی لوگ ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے غیر ملکیوں کو پناہ دی ہے۔ پاکستان آرمی اس علاقے میں ۲۰۰۳ء میں چار سے پانچ سو ’’خوابیدہ جہادیوں‘‘ سے نمٹنے کے لیے وہاں داخل ہوئی تھی۔ حالانکہ اگر وہ وہاں کچھ مسئلہ تھے تو وہاں کی مقامی انتظامیہ اور ایف سی کے چالیس ہزار جوان اس معمولی تعداد سے نمٹنے کے لیے کافی تھے۔ لیکن ۵۵۰۰سے زائد جیٹ لڑاکا طیاروں کی پروازوں، بھاری توپ خانہ کے استعمال اور ۳۰۰سے زائد ڈرون حملوں، جو سب سے مہلک ہیل فائر میزائل کا استعمال کرتے ہیں، کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ جو معمولی مسئلہ تھا وہ بہت بڑا مسئلہ بن گیا اور اب وہ کنٹرول سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے تاسف سے کہا کہ آج شورش پسندوں کی تعداد ۵۰۰سے بڑھ کر چھ ہزار تک ہوگئی ہے اور مقابلہ میں ایک لاکھ سے زیادہ فوج اور ۴۰ ہزار فرنیٹر کنسٹبلری ہے جس سے پورا علاقہ میدانِ جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔
انہوں نے پاکستان کے لیے فاٹا کے عوام کے کردار اور ان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس طرف توجہ دلائی کہ ۳۵۰۰۰سے زائد کی جانی قربانیوں ، اس سے زائد تعداد کے زخمی ہونے اور ایک لاکھ سے زائد افراد کے بے گھر ہونے کے باوجود فاٹا کے عوام نے کبھی کوئی غیر ملکی پرچم بلند نہیں کیااور نہ کبھی غیر ملکی نعرے لگائے۔
بیرسٹر ظفر اللہ خان نے اِس مسئلہ کے قانونی پہلوؤں کاجائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ ۱۹۰۱ء کے ظالمانہ فرنٹیرکرائمز ریگولیشن کو موجودہ حکومت نے مزید غیر انسانی اور غیر منصفانہ قانون بنادیا ہے جسے سویلین طاقت کی مدد کے لیے عملی اقدامات کا ضابطہ ۲۰۱۱ء کا نام دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دستور میں دی گئی اس گارنٹی کو اس قانون نے بے معنی بنادیا ہے کہ ملک کے کسی حصے میں کسی فرد کو اس طرح قید نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کوئی وکیل بھی نہ کر سکے اورکسی قانونی عدالت میں اس کی شنوائی بھی نہ ہوسکے۔ انصاف اور عقلِ عام کے تمام اصولوں کے بر عکس اس قانون کے تحت قید کرنے والی اتھارٹی خود ہی شواہد کی ’’وصولی اور تیاری‘‘کو نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ وہ ایسے کسی فرد کو مجرم قرار دینے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔
ایر کموڈور( ریٹائرڈ ) خالد اقبال نے، جو اس سیمینار کے موڈریٹر بھی تھے، بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ بہت سے اندرونی اور بیرونی عوامل نے اس خطے کی صورتِ حال کو افسوس ناک حد تک خراب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، جس سے پاکستان کا ہر شہری متاثر ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فاٹا کے بحران کو حل کرنے اور خطے کی مخصوص نازک صورتِ حال سے نمٹنے کے لیےاحتیاط کے ساتھ قدم بہ قدم بہتری کی طرف بڑھا جائے۔
نوعیت: روداد سیمینار
تاریخ: ۱۰ مئی ۲۰۱۲ء
جواب دیں